Mulki Taraqi O Khushhali Ke Liye Khoraak Mein khud Kifalat Naguzeer
ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے خوراک میں خود کفالت ناگزیر
کسانوں کا معاشی استحصال بند کرکے پانی کی تقسیم منصفانہ کرنا ہو گی
زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور زراعت سے پاکستان کو سالانہ کھربوں روپے آمدن ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے کسان اور زراعت پر حکومت بہت ہی کم رقم خرچ کرتی ہے اسی لئے گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان کی دیہی آبادی بڑے شہروں کی جانب منتقل ہو رہی ہے اور بڑے شہروں پر آبادی کے بے پناہ دباؤ کے باعث بڑے شہروں کی حالت زار خراب سے خراب تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں اس وجہ سے مسلسل تیزی آ رہی ہے کیونکہ زراعت پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں رہی اور کسان اپنی زمینوں سے مناسب روزگار نہ ملنے کے باعث اپنا یہ پیشہ ترک کرکے شہروں کو منتقل ہو رہے ہیں جبکہ ہر حکومت آئی ایم ایف‘ورلڈ بینک اور اسلامی ممالک سے قرض لے کر قومی خزانے میں بڑھتے ڈالرز پر فخر محسوس کرتی رہی ہے۔
(جاری ہے)
گندم‘کپاس اور گنے کی قیمتوں کا مناسب تعین اور سرکاری ریٹ پر مکمل فصل کی خریداری یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت کسانوں کو فصل بوائی کے وقت معیاری کھاد‘بیج‘زرعی ادویات اور زرعی مشینری آسان شرائط پر فراہم کرے اور وافر پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا جانا چاہئے اور فصل آنے پر کسانوں سے ان چیزوں کی مناسب قیمت لی جائے کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے کہ ہماری حکومت میں پاکستان خوراک میں خود کفیل ہوا حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف کی حکومت سے قبل تمام حکومتیں بیرون ملک سے غیر معیاری گندم درآمد کرتی تھیں اور گندم کی بیرون ملک خریداری‘شپمنٹ‘اسٹوریج‘ٹرانسپورٹ غرض ہر ہر مرحلے پر کمیشن مافیا اپنے پیٹ بھرتی تھی اور پاکستان میں ایسا مافیا موجود ہے جس کا یہاں مقامی لوٹ مار سے پیٹ نہیں بھرتا بلکہ بیرون ملک سے چیزوں کی خریداری کرکے اپنا پیٹ بھرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور جنرل مشرف کے دور سے قبل پاکستان خوراک میں خود کفیل نہیں تھا اور بیرون ملک سے ہر سال غیر معیاری گندم درآمد کی جاتی تھی۔بیرون ملک سے آئی ہوئی 3 کلو چینی اور 3 کلو گندم مقامی ایک ایک کلو چینی اور گندم کے برابر ہوتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی پارٹی کے پنجاب کے کسانوں کی کانفرنس طلب کی جو مناسب نہیں۔ملک بھر کے تمام کسانوں کو مدعو کرکے کسان کانفرنس ہونی چاہئے جس طرح جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسلام آباد میں کسان کانفرنس طلب کی اور کسانوں سے تجاویز طلب کی گئیں اور کانفرنس میں پیش کی گئی کسانوں کی تقریباً تمام تجاویز جنرل مشرف نے منظور کرکے فوری طور پر گنا 350 روپے فی من ‘گندم 1000-1200 روپے من اور کپاس 3000 روپے من مقرر کی اور سرکاری ریٹ پر تمام فصلوں کی خریداری کو یقینی بنایا اور پھر ملک خوراک میں خود کفیل ہو گیا۔حکومت باقاعدگی سے سال میں 2 بار بھل صفائی کرائے اور اس کا آغاز ابھی سے ہونا چاہئے۔پانی کی تقسیم بھی منصفانہ ہونی چاہئے۔جنرل مشرف نے 1999-2000ء میں گنا 350 روپے من مقرر کیا تھا تو 20 سال گزرنے کے بعد اب موجودہ حکومت زیادہ نہیں تو 500 روپے من گنے کی قیمت مقرر کرے۔کپاس کی قیمت کم از کم 4 ہزار روپے من اور گندم کم از کم 2500 روپے من ہونی چاہئے۔
بھارت کی آبادی ایک ارب 26 کروڑ ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لئے بھی بھارت خوراک میں خود کفیل ہے اور بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے کیونکہ وہاں کھاد‘بیج اور زرعی ادویات معیاری بھی ہیں اور پاکستان کی نسبت ان چیزوں کی قیمتیں بھارت میں بہت کم ہیں اور وہاں کی حکومت کی زراعت پر خصوصی توجہ ہے اور کسان کو ہر سطح پر سبسڈی دی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں نہ تو کھاد معیاری ملتی ہے اور نہ ہی بیج اور زرعی ادویات کا معیار درست ہے اور غیر معیاری چیزوں کی بھی قیمتیں بہت زیادہ ہیں لیکن حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی برائے نام ہے جبکہ زراعت کا شعبہ ملک کو سالانہ کھربوں روپے دیتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
زراعت کی ترقی اور خوراک میں خود کفالت کے لئے کسان کو وافر پانی کی دستیابی بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور نہری علاقوں کے علاوہ ٹیوب ویل سے آبپاشی والے علاقوں کے زمیندار اسی وقت خوشحال ہو کر بھرپور محنت کر سکتے ہیں جب انہیں ٹیوب ویل چلانے کے لئے ماہانہ فکس بجلی بل ادا کرنا ہو یا بہت کم قیمت میں فی یونٹ ادائیگی کا نظام رائج کیا جائے تو زراعت ترقی کرے گا اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے باعث ڈیزل سے ٹیوب ویل چلا کر کاشتکاری کرنے والے زمینداروں کو تو فصل میں سراسر نقصان کا سامنا ہے اور کئی لوگوں نے سال میں 2-3 فصلیں لینے کے بجائے صرف گندم کی فصل کاشت کرنے کا طریقہ کار اپنا رکھا ہے کیونکہ ڈیزل سے ٹیوب ویل چلا کر فصل نقصان میں جاتی ہے اور کسان کو اپنی محنت بھی نہیں مل پاتی اس سلسلے میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کو خصوصی توجہ دیکر زراعت کے لئے موٴثر پالیسیاں تشکیل دینی ہوں گی اور بہتر تو یہ ہے کہ جنرل مشرف کی طرح موجودہ حکومتیں بھی کسان کانفرنس طلب کریں اور کسانوں کے اپنے مطالبات اور چارٹر آف ڈیمانڈ کے عین مطابق پالیسیاں تشکیل دے کر اس پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں تو ملک میں موجود آٹا اور چینی مافیا کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔خوراک میں خود کفالت کے باوجود حکومت کی غلط پالیسیاں اور ذخیرہ اندوز مافیا کی کارستانیاں بھی عام آدمی کے لئے مشکلات اور مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔جب تک اپنے ملک کی ضرورت کی وافر گندم اور چینی موجود نہ ہو‘ دوسرے کسی بھی ملک کو دینا سراسر اپنی عوام سے زیادتی ہے۔ایسے لوگوں کو اختیارات دینا جو خود آٹا اور چینی کے بحران کے ذمہ دار ہیں سراسر غلط طریقہ کار ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو مناسب فیصلے کرکے ذخیرہ اندوز مافیا کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
Browse More Business Articles
راوی کی کہانی
Ravi Ki Kahani
خیبر پختونخواہ امن کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن
Khyber Pakhtunkhawa Amaan Ke Baad Taraqi Ki Rah Per Gamzan
مہنگائی و معاشی بدحالی سے آئل ٹینکرز انڈسٹری تباہی کے دہانے پر
Mehengai O Muashi Badhaali Se Oil Tankers Industry Tabahi Ke Dahane Par
ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے خوراک میں خود کفالت ناگزیر
Mulki Taraqi O Khushhali Ke Liye Khoraak Mein khud Kifalat Naguzeer
مہنگائی و بیروزگاری کی خوفناک لہر میں حکومت کے معاشی اشاریے
Mehngai O Berozgari Ki Khofnak Leher Mein Hakomat Ke Muashi Ishariye
مہنگائی و بے روزگاری کا اژدھام اور حکومتی ترجیحات
Mehngai o Berozgari Ka Azdaham Aur Hakomati Tarjeehat
برطانوی سکے جو پاکستان میں رائج رہے۔ وجہ کیا تھی؟
Bartanvi Sikke Ju Pakistan Main Raij Rahe
مالیاتی اداروں کی بلیک میلنگ اور ڈگمگاتی معیشت
Maaliyati Idaroon Ki Blackmailing
زراعت کی ترقی کے لئے حکومتی اقدامات
Zaaraat Ki Taraqi K Liye Hakomati Iqdamat
مردم خور”سیاسی بلی“کس کی تھی
Mardam Khoor Siyasi Billi Kis Ki Thi
بھارت میں کسانوں کا خوفناک استحصال
Baharat Main kissanoon Ka Khofnak Istehsaal
نواز شریف کے بیانیے سے اپوزیشن کا انحراف
Nawaz Sharif K Bayaniye Se Opposition Ka Inheraf