Episode 42 - Phansi By Saadat Hasan Manto

قسط نمبر 42 - پھانسی - سعادت حسن منٹو

وہ خود بھی اپنے کام میں منہمک ہوگیا۔ اچانک گھڑی کے گجر کی آواز سنائی دی۔ اس پر وہ اٹھا اور دروازے کے قریب خاموش کھڑا ہوگیا۔
دروازہ کھلا اور ناظم کمرے میں داخل ہوا۔ وہ حسب معمول نہایت اطمینان سے کسی حادثہ سے بے خبر گزر رہا تھا کہ اپنے پیچھے کسی کی آہٹ سن کر مڑا۔ تو کلاوے کوکھڑا پایا۔
”تم اس جگہ کیا کر رہے ہو ، اپنی جگہ پر کیوں نہیں جاتے؟“ ناظم نے پوچھا۔
”میں جناب سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔“ کلاوے نے موٴدبانہ کہا۔
”وہ کیا؟“
”ایلبن کی واپسی … “
”پھر وہی ضد“
”ہمیشہ رہے گی۔“
”معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے لئے 24 گھنٹے سزائے تخلیہ ناکافی تھی۔“ ناظم نے وہاں سے چلتے ہوئے کہا۔
”جناب میرا رفیق مجھے واپس عنایت کیجیے۔

(جاری ہے)

“ کلاوے نے اس کے پیچھے چلتے ہوئے کہا۔

”ایسا ہونا ناممکنات سے ہے۔“ ناظم نے جواب دیا۔
”جناب میں پھر ایک دفعہ التجا کرتا ہوں کہ میرے رفیق کو میرے پاس بھیج دیجئے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ میں کس طرح دل لگا کر کام کرتا ہوں۔ آپ آزاد ہیں، اسلئے آپ اس شخص کے احساسات قلب کا اندازہ نہیں لگا سکتے، جس کا دنیا میں ایک ہی دوست ہو۔ ایک ہی رہا سہا سہارا ہو۔ زندان کی چار دیواری میں اس رفیق کی موجودگی ہی میرے لئے دنیا کی عزیز ترین نعمت ہے۔
آپ آزادانہ چل پھر سکتے ہیں۔ آپ کے لئے دنیا میں سب کچھ موجود ہے مگر میرے لئے ایلبن ہی دنیا ہے۔ خدا کیلئے ! … اسے میرے پاس بھیج دیجئے۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ وہ اپنا کھانا میر ے ساتھ تقسیم کیا کرتا تھا۔ اگر ایک تیرہ بخت انسان کلاوے اس جگہ اپنے رفیق کے ساتھ تنہائی کے ایام بسر کرے تو اس میںآ پ کا کیا حرج ہے۔ آپ سے صرف اجازت چاہتا ہوں … ”صرف ہاں۔
جناب! میرے اچھے جناب! میں خدا کے نام پر ملتجی ہوں کہ میری گزارش کو قبول فرمائیے۔
یہ کہہ کر کلاوے جذبات کا طوفان سینہ میں دبائے ناظم کے جواب کا منتظر تھا۔
”یہ کبھی نہ ہوگا! میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ میرے احکام میں تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ جاؤ تم ستا رہے ہو۔“ یہ کہہ کرناظم نے دروازہ کی جانب رخ کیا۔
اکیاسی چوروں پر قبر جیسی خاموشی طاری تھی۔
کلاوے نے ناظم کے کندھے کو چھُوا اور کہا۔ ”مجھے یہ تو معلوم ہونا چاہئے کہ آخر کن وجوہ کی بنا پر آپ میرے ساتھ ظلم کر رہے ہیں؟“
”اس لئے کہ یہ میری مرضی ہے۔“ ناظم نے جواب دیا۔
یہ جواب سُن کر کلاوے ایک قدم پیچھے ہٹا … ایک سو باسٹھ آنکھوں نے اُسے کوٹ سے کلہاڑی نکالتے ہوئے دیکھا … ایک لمحہ میں ناظم کی لاش زمین پر بے جان پڑی تھی۔
تین ضربوں نے اس کے سر کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے تھے۔ کلہاڑی کی چوتھی ضرب سے اس کی شکل پہچاننی مشکل تھی۔
کلاوے نے جو غصہ وانتقام سے اندھا ہو رہا تھا، ایک اور کلہاڑی ناظم کی بے جان لاش پر پورے زور سے ماری۔ مگر بے فائدہ ناظم پہلے وار سے ہی سرد ہوچکا تھا۔ کلہاڑی کو ایک طرف پھینکتے ہوئے کلاوے چلّایا۔ ”اب دوسرا، دوسرا وہ خود آپ تھا۔ اپنی بیوی کی قینچی نکال کر اس نے اپنی چھاتی میں پیوست کرلی۔
مگر حسب مقصود نتیجہ نہ نکلا۔ قینچی اس کی مضبوط چھاتی میں اچھی طرح نہ جاسکی۔ قینچی سے بیس وار کئے، اور کئے، مگر بے سود۔ آخر کار چلّایا۔ لعنت! دل کی جگہ ہی نہیں ملتی۔“ اتنا کہا۔ اور خون آلود بے ہوشی کے عالم میں زمین پر گر پڑا۔
”بتائیے ان دونوں میں سے کون کس کا شکار تھا؟“

Chapters / Baab of Phansi By Saadat Hasan Manto