
امریکہ کے قطر سے معاہدے عرب ممالک کی ناکہ بندی!
مغرب کا دوہرا رویہ مشرق وسطیٰ تباہی کے دہانے پر․․․․ دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگانے کے بعد دفاعی معاہدے سوالیہ نشان بن گئے؟
ہفتہ 1 جولائی 2017

قطر پر شدت پسند تنظیموں کی معاونت کرنے کے الزام نے اتنا طول پکڑ اکہ سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے کئی ممالک نے تعلقات منقطع کر لئے،یہ پہلی بار نہیں ہواہے کہ قطر کے پڑوسی ممالک نے اس کی خارجہ پالیسی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہو کیونکہ 2014ء میں بھی تقریباََ 9 ماہ تک اس سے سفارتی تعلقات منقطع رہے ہیں۔نائن الیون حملے کے بعد سے امریکی قیادت میں عالمی اتحاد کی جانب سے شدت پسندوں کی مالی مدد کو ختم کرنے کی مسلسل کوشش رہی ہے،بہت سے نئے قانون بنا کر شدت پسندوں کی فنڈنگ کو روکنے کے لئے فرضی کمپنیوں،اداروں کی اقتصادی سرگرمیوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ ان سے منسلک املاک اور افراد پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
(جاری ہے)
مغربی ممالک انسانی حقوق کے بڑے دعویدار رہے ہیں لیکن ان کے اقدامات ہمیشہ سے ہی ان کے دعوؤں کے برخلاف رہے ہیں،بعض ممالک کا تویہ دعویٰ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی حمایت کر رہے ہیں لیکن ان کے رویے اور عمل سے آج مشرق وسطیٰ شدید بحران کی لپیٹ میں ہے اور ان گروہوں کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھنا طشت ازبام ہوچکا ہے۔مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب بڑا یئر بیس ”العدید“قطر میں ہی موجود ہے،اس ایئر بیس پر تقریباََ 10 ہزار فوجی اہلکار موجود رہتے ہیں اور یہ بیس شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف اہم کردار ادا کررہا ہے،حالیہ تنازعہ کے پیش نظر امریکہ اس امر سے خائف نہیں ہے کیونکہ امریکہ کو اس بہت بڑے اڈے کیلئے رسد بہم پہنچانے کے عمل کو جاری رکھنا ہے اور یہ رسد اس علاقے سے بھجوائی جاتی ہے۔ جہاں موجود ممالک نے قطر کا عملاََ بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔لہذا امریکی تجزیہ کاروں کے نزدیک قطر اور خطے کے دیگر ممالک کے درمیان جاری تنازع کا جلد از جلد حل ضروری ہے۔کیونکہ یہ بحران خطے میں امریکی مفادات سے متصادم ہے۔امریکہ کا قطر کے ساتھ لڑاکا طیاروں کا معاہدہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ امریکی ادارے قطر کے ساتھ ہیں اور قطر کے لئے امریکی حمایت انتہائی گہری ہے جس پر سیاسی تبدیلیاں کرکے آسانی کے ساتھ اثر انداز نہیں ہوا جاسکتا۔کیا قطر عرب ممالک کی طرف سے پابندیوں کے باوجود اپنی معیشت اور کرنسی کا دفاع کرسکے گا؟،یہ سوال اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔لیکن بظاہر دیکھا جائے تو اگر قطر پر پابندیوں کے بعد ملکی کرنسی کی قدر میں 10 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے،دوسری جانب قطر نے خلیجی ممالک کو نظر انداز کرتے ہوئے اشیائے ضرورت کی درآمد کے لئے نیا سمندری راستہ اختیار کرلیا ہے،قطری حکام اپنے ہمسایہ ممالک پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے تعاون کے بغیر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اس حوالے سے قطر نے عمان کی دوبندر گاہوں سے اشیاء کی براہ راست منتقلی کی خدمات کا آغاز کر دیا ہے۔قطر میں تاحال اشیائے صرف کی کوئی قلت نہیں ہے،تاہم ضرورت پرنے پر ترکی مشرق بعید اور یورپ سے اشیائے صرف درآمد کی جا سکتی ہیں،قبل ازیں قطر اپنی خوراک کا 40 فیصد حصہ سعودی سرحد کی طرف سے درآمد کرتا تھا۔کسی مصالحت کے حوالے سے سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ کیا قطر اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی لائے گا؟بظاہر ایسا لگتا ہے لیکن یہ تبدیلیاں کتنی ہوں گی ،کیا دوسرے فریق اس سے مطمئن ہو سکیں گے تاکہ یہ بحران اپنے اختتام کو پہنچ پائے۔لیکن انتہا پسند نظریات کو مالی امداد مہیا کرنے کا جو مسئلہ کھڑا ہوا ہے وہ شاید اسی طرح توجہ کا مرکز رہے اور چاہے یہ جتنا بھی غیر معقول لگے اب قطر کو شک کی نظر سے ہی دیکھا جاتا رہے گا۔
اسلامی ممالک کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کے ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل مسلم امہ کے اتحاد کے خلاف ہیں اور قطر پر ایک بڑا ڈرامہ کھیلا جارہا ہے جس کا واضح ثبوت امریکہ کا گزشتہ دنوں قطر سے دفاعی معاہدہ ہے کہ وہ ایک طرف قطر پر دہشت گردی کا الزام لگا رہا ہے اور دوسری طرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے معاہدے بھی کر رہا ہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور دیگر 5ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کے اعلان کے بعد قطر شدید دباؤ کا شکار ہے،تین طرف سے سمندر میں گھرے قطر کے ساتھ چوتھی طرف سعودی عرب کی زمینی سرحد ہے ،اس راستے سے قطر کی خوراک کی 40 فیصد ضروریات درآمد ہوتی ہیں اب یہ راستہ بند ہوچکا ہے۔قطر کا فضائی مقاطعہ بھی کردیا گیاہے،اس صورتحال سے ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے لہذا اس بات میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ سعودی عرب اور قطر تنازع پر امریکہ اور اسرائیل کا ایجنڈا نظر آرہا ہے ۔عرب ممالک کے قطر سے تنازعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی حکومت مقبوضہ بیت المقدس میں 1948ء سے قائم الجزیرہ کے دفاتر کو بھی بند کرنیکی کوششوں میں مصروف ہے۔صہیونی ریاست الجزیرہ کے خلاف کاروائی کے لئے کئی جواز پیش کر رہی ہے جن میں سے ایک بہانہ پہلے سے اسرائیل کے پاس موجود ہے کہ الجزیرہ فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل جرائم کے بے نقاب کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے خلاف اشتعال انگیزی پر منبی مواد نشر کررہا ہے۔ترکی کے صدر رجب اردگان کے مطابق قطر کو ایک طرح سے سزائے موت سنائی گئی ہے،لہذا قطر کے خلاف عائد معاشی اور سیاسی پابندیاں غیر انسانی نیز اسلامی اقدار کے منافی ہیں۔پاکستان امت مسلمہ کے اتحاد پر یقین رکھتا ہے لہذا پاکستان کی یہ کوشش بھی کے خلیج قطر تنازع کا کوئی بہتر حل نکل آئے ،یہاں ضرورت اس امرکی ہے کہ جس طرح عالمی برادری خلیج قطر تنازعہ کے حل کے لئے کوشاں ہے ویسے ہی او آئی سی بھی اپنا مئوثر کردار ادا کرے تاکہ مشرق وسطیٰ میں بد امنی کی بھڑکتی آگ پر پروقت قابو پایا جاسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
Amrica K Qatar Se Muahiday Arab Mumalik Ki Naka Bandi is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.