Ravi Ki Kahani

Ravi Ki Kahani

راوی کی کہانی

راوی جس کے کنارے لاہور شہر کو بسایا گیا آج دم توڑ رہا ہے - فکری غلامی کی علمبردار حکمران اشرافیہ نے آبی ذخائر یا ملک کو خود کفالت کی جانب لے جانے والے منصوبوں کو بننے نہیں دیا

دریائے راوی پر ”شاہ پورکانڈی“ ڈیم کی تعمیر سے بھارت کی جانب سے آنے والا پانچ فیصد پانی بند ہوچکا ہے اس کو لے کر سوشل میڈیا پر بھرپور بحث جاری ہے سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں مگر کوئی قوم کو سچ بتانے اور قوم اسے سننے کو تیار نہیں ‘کہا جاتا ہے ہم ”جذباتی“قوم ہیں مگر حقیقت میں ہم مفاد پرست ہیں اپنی قیادت کی طرح لاہور کا ذکر راوی کے بغیر ممکن نہیں ‘وہ راوی جس کے کنارے اس شہر کو بسایا گیا دم توڑ رہا ہے -آج مگرمچھ کے آنسو بہانے والے اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں بھارت میں راوی زندہ ہے ہم نے اسے مار دیا اور آخرکار اسے پلاٹوں میں تقسیم کرکے بیچنے کے درپے ہیں یہ ہماری اجتماعی فکر ہے جب اس ملک کی بنیاد ہی مفاد پرستوں نے ٹیڑھی کردی تو ”ببول پر آم “کیسے لگیں گے؟اس تحریر کے ذریعے مختصر پیرائے میں ”راوی“کی کہانی بیان کرنے کی کوشش کروں گا-پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کے ایک سال بعد ہی پانی پر تنازعہ شروع ہوگیا تھا جب کشمیر پر قبضے کے لیے حملہ کیا گیا تو جواب میں بھارت نے دریاﺅں کا پانی روک دیا جس سے قحط کی صورتحال پیدا ہونے لگی بانی پاکستان کی ہدایت پر ایک وفد بھارت گیا وقتی طور پر مسلہ حل ہوا مگر بھارت کے ردعمل سے پہلی مرتبہ پاکستان کو ”واٹرایشو“کی سنگینی کا اندازہ ہوا جس کے بعد اقوام متحدہ اور عالمی برداری کے سامنے مسلے کو اٹھایا گیا ‘دوطرفہ مذکرات بھی ہوتے رہے 1960میں جاکر ورلڈ بنک کی ثالثی میں دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے معاملے پر باقاعدہ مذکرات کا آغازہوا اور یوں سندھ طاس معاہدہ طے پایا-سندھ طاس معاہدے میں چھ دریاﺅں سندھ‘چناب‘ستلج‘بیاس‘جہلم اور راوی کوشامل کیا گیا معاہدے کے تحت تین دریا راوی‘ بیاس اور ستلج بھارت اور سندھ‘چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے سندھ طاس معاہدے میں شامل چھ دریاﺅں کے پانی کا 135ملین ایکٹر پاکستان جبکہ محض 35ملین ایکٹرپانی بھارت کے حصے میں آیا-بھارت راوی میں پانچ فیصد اضافی پانی بھی دیتا رہا جو دوملین ایکٹرفٹ بنتا ہے جبکہ سیلاب کی صورت میں یہ کئی گنا زیادہ ہوجاتا تھا 1990کی دہائی کے آغازمیں ہم دوست مل کرملتان روڈ پر اپنے آبائی گاﺅں کھاڑک سے پیدل راوی کے کنارے تک جاتے بند پار کرتے ہی امرود کے باغات شروع ہوتے اور راوی کے کنارے چچا نیامت کے تربوزکے کھیت ہمارا آخری پڑاﺅ ہوتے ‘دریا کے کناروں کے قریب تیراکی اور تازہ تربوز‘زندگی کے سنہرے ایام میں سے ہیں راوی کا پاٹ 30/40میٹر سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھا-دوسرے کنارے شرقپور بلند ٹیلے پر آباد ہونے کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے کی آوازیں وقفے وقفے سے خاموشی کو توڑتیں‘راوی کے اس حصے میں تین ‘چار” بیلے“ بھی ہوتے تھے یہ اس راوی کی باتیں جن کے عینی شاہد ہم خود ہیں-واپس جاری بحث کی طرف آتے ہیں 2016میں ”اوڑی“حملوں کے بعد بھارت نے اپنی واٹرپالیسی کو ریویو کرنا شروع کیا اور 2019میں ”پلوامہ حملوں“کے بعد وزیراعظم نریندرمودی کا بیان سامنے آیا کہ ”خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے“ ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ بھارت کی نئی واٹرپالیسی کا اعلان تھا1995میں بھارتی وزیراعظم نرسیما راﺅ نے پھٹان کوٹ میں دریائے راوی پر ”شاہ پور کانڈی “ ڈیم کی بنیاد رکھی تاہم جموں اور پنجاب کی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے 33سو کروڑ روپے کا یہ منصوبہ التواءکا شکار ہوگیا 2018میں موجودہ بھارتی وزیراعظم مودی نے اسے دوبارہ شروع کیا جس کے بعد بھارت کی جانب سے راوی میں چھوڑا جانے والا پانچ فیصد اضافی پانی بھی رک گیا اور یوں ایک عظیم دریا المناک انجام سے دوچار ہوا لیکن اس کہانی بڑا ولن پاکستان خود ہے -گنگاجمنا کی طرح ہندﺅ دھرم میں راوی کا شمار بھی مقدس دریاﺅں میں رہا ہے ہندﺅ کی مقدس کتاب” ویدا“ میں بہت سارے مقامات پر ”شنی اورایراوتی“ کے نام سے راوی کا ذکر ملتا ہے” رگ وید“میں دس دیوتاﺅں کی جنگ میں بھی راوی کا تذکرہ ملتا ہے کہ دیوتاﺅں کے درمیان یہ جنگ اسی دریاکے کنارے لڑی گئی ہمالیہ کی بلندیوں سے پھوٹنے والا یہ عظیم دریا ہماچل پردیش اورجموں و کشمیر سے ہوتا ہوا لاہور آتا تھا اور پھر کمالیہ ‘چیچہ وطنی سے ہوتا ہوا کوٹ اسلام کے قریب جاکر ستلج سے جاملتاچند دہائیوں کے بعد شاید ”راوی کی کہانی“سنانے والا بھی کوئی نہ ہو-راوی کا بڑا ولن پاکستان کیسے ہے؟برطانیہ کی یونیورسٹی آف یارک نے2022میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں دنیا بھر کے دریاﺅں کے ڈیٹا کا جائزہ لے کر راوی کو دنیا کا سب سے آلودہ دریا قراردیا گیا ‘ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق27سو فیکٹریاں اپنا انڈسٹریل فضلہ راوی میں ڈال رہی ہیں جس میں سب سے بڑی مقدار کیمیکل اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کے فضلے کی ہے ‘لاہور کے بڑے ہسپتالوں کا ”میڈیکل ویسٹ“راوی میں پھینکا جاتا رہا اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے -ہماری حکومتوں نے موٹرویز‘اورنج لائن‘میٹرو بس سروس جیسے ”عظیم الشان“منصوبے بنائے مگر کوئی ایک حکومت بھی راوی کو صاف نہ کرسکی راوی کیمیکل اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کے فضلے ‘ ہسپتالوں کے ”میڈیکل ویسٹ“ کی ”سلوپوائزئنگ“ سے دم توڑتا رہا مگر ہمارے ”نیرو“چین کی بانسری بجاتے رہے‘راوی کے بیلے مٹ گئے‘ لاہورکے مسیحاﺅں نے آخری نشانی ”نیشنل پارک“کو جس ظالمانہ طریقے سے ختم کیا اس کی مثال نہیں ملتی آخرکار ”روڈا“ قائم کرکے راوی کے ”ڈیتھ وارنٹ“پر دستخط کردیئے گئے افسوس کہ تابوت میں آخری کیل بھی لاہور کے ہی ایک سپوت کے ہاتھوں لگی-بھاری مشنری کے شور سے کانوں پڑی آوازسنائی نہیں دیتی نیا شہر بسایا جارہا ہے مگر کس قیمت پر؟افسر شاہی اور حکمران اشرافیہ کی لاجک انتہائی واہیات ہے کہ پانی نہیں تو دریا کی اہمیت نہیں رہی لہذادیہاتوں کو ویران کرو‘ کسانوں کو ان کے آباواجداد کی زمینوں سے زبردستی بے دخل کرکے راوی کو پلاٹ بنادو‘ملکی اور غیرملکی ادارے ماحولیات کے حوالے سے اس منصوبے کو لاہور شہر کے زہرقاتل قراردے چکے ہیں مگر ہماری قومی سوچ پلاٹوں تک محدود ہے اس سے آگے ہماری قیادت یا ملک کو چلانے والے سوچ ہی نہیں سکتے‘شاید آنے والے دنوں میں لاہور کے قبرستانوں پر پلاٹ کٹنا شروع ہوجائیں-راوی کو زندہ رکھا جاسکتا تھا مگر سول ہو یا فوجی ہمارے حکمرانوں کا ”آئی کیولیول“ایوریج سے بھی نیچے ہے لاہور کے قریب راوی پرہیڈبلوکی پکنک پوائنٹ ہواکرتا تھا جس میں چند سال قبل 7 ملین ایکٹر فٹ پانی تھا جو اب صفر اعشاریہ 85 ملین ایکٹرفٹ رہ گیا ہے راوی میں مچھلیوں کی 42اقسام ختم ہوچکی ہیں کیمیکل اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کے فضلے ‘ ہسپتالوں کے ”میڈیکل ویسٹ“ ملے پانی میں مچھلیاں کیسے زندہ رہتیں ؟کیا ہماری جاہل افسر شاہی اور کوڑمغز حکمرانوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ”ریور بیڈ کی گیلی زمین سیلاب کے پانی کو جذب کر نے کی صلاحیت رکھتی ہے یعنی کسی وجہ سے بھارت اضافی پانی راوی میں ڈالتا ہے تو سیلاب سے بچاﺅ کے لیے ہمارے پاس کیا بندوبست ہے؟ دوسراکالونیل سوچ کی حامل حکمران اشرافیہ اور افسرشاہی کی جہالت کی وجہ سے پاکستان ہر سال29ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں ڈالتا ہے‘دنیا میں بارش کاپانی محفوظ کرنے کے لیے ذحائر بنائے جاتے ہیں ہمارے ہاں سالانہ145ملین ایکٹرفٹ پانی بارشوں سے حاصل ہوتا ہے مگر ہم اس کا صرف دس فیصد یعنی 14ملین ایکٹرفٹ ہی استعمال کرپاتے ہیں اسی طرح ہم عام استعمال میں ہم30ملین ایکٹرفٹ پانی ضائع کرتے ہیں-ان سارے اعدادوشمار کو جمع کرکے اندازہ لگائیں کہ کس بے دردی سے ہم پانی کو ضائع کررہے ہیں جتنا پیسہ ”روڈا“ کو دیا گیا ہے اس کے نصف سے بھی آبی ذخائر اور نہروں کے ذریعے راوی کو دوبارہ زندہ کیاجاسکتا تھا مگر قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم پر مسلط فکری غلامی کی علمبردار حکمران اشرافیہ نے آبی ذخائر یا ملک کو خود کفالت کی جانب لے جانے والے منصوبوں کو بننے نہیں دیا صوبوں کے درمیان ایسے منصوبوں پر اختلافات ہوں یا غداری کے سرٹیفکیٹ ان کے پیچھے فکری غلامی کی سوچ ہی کار فرما نظرآتی ہے‘اس المناک داستان کے لیے دفتر دکار ہیں کس طرح لاہور کے استعمال شدہ پانی سے رراوی کو بچایا جاسکتا تھا؟بارشوں کے پانی کے ذخائرسے ہم کتنے فوائد حاصل کرسکتے تھے؟ یہ کہانی پھر سہی جاتے جاتے ایک وارننگ کا ذکر جو کئی معتبر اداروں نے دی ہے کہ لاہور سمیت پاکستان کے بڑے حصے کو اتنا خطرہ ایٹمی جنگ سے نہیں جتنا ماحولیاتی آلودگی سے ہے-

Browse More Business Articles