بکنی ،برقع ،ڈائپر۔۔۔

ہم آج جس متنازع یا شاید معاشرتی لحاظ سے نا قابل قبول موضوع پر بات کریں گے وہ جنسی تشدّد ہے۔

Afshan Khawar افشاں خاور پیر 15 جولائی 2019

Bikni Burka Diaper
" ? Was it really my fault  "
asked the Short Skirt.
"No, it happened with me too,"
replied the Burka.
The Diaper in the corner couldn't even speak.
(Darshan Mondkar)

سنا ہے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے اسے تین طرح کی کسوٹی پر پرکھ لینا چاہیے۔
1) کیا یہ سچ ہے
2) کیا یہ ضروری ہے
3) کیا اس سے کسی کوئی کوئی فائدہ ہوگا
تو صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ ہم نے آج کے موضو ع کو تینوں طرح سے پرکھا اور پھر اس کے بارے میں آپ سے بات کا فیصلہ کیا۔


قاعدہ کچھ یوں ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے عموماً اُسکے دو پہلو ہوتے ہیں۔
ایک وہ افراد جو اس مسئلے کو پیدا کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس مسئلے کہ شکار ہوتے ہیں۔
ہم آج جس متنازع یا  شاید معاشرتی لحاظ سے نا قابل  قبول موضوع پر  بات کریں گے  وہ جنسی تشدّد ہے۔

(جاری ہے)


 اس عالم  رنگ و بو کا ایک عجیب قاعدہ ہے جب ہم ظلم کو نہ روک سکیں تو  ہم  خوردبین لگا کر  ظلم کی وجوہات کی تلاش مظلوم میں شروع کر دیتے ہیں۔

کچھ ایسی طرح جنسی جرائم کے شکار  افراد کے ساتھ بھی  ہوتا ہے۔
 ‏
 سب سے پہلے تو ہم یہ سوچتے ہیں کہ کیا یہ سچ بول رہی ہے؟
آخر مجرم نے اسکا ہی انتخاب کیوں کیا؟
اس نے اپنے بچاؤ کی کوشش کیوں نہ کی؟
یہ کون ہے ،کس کے گھر سے ہے،اسکی شناخت کیا ہے؟
غیر مناسب لباس پہنے ہوئے نشے میں مدھوش لڑکی جب اس طرح کے حادثے کا شکار ہوتی ہے تو  اُسے انصاف دینے والا منصف  عدالت میں بیٹھ کر  بھی اس لڑکی کو جرم کی وجوہات میں سے ایک گردانتا ہے۔

رات کو دیر اکیلی باہر جانے والی لڑکی بھی کافی حد تک اپنے ساتھ کیے گئی ظلم کی وجہ خود  سمجھئی جاتی  ہے۔اسی طرح سے کلاس فیلو یا کسی جاننے والے کے ساتھ گھومنے والی لڑکی جب اس طرح کے حالات کی شکار ہوتی ہے تو ہم بری آسانی سے اُسے  کی مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔
لیکن ہم اس وقت بہت پریشان ہوجاتے ہیں جب ہمیں مظلوم  کو مورد الزام ٹھہرا نے کی کوئی وجہ نہ ملتی۔

مثلاً جب جنسی تشد د کا شکار کوئی نو عمر لڑکا یہ کوئی با پردہ خاتون یا کوئی ذہنی معذور فرد ہوتا ہے۔
ان حالات میں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کچھ اور وجوہات بھی ہیں جو کے ان واقعات کا اصل سبب ہیں۔
ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کے پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
اسی سنہرے اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم ہمیشہ اپنی لڑکیوں کو سیکھاتے ہیں کہ وہ کس طرح کا لباس پہن کر باہر جائیں، کسی طرح سے بات چیت میں احتیاط کریں، رات کو دیر سے اکیلی جگہ جانے پر اسے پرہیز کرائیں۔

لڑکوں پر اعتبار نہیں کریں۔
اب ہم تھوڑا اور کھلے ذہن کے ہو جائیں تو ہم اپنے بچوں کو اچھے  اور برے
  touch aur basic sex education
  ‏ کے بارے میں تھوڑا بہت سمجھا تے ہیں، لیکن پتہ نہ کیا مسئلہ ہے کہ  اس طرح کے واقعات نہیں رکتے۔ بہت دفعہ ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کے باوجود اس طرح کے تکلیف دہ واقعات  رونما ہو جاتے ہیں۔


  ‏
جنسی تشدد کی عمومی طور پر دو اقسام ہیں۔
اپہلی قسم  کچھ بنیادی حفاظتی اقدامات سے ان واقعات کو رونما ہونے سے  روکا جاسکتا ہے۔
جیسے کہ بچوں کو اکیلے باہرنہ جانے دینا۔
نوکروں، اجنبیوں یا دور دراز کےرشتہ داروں کے ساتھ وقت گزارنے سے روکنا۔
لڑکیوں اور لڑکوں کو مناسب حدو و قیود کا پابند رکھنا۔
دوسری قسم میں ان حادثات کا تدارک کرنا صرف حفاظتی تدابیر سے ممکن نہیں اور یہ بہت زیادہ عام ہے۔

اور اس کی جڑیں معاشرے میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے شکار افراد میں ہم سب سے پہلے ذہنی  امراض میں مبتلا افراد اور ان بچوں  کی بات کریں گے جو اس ظلم کا نشانہ بنتے ہیں۔
اپنی معذوری کی وجہ سے وہ کسی بھی ظلم کے بارے میں  بتانے سے قاصر ہوتے ہیں ،یہ پھر بتا بھی دیں تو بھی کوئی ان پر یقین ںنہ کرتا۔
دوسرے نمبر پر ہوسٹل ،مدرسہ اور اسکول کے طالب علم ہوتے ہیں جو کہ عمومی طور پر اساتذہ،اسٹاف اور اپنے  سے سینئر طالب علموں کی طرف سے زیادتی  کا شکار ہوتے ہیں۔


خدا را یہ مت سوچئے کے ہم کسی دوردراز علاقوں میں موجود کسی مذہبی مدرسہ کی بات کر رہےہیں بلکہ اس لسٹ میں ملک کے مہنگے ترین اقامتی ادرےبھی شامل ہیں۔
پھر کام کی جگہ   یا work place  پر جنسی تشدد کی بات آتی ہے۔یہ بہت زیادہ عام ہے اورخواتین اور نو عمر  لڑکیاں خاص طور پر اُسکا شکار ہوتے ہیں۔آپ پلیز یہ مت سوچئے کہ هم کسی چھوٹی کریانہ شاپ پر کام کرنے والے ہیلپر لڑکے کی بات کر رہے ہیں  بلکہ بڑے بڑے مالز  میں یہ ٹرینڈ بہت  عام ہے۔


اور ورکرز کی تلاشی کی آڑ میں Molestation تو شاید اتنا عام ھے کہ اس کی شکایت بھی نہیں کی جاتی۔
 گھریلو ملازماوں اور چھوٹے ملازم بچوں پر جنسی تشدد اس حد تک عام بے کہ صرف رپورٹڈ کیسز کا بھی کوئی حساب نہیں۔
 ‏
 ‏اس کے علاوہ وہ گھر جہاں ایک بچہ محفوظ ھوتا ھے۔ اور والدین جو کہ اس کی حفاظت پر معمور ھوتے ہیں، بہت بار وہ خود اس بچے کے استحصال میں ملوث ہوتے ہیں۔

یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے والدین صرف امریکہ یا یورپ میں نہیں ہوتے بلکہ وہ ہمارے اسی معاشرے میں موجود ہو سکتے ہیں ۔
 ‏
 ‏اس طرح کے بے شمار اور معاملات ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے لیکن اس مضمون میں ہمارا مقصد بیان کچھ اور یے۔ ہم اس میں Victim یا مظلوم کی اقسام اور وجوہات کی بجائے ظلم کرنے والے ظالم کے بارے میں بات کریں گے ۔


اس مضمون کا آغاز ہم نے انگلش کی کچھ لائنوں سے کیا تھا جس میں بعد از مرگ کچھ روحیں ملتی ہیں اور ان میں سے ایک جنسی استحصال کا شکار منی سکرٹ پہنی ھوئی لڑکی خود سے سوال کرتی ہے کہ کیا یہ میرا اور میرے لباس کا قصور تھا جس نے اس آدمی کو اس جرم پر مجبور کیا۔
پھر ایک برقعہ پوش خاتون کہتی ہے نہیں اس میں لباس کا کوئی قصور نہیں کیونکہ جب مجھے نشانہ بنایا گیا تو میں تو پوری طرح برقعے میں لپٹی ہوئی تھی اس کا مطلب ہے کہ لباس کا اس میں قصور نہیں۔


ایک کونے میں ایک بچہ ہوتا ہے جس نے ابھی تک Diaper پہنا ہوتا ہے وہ بھی اس ظلم کا شکار ہوا تھا اور اتنا چھوٹا تھا کی ابھی بول بھی نہیں سکتا تھا۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ کیا سوچ ہے جس کے حامل افراد ایک مجبور عورت، ایک ذہنی معذور، ایک بچے، ایک ملازم یا پھر ایک نوزائیدہ بچے کو اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔
ہمارا سوال یہ بھی ہے کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں، کیا ان کا تعلق کسی دوسری دنیا سے ہے؟
نہیں جناب ; یہ لوگ اسی دنیا کی مخلوق ہوتے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان ہی بستے ہیں ۔

۔۔
 
ہم یہ ماننے اور سمجھننے سے قاصر ہیں کہ یہ لوگ کس طرح اپنے گھر والوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔
"کیوں ان کے جرائم پر ان کے والدین، شریک حیات اور معاشرہ پردہ ڈالتا ہے ؟"
 ‏
 ‏اس رویے کی سب سے زیادہ ذمہ دار مائیں ہیں۔ جب یہ لوگ چھوٹے ہوتے ہیں تو ان ان کے والدین خاص طور پر مائیں ان بچوں کی خاطر خواہ حفاظت نہیں کر سکتیں۔

اور عموما یہ لوگ بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں ۔
اور آہستہ آہستہ یہ لوگ اس طرح کے عمل کو بالکل فطری سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اور بڑے ہو کر بھی ان حرکات کو جاری رکھتے ہیں۔
پھر جب یہ جوان ہوتے ہیں اور ان کی یہ حرکات تھوڑی اور بڑھتی ہیں۔ تو فورا ان کی شادی کر دی جاتی ہے اور پھر ان حرکات پر پردہ ڈالنے کی ذمہ داری ان کی شریک حیات کی بن جاتی ہے۔


ہمارے ہاں جنسی زیادتی کا مطلب کم از کم خون میں لت پت بچی، بچہ یا خاتون سمجھی جاتی ہے ۔
" Molestation, Harrassment کو زیادتی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ یہ زیادتی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے ۔ "
ہمیشہ ذہن میں رکھیں کی جو انسان غیر شائستہ انداز میں دیکھتا ہے، فقرہ کستا ہے، نامناسب انداز میں چھوتا ہے یا کوئی غیر اخلاقی لطیفہ سناتا ہے تو یہ طے ہے کہ وہ انسان موقع ملنے پر اخلاقی پستی کی کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔


ہم میں سے شاید ہر انسان اپنی خواتین، بچوں اور بچیوں کو باہر جا تے ہوئے احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتا ہے
"لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کتنے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو یہ سمجھاتے ہیں کہ کسی طرح وہ اپنی نظر اور سوچ کی حفاظت کریں۔"
"جتنا زور لڑکیوں کی حفاظت پر لگایا جاتا ہے اس سے آدھا زور لڑکوں کی تربیت پر لگایا جائے تو جرائم کی شرح کافی نیچے آسکتی ہے ۔

"
سادہ سی بات ہے کہ اگر آپ صرف حفاظتی تدابیر پر زور دیں گے تو یہ اس مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے کیونکہ بے بس، بے گھر اور ذہنی معذور افراد پھر بھی ان
Sexual Proverts کا شکار بنتے رہیں گے۔
ہمیں مسئلے کی جڑ کا علاج کرنا پڑے گا۔ ہمیں اپنے لڑکوں کو ایک محفوظ اور دوستانہ ماحول دینا ہو گا۔ جس میں وہ ہر انسان کی عزت و احترام کرنا سیکھیں۔


اس کے علاوہ بطور انسان بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور جب کسی انسان کو محسوس ہو کہ وہ اس طرح کے منفی، غیر فطری یا ظالمانہ سوچ کا حامل ہے یا اس طرح کی سوچ کسی مخصوص وقت میں حاوی ہوتی ہے تو اسے یا اس کے گھر والوں کو چاہئے کہ وہ ماہر نفسیات سے رابطہ کریں تا کہ مناسب علاج اور تھراپی سے اس طرح کے رویہ کو کنٹرول کیا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Bikni Burka Diaper is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 July 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.