گذشتہ متعدد سالوں پاکستان میں دو عیدیں ہونے سے ملک کی خوب جگ ہنسائی ہوتی ہے مسجد قاسم علی خان کے امام مفتی شہاب الدین پوپلزئی صاحب ہمیشہ مفتی منیب الرحمن صاحب سے ایک دن پہلے چاند دیکھ لیتے ہیں اورعید باقی پاکستان سے ایک دن پہلے کرلیتے ہیں لیکن بڑی عید، دس محرم اور بارہ ربیع الاول کے دنوں میں ان کا یہ چاند پھرایک دن پیچھے چلا جاتا ہے اور یہ دن باقی پاکستان کے ساتھ ہی مناتے ہیں حالانکہ انکو یہ دن بھی باقی پاکستان سے ایک دن پہلے منانے چاہیئیں۔
اسی طرح عید پہلے کرنے سے اگر ہرسال ایک دن کا فرق پڑے اور دس سال کی ہی مثال لے لیں تو امسال مفتی پوپلزئی صاحب کا رمضان باقی پاکستان سے دس دن پہلے شروع اور ختم ہونا چاہیئے تھا۔
قمری کیلنڈر بنانا درست اقدام تھا لیکن فواد چوہدری کے غیر سنجیدہ بیانات اور بھونڈے طرزعمل نے اس خالصتا علمی مسئلے کو بھی تماشہ بنادیا۔
(جاری ہے)
درست طریقہ یہ تھا کہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن اور دیگر کو بلا کر عزت دی جاتی اور کہا جاتا کہ آپ نے ملک کی خدمت اور راہنمائی کی آپکا شکریہ۔
اور اگر یہ دونوں مفتیان کرام قمری کیلنڈر پہ اتفاق کرلیتے تو پاکستان اس تنازعے سے نکل سکتا تھا لیکن دنوں حضرات بہرحال اس بات پہ بضد ہیں کہ رویت بصری یعنی اانکھ کے دیکھے پہ ہی عید ہوگی انکی واحد دلیل جامع ترمذی کی یہ حدیث ہے۔ ’چاند کی رویت کی پر روزہ رکھو اور افطار کرو جب چاند پوشیدہ ہوجائے تو مہینے کے 30 دن پورے کرلو‘۔
یہ دونوں علما رویت سے مراد صرف آنکھ سے دیکھنا لیتے ہیں جب کہ رویت پہ ڈاکٹر طاہر القادری کا موقف الگ ہے جنہوں نے بذات خود پندرہ سال پہلے قمری کیلنڈر دیا تھا اور اس پہ انکے دلائل بھی طاقتور ہیں وہ کہتے ہیں کہ رویت کا معنی صرف رویت بالبصر نہیں اور اس پر اصرار کرنا امت کے لئے درست نہیں ہے اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ منشاء تھا کہ صرف آنکھ ہی سے دیکھ کر چاند کی رویت کا اعتماد کیا جائے۔
کیونکہ اس زمانے میں رؤیت بصری کے علاوہ چاند کے ہونے یا نہ ہونے کے علم کا اور کوئی ذریعہ نہ تھا۔ کیونکہ اس ناخواندہ معاشرے میں علم فلکیات، علم ہئیت، علم حساب، ذرائع مشاہدہ، سائنسی طریقے نہیں تھے لہذا رویت بصری کے علاوہ چاند کی خبر کا کوئی اور ذریعہ بھی انکے پاس نہیں تھا۔ لیکن مقصود یہ نہ تھا کہ قیامت تک یا ہمیشہ میری امت آنکھ سے دیکھنے کے ذریعے پر ہی اعتماد کرے اور اگر اس سے زیادہ باوثوق اور بہتر ذریعہ ایجاد ہوجائے تو اس کو نظر انداز کیا جائے۔
حدیث کہتی ہے اگر چاند پوشیدہ ہوجائے تو رویت بالحساب سے کام لو یعنی 30 دن کی گنتی کرلو، زرا سوچئیے یہ حساب کہ اسلامی مہینہ تیس سے آگے نہیں جائے گا، یہ کس طرح میسر آیا تھا؟ یہ اصل میں علم الہیت اور علم الحساب تھاجوکہ اسوقت دستیاب سائنسی علم تھا۔ گویا آقا کا مقصود یہ تھا کہ جب آنے والے وقتوں میں علم الحساب قطعیت اختیار کر جائے گا، اس کے اندر ثقاہت اور پختگی آجائے گی اور اس میں غلطی کا امکان نہیں رہے گا اور جب علم الحساب قابل اعتماد درجے تک پہنچ جائے تو جیسے تیس دن والے معاملے میں گنتی کا حکم دیا یونہی 29 کے معاملے کو بھی تم علم الحساب کی طرف لاسکتے ہو۔
اور جیسے آج کل رویت کو صرف رؤیت بصری یعنی آنکھ سے دیکھنے تک محدود نہ رہا بلکہ دور بین سے دیکھ کر اعلان کیا جارہا ہے تو یہ بھی آنکھ سے دیکھنے میں ہی شامل ہے اسی طرح چاند کے ہونے کا علم اگر جدید سائنس کے ذریعے حتمی اور قطعی طور پر میسر ہوجائے تو اس علم کو بھی رویت ہی کہا جائے گا اور یہ حدیث مبارکہ سے انحراف نہیں ہوگا جیسا کہ آجکل اس حدیث کے مسئلے پر ابہام پھیلایا جارہا ہے۔
دراصل رویت کے معانی پہ علما مغالطے پر ہیں۔ جو رؤیت سے مراد صرف آنکھ سے دیکھنا لیتے ہیں۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ استعمال نہیں کئے کہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور افطار کرو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رؤیت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ ہماری کم علمی ہے کہ ہم نے اپنی تنگ نظری کی بنیاد پر رؤیت کو صرف ننگی آنکھ سے یا دوربین سے دیکھنے تک محدود کر دیا ہے۔
اگر عرب لغت اٹھا کر دیکھی ں تو امام راغب اصفہانی نے رویت کے چار معانی یوں بیان کئے ہیں۔ وہ رویت بالحاسہ یعنی آنکھ سے یا حواس خمسہ سے دیکھنا یا جاننا یا اندازہ کرنا ہے یعنی اس میں خالصتاً ذہنی عوامل کارفرما ہیں نہ کہ حواس ظاہری۔ گویا دماغ کو جو علم کے ذرائع میسر آتے ہیں مثلاً حساب کتاب، علم الہیت، سائنسی تجزیے وغیرہ ان کے ذریعے کسی چیز کو سمجھنا، جان لینا اور اس بنیاد پر ایک تصور اور علم کا قائم ہونا بھی رویت ہے۔
گویا یہ رویت بالعقل ہوگئی۔ تیسرا معنی، رویت بالتفکر ہے یعنی غوروفکر کرنا اور سائنسی تحقیق بھی رؤیت ہے۔ اسی طرح معروف لغت جواہر القاموس اور لسان العرب میں بھی رؤیت کا معنی رویت بالعقل اور رویت بالقلب استعمال ہوا ہے۔
سورة الفیل میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا‘ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے 50 دن پہلے کا ہے۔
لہذا آنکھ سے دیکھنے کا تو سوال ہی ختم ہوگیا، یہاں رویت کا مطلب کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا بنتا ہے۔ اس طرح سورة الملک میں ارشاد فرمایا: جس نے سات آسمان (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے، تم رحمان کے نظامِ کوئی عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے۔ اللہ کا فرمان تو حق ہے اب بتائیے کہ کوئی انسان آنکھ سے سات آسمانوں کے توازن اور عدم توازن کو دیکھ سکتا ہے؟ لہذا یہاں بصر سے مراد ننگی آنکھ نہیں دیکھنے کا مطلب ہے کہ تم غور کرو، عقل سے، علم الہیت، سائنس، علم الحساب اور تحقیق، علم، تدبر، فکر سے دیکھو ۔
سورة البقرہ میں ارشاد فرمایا:’اے نبی کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا‘ نمرود کا زمانہ حضورﷺ کی ولادت سے ہزارہا سال پہلے کا ہے لہذا یہاں بھی رویت کا مطلب ننگی آنکھ سے دیکھنا نہیں بلکہ علم ہے، جاننا ہے۔ اسی طرح اصحاب کہف کے واقعہ میں بھی رویت کا لفظ استعمال ہوا ،جبکہ انکا زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس سے ہزارہا سال پہلے کا ہے۔
یہاں بھی ننگی آنکھ کی بحث نہیں ہے بلکہ علم جس ذریعے کے ساتھ بھی پہنچے تو اس کو رویت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔
چاند کے معاملے میں سائنس پہ عمل کے بجائے آنکھ سے دیکھنے پہ زور دیا جارہا ہے تو قرآن سے سائنس کی بھی ایک مثال دیکھتے چلیں آج سے کھرب ہا سال قبل جب کائنات کی ابتداء ہوئی اورexpansion & creation کا عمل شروع ہوا تھا۔ اس وقت کا ذکراس طرح سورة الانبیاء میں کیا جارہا ہے:”اور کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا“۔
یعنی کھرب ہا سال پہلے وقوع پذیرہونے والے واقعہ پہ قرآن نے فرمایا کہ کیاان کافروں نے نہیں دیکھا کیسے ہم نے کائنات بنائی۔ تو ان آیات کی روشنی میں یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ لفظ رویت کا معنی ہر گز ہرگز آنکھ سے دیکھنے پر محصور نہیں ہے۔ علم، خبرو اطلاع کسی بھی ذریعے سے میسر آجائے تو اس کو رؤیت کہتے ہیں۔
لہذا اس تمام تفصیل اور شرح کی روشنی میں اس حدیث پرغور کریں جس کی بنیاد پہ ہمارے علما سائنس کے بجائے رویت پہ بضد ہیں تو مفہوم واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”جب تمہیں چاند کے ہونے کا علم ہو تو اس علم پر روزہ رکھو اور چاند کے ہونے کے علم پر افطار کرو۔
یعنی چاند آنکھ سے دیکھنے کی نہیں چاند کے علم کے ذریعے کی بات تھی اورذرائع بدلتے رہتے ہیں ان سے شریعت میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، مقاصد وہی رہتے ہیں۔ مقصد تک پہنچنا بنیادی چیز ہے۔
ذرائع بدل کر آج آپ Astronomy پر پہنچ گئے اور مزید سائنسی ترقی کی بناء پر یہ علم بھی پیچھے رہ گیا، اب علم الحساب اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ آپ آنے والے 100 سال میں چاند کی پیدائش۔
۔۔ اس کی منازل۔۔۔ سورج کے ساتھ چاند کا زاویہ۔۔۔ کتنا فاصلہ طے کرچکا۔۔۔ اس کی عمر کب کتنی ہوگی۔۔۔ غروب شمس اور غروب قمر میں کتنا فرق ہوگا۔۔۔ ان تمام چیزوں کے متعلق واضح بتاسکتے ہیں۔ گویا علم یہاں تک پہنچ چکا ہے، علم کے ذرائع یہاں تک آگے بڑھ چکے ہیں۔
یہ دل چسپ امر ہے آج سے کچھ عرصہ قبل علما رویت بصری پر اصرار کرتے تھے اور آلاتی اور رصد گاہی رؤیت کی بات سننا نہیں چاہتے تھے، یہ کہتے تھے کہ یہ کافروں کی ایجاد ہے۔
۔ جیسے لوگ ریڈیو اور TV کی خبر پر بھی اعتماد نہیں کرتے تھے۔ پھر دوسری سٹیج آلاتی رویت پر آگئے۔ غور کریں کہ عید سے دس دن پہلے علما چاند پر بحث کررہے ہیں یعنی تیسری سٹیج امکانی رویت پہ بھی آچکے، تو جلد یا بدیر سائنسی رویت پہ بھی آجائیں گے بہتر ہے کہ جلد اسے اپنالیں تاکہ دو دو اور تین تین عیدوں کے ہونے سے اسلام کا جو مذاق ہوتا ہے وہ ختم ہوجائے اور اگر نہیں مانتے اور آنکھ سے دیکھ کر ہی روزہ رکھنا اور عید کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں کہ وہ کس دلیل کی بنیاد پر روزانہ دو بار (سورہ بقرہ کی آیت 187 میں وارد) قرآن مجید کے حکم کو چھوڑ رہے ہیں؟ یعنی سفید ڈوری اور کالی ڈوری کو دیکھے بغیر گھڑی کے ٹائم پر روزہ بند کرتے ہیں اور افق پر سورج کے مکمل غروب کو دیکھے بغیر گھڑی کے ٹائم پر افطار کرتے ہیں؟اوراگر حدیث مبارکہ کے ایک لفظ کے ایک مخصوص معنیٰ پرہی بضد رہنا ہے تو روزانہ سحر و افطار کے وقت قرآن مجید کی آیت کا حکم کیسے چھوڑ رہے ہیں؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔