
- مرکزی صفحہ
- مضامین و انٹرویوز
- قومی مضامین
- اہم افسروں پر طالبان کے حملے کیا مذاکرات کا دوسرا دور بھی ناکام ہوگا؟
اہم افسروں پر طالبان کے حملے کیا مذاکرات کا دوسرا دور بھی ناکام ہوگا؟
اس بار طالبان کی قیادت ملا فضل اللہ کے ہاتھ میں ہے جبکہ حکومت کی جانب سے بھی مذاکرات کاروں میں تبدیلی کردی گئی تھی۔ ابھی یہ سلسلہ آگے بڑھنے ہی نہ دیا تھا
سید بدر سعید
ہفتہ 25 جنوری 2014

(جاری ہے)
ایک طرف مذاکرا کی بساط بچھائی جارہی تھی تو دوسری طرف ایک جنگ بھی جاری تھی۔ یہ کراچی آپریشن تھا جس کا آغاز ستمبر میں ہوا۔ بنیادی طور پر یہ آپریشن کراچی میں موجود ٹارکٹ کلرز، بھتہ مافیا اور دیگر جرائم پیشہ افرا دکے خلاف ہورہا تھا۔ کراچی گزشتہ کئی سال سے لاقانونیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اور وہاں کی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی تھی۔ اس لئے یہ آپریشن ناگزیر تھا۔ کراچی میں بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلنگ تو عروج پر تھی ہی لیکن کچھ عرصہ سے وہاں طالبان کے مختلف گروپوں کا نام بھی سامنے آنیلگا۔ اکثر مارکیٹوں میں بھیجی جانے والی بھتہ کی پرچیوں پر تحریک طالبان کا حوالہ دیا جانے لگا ۔ اسی طرح بنک ڈکیتیوں اور لوٹ مارکی وارداتوں میں بھی اکثر اسی تنظیم کا نام سامنے آنے لگا۔ طالبان کی جانب سے اس کی تروید بھی کی گئی اور ایسے لوگوں کو اپنا مجرم بھی قرار دیا گیا۔ بعض گرفتار لوگ جعلی طالبان بھی ثابت ہوئے جو محض ڈر قائم رکھنے کیلئے اس تنظیم کا نام استعمال کررہے تھے۔
دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ کراچی جیسا بڑا شہر کسی بھی شخص کے چھپنے کیلئے بہترین جگہ ہے ۔ اس شہر میں طالبان کے کئی کمانڈر روپوش ہوئے اور انہوں نے یہاں رہائش اختیار کی۔ یہاں پویس اور رینجرز کے طالبان کمانڈروں اور جنگجوؤں سے مقابلے بھی ہوئے ۔کاچی آپریشن کا آغاز ہوا تو اس میں مزید شدت آگئی۔ اس آپریشن میں ایس ایس پی چودھری اسلم خاصے فعال نظر آئے انہوں نے تحریک طالبان سے منسوب متعدد جنگجوؤں کو گرفتار و ہلاک کیا۔
مذاکرات کی گفتگو اپنی جگہ لیکن حکومت اور طالبان دونوں حالت جنگ میں ہیں۔ مذاکراتی عمل میں کسی بھی مرحلے پر یہ جنگ روکی نہیں گئی۔ گزشتہ دنوں ایک دھماکے میں کاچی آپریشن کے اہم کردار چودھری اسلم اپنے آخری سفر کی جانب گامزن ہوگئے۔ یہ کراچی فورسز کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بت سے لگایا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف نے پولیس کے اس ایس ایس پی کیلئے خصوصاََ بیان جاری کیا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
چودھری اسلم پر حملے کے بعد اب پھر یہ سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں کہ جب بھی حکومت مذاکرات عمل آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہے، کسی اعلی اور اہم عہدعدار کو گھات لگا کر شہید کیوں کیا جاتا ہے؟ جنرل ثنااللہ نیازی کو بھی گھات لگا کر بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی ذمہ داری فضل اللہ نے قبول کی تھی۔ فضل الہ اس وقت مذاکرات کے سخت مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ ا ب وہ تحریک طالبان پاکستان کے امیر ہیں۔ جنرل ثنا اللہ نیازی کی طرح چودھری اسلم کو بھی گھات لگا کر بم دھماکے کا نشانہ بنایا۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان مہمند ایجنسی کے امیر سجاد مہمند نے اسن الفاظ میں قبول کرلی کہ چودھری اسلم ان کے نشانے پرتھے۔ عین ممکن ہے کہ ان پر یہ حملہ روٹین کی کارروائیوں کا حصہ ہو کیونکہ انہوں نے اپنا آخری آپریشن طالبان کے علاقائی امیرکے خلاف ہی کیا تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ حملہ حکومتی مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کرنے کیلئے کیا گیا ہو۔ لیکن یہ ضرورر ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے خلاف نظر آنے والے طبقوں نے اس حملے کو بھی مذاکراتی عمل سے جوڑ دیا ہے۔ اب سوال اٹھ رہے ہیں کہ اگر طالبان حکومتی خواہش کا جواب ان حملوں سے دے رہے ہیں تو ان سے مذاکرات کیسے ممکن ہیں؟ یہ سوال بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ کراچی میں ابھی تک عسکریت پسند اپنی مضبوط بنیادوں سمیت کھڑے ہیں۔ کیا وہ اس حالت میں مذاکرات کے عمل کا حصہ بنیں گے؟ ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مووہ صورتحال میں مذاکرات کا مطلب عسکریت پسندوں کو مزید مضبوط کرنا اور آئندہ کیلئے مزید تیاری کاوقت دینا ہے۔ اس نظریہ کے حامل لوگ ایک مرتبہ بھرپور آپریشن کا مطابلہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے باوجود یہ خطرہ رہے گا کہ کسی بھی وقت عسکریت پسند دوبارہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب کر سکتے ہیں۔
مذاکراتی عمل کے دوبارہ آغاز کے ساتھ ہی اسے پھر سے شدید دھچکا لگا ہے۔ مذاکرات کے حامی اور مخالف دونوں جانب موجود ہیں لیکن یہ عمل اس وقت تک پایہ تکمیل کو پہنچتا نظر نہیں آتا جب تک دونوں جانب سے جنگ بندی کا اعلان نہ ہو۔ امن مذاکرات اس طرح ممکن نظر نہیں آرہے کہ ایک جانب لاشیں گرتی ہیں اور دوسری جانب دونوں طرف کے رہنما مذاکرات کی میز پر نظر آئیں۔ ہمیں مذاکرات کرنے ہیں تو پھر دونوں جانب سے سیز فائر کا اعلان کر کے اسے معاملے کا کوئی بہتر راستہ تلاش کرنا ہوگا اور اگر یسا ممکن نہیں تو پھر قوم کو اعتماد میں لے کر ملک دشمن عناصر کے خلاف مکمل آپریشن کرنا ہوگا۔ اس وقت پوری قوم مذاکرات اور آپریشن کے درمیان لٹکی ہوئی ہے جس سے مزید ابہام پیدا ہورہے ہیں۔ یہ بات تو تاریخ سے ثابت ہے کہ جس قوم کا مورال گرجائے وہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی شکست سے دوچار ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پالیسی ساز صورتحال کا مکمل ادراک کرتے ہوئے بروقت ایسے اقدامات کا حکم دیں جو قوم کو کنفیوژن کا شکار ہونے سے بچائیں۔ ہمیں یہ بھی ذہم میں رکھنا ہوگا کہ مذاکرات یا جنگ ، دونوں صورتوں میں قوم کو اعتماد میں لینا بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ وہ جنگ ہے جس میں 50ہزار سے زائد عام شہریوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Ehem Afsroon Per Taliban K Hamle is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 January 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.