Mehengai O Muashi Badhaali Se Oil Tankers Industry Tabahi Ke Dahane Par

Mehengai O Muashi Badhaali Se Oil Tankers Industry Tabahi Ke Dahane Par

مہنگائی و معاشی بدحالی سے آئل ٹینکرز انڈسٹری تباہی کے دہانے پر

ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو درپیش مشکلات کا خاتمہ کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے

رحمت خان وردگ
اس وقت ٹرانسپورٹ انڈسٹری تباہی کے دہانے پہنچ چکی ہے۔گڈز ٹرانسپورٹ‘آئل ٹینکرز اور بس اونرز سب‘دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں کیونکہ کرایوں میں اضافے کا غیر منصفانہ فارمولہ لاگو ہے جو مہنگائی میں اضافے کا پوری طرح سے ازالہ نہیں کرتا اس وقت اسٹیٹ بینک کی جانب سے سود کی شرح بہت زیادہ ہے اور جن لوگوں نے بینکوں سے گاڑیاں لیزنگ پر لے رکھی ہیں ان کے لئے اقساط کی بروقت ادائیگی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔
سانحہ احمد پور شرقیہ کے بعد اوگرا کے غیر حقیقی احکامات کے باعث آئل ٹینکرز مالکان فاقہ کشی پر مجبور کر دیئے گئے ہیں،نئے ماڈل کی گاڑیاں بنا کر آئل مارکیٹنگ کمپنیز میں رجسٹرڈ کرانے والے آئل ٹینکرز مالکان کی حالت زار بہت خراب ہے ایسے حالات میں رہی سہی کسر آئل ریفائنریز‘آئل ڈپوز کے عملے نے پوری کر دی ہے۔

(جاری ہے)

پیٹرولیم مصنوعات اور مائع چیزوں کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کے وقت عالمی طور پر ٹینک کا درست ڈپ اور اس وقت کا درست ٹمپریچر بہت معنی رکھتا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر آئل ٹینکر کے عملے کے پاس ڈپ راڈ اور ٹمپریچر چیک کرنے کے لئے تھرما میٹر ہو اور آئل ٹینکر کو لوڈ یا خالی کرتے وقت ریفائنریز اور ڈپوؤں کا عملہ اپنے ڈپ اور ٹمپریچر کو ہر لمحے بدلتے موسم کے باعث ہر 2 گھنٹے بعد نوٹ اور تبدیل کرتا رہے تاکہ درست ترین اعداد و شمار سے گاڑی کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ ہو سکے جس آئل ٹینکر کے عملے کے پاس ڈپ اور ٹمپریچر چیک کرنے کی سہولت موجود ہوتی بھی ہے تو آئل ریفائنریز اور ڈپوؤں کا عملہ لوڈنگ اور خالی کرتے وقت ان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان کے ڈپ اور ٹمپریچر کو اہمیت دے اور درست اعداد و شمار کے مطابق گاڑی کو لوڈ یا خالی کیا جائے بلکہ آئل ریفائنریز کا کرپٹ عملہ پیسوں کی لالچ میں غلط اعداد و شمار درج کرتا ہے جس سے آئل ٹینکر کو ہر ٹرپ پر 150 لیٹر تک شارٹیج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس معاملے میں جو ڈرائیور آئل ریفائنریز اور ڈپوؤں کے عملے کو آئل ٹینکر لوڈ یا خالی کرتے وقت مناسب رقم دے دیتے ہیں تو ان کو مال پورا ہونے کی تصدیق کرکے دی جاتی ہے اور کوئی شارٹیج نہیں لکھی جاتی۔


وفاقی وزیر پیٹرولیم،وفاقی سیکریٹری پیٹرولیم اور چیئرمین اوگرا کو اس معاملے کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے اور تمام آئل ریفائنریز آئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈپوؤں کو احکامات دینے چاہئیں کہ ”ہر آئل ٹینکر کو ڈپ اور ٹمپریچر کرنے کا حق حاصل ہے اور اسے ہر کمپنی کو تسلیم کرنا ہو گا تاکہ راشی افراد کی ذاتی لالچ سے آئل ٹینکرز انڈسٹری معاشی تباہی سے بچ سکے“تمام آئل ریفائنریز‘آئل مارکیٹنگ کمپنیز اور ڈپوؤں کے افسران کو پابند کیا جائے کہ آئل ٹینکرز کے عملے کو بھرپور طریقے اس حق کے استعمال کی بھرپور سہولت ملنی چاہئے تاکہ حق تلفی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
ٹرانسپورٹ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے زیادہ افراد کا تعلق بلوچستان،کے پی کے،جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار کے پسماندہ علاقوں سے ہے ان افراد کی کفالت کا واحد ذریعہ ہی ان کی ٹرانسپورٹ ہے جس سے ناصرف ان کی اپنی فیملی بلکہ گاڑیاں چلانے والوں سے لے کر مرمت و دیگر شعبوں کے سینکڑوں خاندانوں کی کفالت ہوتی ہے ان تمام علاقوں کے لوگوں نے حکمراں جماعت کو اسی لئے ووٹ دیا تھا تاکہ حکومت ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو حائل مشکلات کا خاتمہ کرکے معاشی خوشحالی کی جانب اہم فیصلے کرے گی لیکن موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد مہنگائی سے جہاں ہر طبقہ معاشی بدحالی کا شکار ہوا ہے وہیں ٹرانسپورٹ انڈسٹری دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی ہے ان حالات میں غلط اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے آئل ٹینکرز کا مسلسل استحصال روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں فوری مناسب احکامات صادر ہونے چاہئیں۔

جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت اس حوالے سے بھی آئیڈیل تھا کہ جب اسٹیٹ بینک کا مارک اپ ریٹ 4 فیصد تک کی نچلی سطح پر آگیا تھا اور اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کے حکم پر تمام بینک بغیر سیکیورٹی کے مجموعی قرضوں کا 50فیصد عام آدمی کو مائیکرو فنانس کر رہے تھے اس دور میں معیشت اپنے عروج پر تھی اور اس دور حکومت میں ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو بھی بہت کم ریٹ پر گاڑیاں فنانس ہونے کے باعث ٹرانسپورٹرز خوشحال تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار چھوڑا تو اس وقت جاپانی ٹائر برج اسٹون کی ایک جوڑی کی قیمت 37 ہزار 5 سو روپے تھی۔بدقسمتی سے جمہوری ادوار میں معیشت کی حالت زار ہمیشہ سے خراب ہوتی ہے کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر معیشت کو چلایا جاتا ہے جس سے ان عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر مہنگائی ہو رہی ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مہنگائی تو بڑھی لیکن اس حکومت نے آئل ٹینکرز کے اس وقت کے کرایوں کو دو گنا کر دیا تھا کیونکہ صرف ڈیزل کی قیمت میں اضافے کی شرح سے کرایوں میں اضافہ غیر منصفانہ ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ٹائر‘اسپیئر پارٹس‘ٹول ٹیکس‘ایکسائز ٹیکس‘فٹنس‘انشورنس‘پرمٹ‘ڈرائیوروں کی تنخواہیں‘دفتری اخراجات سمیت ہر چیز کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو رہا ہوتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے صرف ڈیزل کی قیمت میں اضافے کی شرح سے کرایوں میں اضافہ درست نہیں کچھ عرصہ قبل جو انجن کا سامان 3 لاکھ میں آجاتا تھا آج اس کی قیمت 6 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے لیکن کرایوں میں اضافے کے فارمولے میں ان اخراجات کا کوئی ذکر نہیں ہوتا اسی طرح اب چائنا کے ٹائر کی ایک جوڑی کی قیمت 1 لاکھ 30 ہزار تک جا پہنچی ہے جس کی لائف بمشکل ایک سال بھی نہیں ہوتی۔
حکومت کو چاہئے کہ کرایوں میں اضافے کے لئے صرف ڈیزل کی قیمت میں اضافے کی شرح کے بجائے اسپیئر پارٹس،ٹائر و دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی شرح کو بھی شامل کرکے کرایوں میں اضافے کا فارمولہ تشکیل دے تاکہ ٹرانسپورٹ انڈسٹری اپنا کاروبار جاری رکھ سکے اور اس سے وابستہ کروڑوں خاندان معاشی بدحالی سے نکل سکیں۔

Browse More Business Articles