چاچا رحمت

آج کاانسان پریشان ہے کہ بوڑھے ماں باپ اسکی پریشانی کا سبب ہیں،ایسا بالکل بھی نہ سوچیں اپنے باپ کے سینے سے سینہ ملا کر تو دیکھیں اتنا سکون ملے گا دنیا میں کہیں نہیں ملے گا

Salman ansari سلمان انصاری جمعہ 25 جنوری 2019

chacha rehmat
سردیوں کے دن تھے موسم سرما اپنے جوبن پر تھا اور سردی کی لہر جسم پر اچھی خاصی اثر انداز ہو رہی تھی ہر کوئی قہوہ اور چائے کا استعمال زیادہ کر رہا تھا لاری اڈہ کے سامنے ایک ہوٹل تھا جس کی چائے بہت مشہور تھی میں بھی ایک دوست کیساتھ اس ہوٹل پر چائے پینے چلا گیا۔ چائے کو ابھی دیر تھی میں دھند کے موسم میں لوگوں کے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا جو سردی کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کو آپس میں رگڑ رہے تھے کہ سردی کی شدت کم ہوسکے ۔

اسی دوران میری نظر ایک شخص پر پڑی جو لگ بھگ 60سال کی عمر کا لگ رہا تھا وہ اڈے میں ایک بس کے ساتھ کھڑا تھا بس کے ساتھ سیڑھی لگی ہوئی تھی اور کچھ سامان کے بورے بس کے ساتھ پڑے ہوئے تھے ۔وہ ایک بورا دوسر ے شخص کی مدد سے کمر پر اٹھاتا اور سیڑھی کے ذریعے بس کی چھت پر رکھ آتا پھراسی طرح دوسرا اور تیسرا لگ بھگ 5بورے اس شخص نے بس کی چھت پر رکھے اور رکھتے رکھتے 20منٹ لگا دیئے ۔

(جاری ہے)

اتنے میں چائے والا چائے لے آیا میں نے چائے پینا شرو ع کر دی لیکن میری نظر اسی شخص کے کام پر تھی ۔بورے رکھنے کے بعد کسی نے اُس شخص کو کچھ پیسے دیئے اور چلا گیا۔۔۔وہ پیسے گننے لگا اور پیسے جیب میں ڈال کر ایک سائیڈ پر بیٹھ گیا ۔
اس سے پہلے کے وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوتا میں نے جلدی جلدی چائے پی اور فوراًاس شخص کی طرف چل پڑا۔اس شخص کی سانس پھولی ہوئی تھی اور وہ زور زور سے سانس لے رہا تھا ۔

میں نے سلام کیا اور ساتھ ہی کہاکیا حال ہے اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اُس شخص نے پھولے سانس کے ساتھ سلام کا جواب دیا اور ایک گہرا سانس لیا اور کہااللہ کا شکر ہے ٹھیک ہوں بس تھوڑی بہت تکلیف تواس عمر میں انسان کو رہتی ہے ۔میں نے اس سے اسکا نام پوچھا تو کہنے لگامیرا نام رحمت ہے یہاں سب مجھے ”چاچا رحمت ،چاچا رحمت“کے نام سے پکارتے ہیں ۔میں نے کہا کہ کافی دیر سے میں آپ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ کچھ بورے اٹھا کر بس کی چھت پر رکھ رہے تھے تو کہنے لگا کہ بیٹا میں مزدوری کرتا ہوں اڈے میں آکر جو سامان میں اٹھا سکتاہوں وہ لے لیتا ہوں اور وہ بس کی چھت پر رکھ دیتا ہوں اس کے عوض مجھے کچھ پیسے مل جاتے ہیں ۔

میں نے کہا چاچا رحمت آپ کی عمر کتنی ہے کہنے لگا 56سال ہے میں نے پوچھا چاچا اس عمر میں بھی اتنا مشکل کام کرتے ہیں کیا آپ کی اولاد نہیں ہے ۔۔؟؟میرا یہ سوال پوچھنا تھا کہ چاچا رحمت کہیں گم ہوگیا او ر اُسکی آنکھوں سے آنسو آنے لگے ۔
میں اس منظر کو حیرت کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا او رسوچ رہا تھا کہ شاید میں نے کچھ غلط پوچھ لیا ہے۔۔۔میں نے کہا چاچا رحمت کیا ہوا۔

۔۔؟کہنے لگابیٹا میرے 4بیٹے ہیں جو آپ کی طرح جوان اور صحت مند ہیں چاروں انجینئر ہیں اوراپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں کیوں کہ سب کی شادیاں ہوچکی ہیں سب اپنی بیویوں کو لیکر الگ ہوتے گئے ایک بیٹے کی بیوی تواس لئے الگ ہوئی، وہ کہتی ہے میری وجہ سے انکی زندگی میں دخل ہوتا ہے ۔۔۔اور پھر رونے لگا۔۔۔دلاسہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ چاچا رحمت اللہ پر بھروسہ کریں اللہ سب بہتر کرے گا چاچا رحمت اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولا بیٹا اللہ نے مجھے بہت کچھ دیا ۔

۔۔جب میرے پاس اولاد نہ تھی تو میں اللہ سے دعائیں مانگتا سجدے کرتا تھا پھر اللہ نے میری دعا قبول فرمالی اور اللہ نے مجھے ایک بیٹا دیا میں بہت خوش ہو اللہ کا شکر ادا کیا اسی طرح اللہ نے مجھے چار بیٹے عطا کیے۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے بچوں کو بہت محنت کر کے پالا ان کی ہر خواہش کو پورا کیا کبھی انکوکسی چیز سے محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا انکو پڑھایا لکھایا اس لئے کہ معاشرے میں یہ اچھے انسان بن سکیں اور انکا مستقبل اچھا ہو۔

آج سب بیٹے اچھی نوکریاں کرتے ہیں ۔میں روزانہ ان کی راہ دیکھتا ہوں کہ کوئی میرا بیٹا آئے گا میرا حال پوچھے گا میرے ساتھ باتیں کرے گا لیکن کوئی نہیں آتا جب ان کو دیکھے زیادہ دن گزر جاتے ہیں تو میں اپنی آنکھوں کی حسرت مٹانے کیلئے ان کے گھر چلاجاتا ہوں وہاں دونوں میاں بیوی مجھے دیکھ کر کہتے ہیں ”خیریت سے آنا ہوا۔۔۔؟؟؟ “تو میں خاموش ہوجاتا ہوں اور ”ڈر“ کر واپس آجاتا ہوں۔

۔۔
 میں اور میری بیوی دونوں ایک دوسرے کا سہارا ہیں میں یہاں آکر مزدوری کرتا ہوں اور جو پیسے مزدوری سے ملتے ہیں اُن سے ہم دو وقت کی روٹی کھا لیتے ہیں اور اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں کہ کب موت آئے گی۔۔؟؟؟چاچا رحمت کی باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آج ہر سکول کے باہر ایک سبز رنگ کا بورڈ لگا دیا گیا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے”امن صحت اور خوشحالی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں“تعلیم انسان کے اندر شعور پیدا کرتی ہے اسکی کردارسازی کرتی ہے معاشرے میں پڑھا لکھا انسان علیحدہ ہی نظر آتا ہے اچھے اور بُرے کی تمیز تعلیم سکھاتی ہے لیکن ایسی تعلیم جو رشتوں کی پہچان ہی بھلا دے ایسی تعلیم کا کیا فائدہ؟ایسی تعلیم سے تو انسان ان پڑھ ہی ٹھیک ہے ؟
خدارا اپنے ماں باپ کی قدر کریں دنیا میں کوئی شخص اگر آپ کے ساتھ مخلص ہوگاتو وہ آپ کا باپ ہوگا دنیا میں کوئی عورت اگر باوفا ہوگی تو وہ آپکی ماں ہوگی۔

کل کو ہم بھی ماں باپ کی جگہ ہونگے یہ بھی توہوسکتا ہے کہ آج ہمارے ماں باپ جو دردر کی ٹھوکریں کھار ہے ہیں یہی ٹھوکریں کل ہمارا نصیب نہ بن جائیں ۔۔۔؟؟؟کیونکہ مشہور کہاوت ہے ”جیسا کروگے ویسا بھروگے“
آج کاانسان پریشان ہے کہ بوڑھے ماں باپ اسکی پریشانی کا سبب ہیں،ایسا بالکل بھی نہ سوچیں اپنے باپ کے سینے سے سینہ ملا کر تو دیکھیں اتنا سکون ملے گا دنیا میں کہیں نہیں ملے گا۔

اللہ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھی ہے اور باپ اس جنت کا دروازہ ہے اے انسان ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی ناراض ہو تو جنت سے محرومی ہوسکتی ہے خواہ ہم کتنے ہی نمازی پرہیزی کیوں نہ ہوں ۔اللہ پاک ہمیں ہمارے والدین کی صحیح معنوں میں خدمت اور انکی آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

chacha rehmat is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 January 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.