غدر کا مجاہد:رائے احمد خان کھرل

کسی نے صحیح کہا ہے کہ مرزا جٹ کے بعد اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پر فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے۔ کھرل ا گنی کلاراجپوت ہیں اور اپنا تعلق رامائن کے کرداروں سے جوڑتے ہیں

پیر 23 اپریل 2018

ghadar ka Mujahid raye Ahmed Khan kharl
محمد اظہر
کسی نے صحیح کہا ہے کہ مرزا جٹ کے بعد اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پر فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے۔ کھرل ا گنی کلاراجپوت ہیں اور اپنا تعلق رامائن کے کرداروں سے جوڑتے ہیں مگر کہانی میں کہیں مخدوم جہانیاں شاہ شریف بھی آتا ہے جہاں سے کھرلوں کی تاریخ مسلمان ہو جاتی ہے۔ کوئی نواب سعادت علی کھرل تھے جنہیں عالمگیر نے کمالیہ کی جا گیردی اور لوگ اس بار میں آباد ہو گئے۔

زمین کی ساجھے داریاں،مذہب کی تفریق سے گہری تھیں سونکئی سردار گیان سنگھ ،خزان سنگھ اور بھگوان سنگھ، رائے صالح خان کھرل کو اپنا بھائی گردانتے تھے۔ گیان سنگھ کی بیٹی رنجیت سنگھ کی بیوی راج کور بنی تو کھرلوں نے بھی ڈولی کوکاندھادیا۔ رائے صا لح کا آخری وقت آیا تو اس نے سرداری کی پگڑی اپنے بیٹے کی بجائے اپنے بھتیجے احمد خان کے سر پرکھی اور کھرلوں کی سربراہی اسے سونپ دی۔

(جاری ہے)

اس دوران رنجیت سنگھ پنجاب کے تخت پر بیٹھ گیا، اور جب پورا پنجاب سکھوں کے زیر نگین ہوا تو مہاراجہ نے یہ معمول بنایا کہ ایک ایک علاقے میں جا کر عمائدین سے ضرور ملتا۔ سید والہ آمد پر صاحبین نے رائے احمد خان کھرل کا تعارف کروایاتو مہاراجہ نے احمد خان کو گلے لگایا اور اپنا بھائی کہا۔ 1849 میں انگریزوں نے سکھ حکمرانوں سے اقتدار چھین کر جب پنجاب پر قبضہ کر لیا تو راوی کے علاقے سے کھرل، فتیانہ، کاٹھیہ اور دیگر خوددار خاندانوں کی مزاحمت پر قابو پانے کے لئے پاکپتن، اوکاڑہ منٹگمری (موجودہ ساہیوال) گوگیرہ اور ہڑ پہ کے علاقوں پرمشتمل ایک ضلع بنایا گیا جس کا صدر مقام پہلے پاکپتن اور پھر گوگیرہ کو رکھا گیا۔

صدر مقام میں ضلع کچہری ،بخشی خانہ اورنئی جیل بھی تعمیر کی گئی۔ گوگیرہ کے بالمقابل راوی کے دوسرے کنارے پر واقع گاوٴں جھامرہ میں کھرل قبیلے کا سردار احمد خان کھرل رہائش پذیر تھا۔ 1776 میں فیصل آباد کی موجود ہ تحصیل تاندلیانوالہ کے علاقہ جھامرہ میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونے والے رائے احمد خاں کھرل کا شمار غدرریا جنگ آزادی 1857 کے بہادر مجاہدوں میں ہوتا ہے۔

رائے احمد خاں نے اکاسی برس کی عمر میں انگریز سامراج کے خلاف آواز اٹھائی اور بالآخر ان کے خلاف لڑتے لڑتے دھرتی کی خاطر اپنی جان تک دے ڈالی۔ انگریز سرکار یا ایسٹ انڈیاکمپنی کے خلاف رائے احمد خان کھرل کی دلیرانہ جدوجہد تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ روشن رہے گی۔ ایک وقت تھا کہ جب پنجاب کی مائیں ، احمد خان کھرل کی کہانی لور یوں میں سنایا کرتی تھیں۔

وہ پنجاب کی مقامی شاعری کے ڈھولوں میں ایک افسانوی کردار بن چکا ہے جسے مختلف شاعروں نے تحریر کیا اور لوگوں نے گایا ہے اور مقامی شاعر آج بھی رائے احمد خان کھرل کے انقلابی کردار کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔
 انگریز سرکار کی نافرمانی
 معروف تاریخ دان محمد حسن معراج کہتے ہیں کہ 1857 میں جب انگریزوں سے آزادی کے لئے تحریک کا آغاز ہوا تو اس پر قابو پانے کے لئے اس وقت کے اسسٹنٹ کمشز لارڈ برکلے نے کھرل قبیلے کے سردار رائے احمد خاں سے گھوڑے اور جوان مانگے۔

رائے احمد نواز خان کھرل نے برکلے کو جواب دیا ”صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا۔ رائے احمد نواز خان کھرل نے نہ صرف انگریز افسر برکلے کو گھوڑے اور جوان دینے سے انکار کیا بلکہ انگریز کے خلاف معرکہ کورنگا سے بچ جانے والے مجاہدین کو بھی اپنے علاقے میں پناہ دی جس کے باعث نہ صرف انگریز بلکہ مقامی گدی نشین بھی اس کے خلاف ہو چکے تھے۔

ادھر جولائی کے پہلے ہفتے دریائے ستلجس کے کنارے آباد وٹو قبیلے نے انگریز سرکار کو لگان ادا کرنے سے انکار کیا تو انگریز نے ان پر چڑھائی کر دی۔ ان کے مال مویشی ہانک کر لے گئے اور بستیوں کو آگ لگا دی۔ اس پر طرہ یہ کہ ساہیوال کے گردونواح کے قبیلوں نے کمپنی کو مالیہ دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ یہ سراسر بغاوت تھی ،کمپنی کو مقامی قبائل کی طرف سے اس طرح کی بغاوت کی قطعی توقع نہ تھی۔

اسی دوران گوگیرہ کے بہت سے خاندان بھی اسی پاداش میں قید کر لئے گئے۔ انگریز کے اس اقدام کی خبر جب رائے احمد خان کھرل کو پہنچی تو ان کا خون کھول اٹھا اور انہوں نے جیل توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ گوگیرہ بنگلہ کی جیل میں کھرل سردار کے مجاہدین بھی قید تھے۔ احمد خاں کے انکار پر انگریزوں نے مقامی لوگوں کو جیل میں ڈالنا شروع کردیا جس کے بعد احمد خان کھرل نے مقامی قبائل کومتحد کر کے انگریز اور اس کے مختلف قبائل کے سرداروں سے بڑے گہرے مراسم تھے۔

اُدھر رائے کے واضح انکار اورمختلف قبائل کی جانب سے مالیہ ادا نہ کرنے پر انگریز سرکار سخت برہم ہوئی۔ پیچیدہ صورت حال بھانپتے ہوئے انگریز سرکار کی جانب سے گوگیرہ کے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بر کلے کو حکم نامہ جاری کیا گیا کہ اس مزاحمتی تحر یک کو ہر قیمت پر دبا دیا جائے۔ اس کو یہ کام تفویض کیا گیا کہ جن لوگوں نے مالیہ دینے سے انکار کیا ہے ان پر فوری جرمانہ عائد کیا جائے۔

نتییجتاََ مز ید باغیوں کی گرفتاری عمل میں آئی اور انہیں گوگیرہ جیل میں ڈال دیا گیا جو ان دنوں گوگیرہ ساہیوال کا مرکزی مقام تھا۔ اتنے وسیع پیمانے پر معصوم اور بے گناہ لوگوں کی گرفتاری نے رائے احد کھرل کو مزید اشتعال دلا یا۔ اپنے ساتھیوں اور ہمنوا قبائل سے صلاح مشورہ کے بعد رائے نے لوگوں کو برطانیہ کے چنگل سے آزاد کرانے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنگ آزادی 1857 کے واقعات اور علاقے میں رائے احمد خاں کھرل کی بغاوت کی وجہ سے ضلعی صدر مقام گوگیرہ سے ختم کر کے منٹگمری (ساہیوال) منتقل کرنا پڑا۔ اس دوران حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹورتحصیل کی عمارت میں منتقل کر دیئے گئے اور گوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کر لیں۔

کریل پلٹین خود لاہور سے اپنی رجمنٹ یہاں لے آیا، اس کے ہمراہ توپیں بھی تھیں۔
گوگیرہ کی جیل پر دھاوا
 26 جولائی 1857 کی رات رائے احمد خان کھرل نے گوگیرہ کی جیل پر دھاوا بول کر تمام قیدیوں کو آزاد کرالیا۔ اس موقع پرکئی ہلاکتیں بھی ہوئیں لیکن قیدیوں کی آزادی کا مقصد بڑی کامیابی سے حاصل کر لیا گیا۔ رائے احد کھرل موقع سے فرار ہوگیا اور گوگیرہ سے کچھ میل کے فاصلہ پر کشکوری کے جنگل میں جا چھپا کھرل کا یہ قد ام کمپنی کی حکومت کے لئے کھلا چیلنج تھا لہذا انگریز بہادر بھی سنگین اقدامات پر اتر آیا اور دیہاتوں کو جلانا شروع کر دیا۔

احمد خان کھرل سے چھٹکارا ایسٹ انڈیاکمپنی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہو گیا تھا کیونکہ رائے احمد ہی وہ شخص تھا جس نے عوام کو اس کے خلاف یکجا کر دیا تھا۔ حکومت نے اس کے قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی دی۔
 رائے احمد خان کھرل کی گرفتاری اور رہائی
رائے نے اپنی والدہ، بہو بیٹیوں اور خاندان کے دیگر افراد کی زندگی کو داوٴ پر لگانے کی بجائے گرفتاری پیش کر دی۔

اس گرفتاری کے ردعمل میں مختلف قبائل کے احتجاج میں تیزی آگئی۔ اس صورتحال میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر حکومت نے رائے احمد کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ گوگیرہ سے باہرکہیں نہیں جائے گا۔ نیتیجتاََرائے کو رہائی مل گئی لیکن اس حریت پسند کا اصل مقصد قبائل کو متحد کر کے غیرملکی حکمرانوں کے خلاف سخت مزاحمتی تحر یک کو ہوا دینا اور مقامیوں کو بیرونی حکومت سے آزادی دلانا تھا۔

جون، جولائی کے مہینوں میں جنگ زوروں پر رہی۔منٹگمری گزٹ لکھتا ہے احمد خان کھرل ایک غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک، دلیر اور ذہن رسا کا مالک انسان تھا۔ اس کی قیادت میں ستلج اور راوی کے تمام نامور قبائل متحد ہو کر بغاوت میں شریک ہوئے ان کا ہیڈ کوارٹر راوی کے اس پار کوٹ کمالیہ تھا۔ اس اٹھنے والے طوفان کا پہلا نشان ضلعی صدر مقام کو گیرہ ( موجودہ اوکاڑہ کے قریب واقع قصبہ ) کے مقام پر واقع جیل بنی جس پر حملہ کر کے رائے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھی بغاوت کے جرم میں بند کئی سو قیدیوں کو چھڑا کر گئے جنگلوں میں روپوش ہو گئے۔

احمد خان کے پے در پے حملوں کی وجہ سے منٹگمری کا علاقہ (موجودہ ساہیوال ڈویژن اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ ) تقریبا تین مہینوں تک قبضے سے نکل گیا اورعملی طور پر رائے احمد خان کھرل کی عملداری قائم ہوگئی۔ رائے احمد خان کھرل نے 16 ستمبرکو کمالیہ کے تمام زمینداروں کو اکٹھا کیا اور انہیں جنگ آزادی میں شمولیت کی ترغیب دی۔ سامراج کے صبر کی انتہا ہوئی تو رائے احمد خان بھی زیر عتاب ٹھرا۔

گو گیرہ کے بر کلے نے ساہیوال کے مارٹن کو لکھا جس نے ملتان کے میجر ہلٹن کو لکھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ملتان سے لاہور تک احمد خان کے چرچے چھانیوں اورکچہریوں تک جا پہنچے۔ اب جس عمر میں لوگ سمجھوتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں، احمد کھرل اس وقت جنگ کی تیاری کر رہا تھا۔ جس وقت انگریز فوج جوان بھرتی کر رہی تھی ، اس وقت اس کھرل سردار کی عمر 80 سے اوپر تھی۔


 انگریزوں کی نئی چال
ان معروضی حالات میں کھرل کے قریبی دوستوں اور ہم خیالوں نے ایک خفیہ ملاقات کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ راوی کے دونوں اطراف واقع فوجی چوکیوں پر حملہ کیا جائے۔یہ فوجی چوکیاں در اصل علاقے میں کمپنی کی حکمرانی کی علامت تھیں۔ رائے کو گرفتار کرنا یا قتل کرنا اتنا آسان نہ تھا کیونکہ وہ علاقے کے چپے چپے سے بخوبی آگاہ تھا۔

ایسے حالات میں صرف ایک ہی صورت باقی تھی کہ کسی طرح اسے پھنسالیا جائے۔ ایسی ہی چال ٹیپوسلطان اور نواب سراج الدولہ کے خلاف بھی چلی گئی تھی جس میں برطانیہ نے ان کے خلاف اندرون خانہ معلومات لے کر وفاداریاں خرید لی تھیں۔ اس کھرل سردار کو پھنسانے کے لئے اس کے اپنے ہی دو دوست استعمال ہوئے جنہیں حکومت نے خرید لیا تھا۔ کھرل نے یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ معمولی سے مالی فائدے کے لئے اس کے اپنے معتمد دوست اور ساتھی دوستی جیسے عظیم رشتے کا سودا کر لیں گے اور آزادی کے عظیم مقصد کوزک پہنچائیں گے۔

رائے سرفراز کھرل اور سردار گلاب رائے بیدی سنگھ دونوں اس خفیہ ملاقات کا حصہ تھے جس کا اہتمام ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا تھا۔ منصوبے کے مطابق رائے کھرل کور اوی عبور کر کے اپنے ساتھیوں سے ملنا تھا۔ اگر چہ رائے احمد خان کھرل کے بلاوے پر آنے والے زمیندار کھرل سردار کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے لیکن ان میں سے ہی رائے سرفراز کھرل نامی ایک شخص میر جعفرو میر صادق کی تاریخ دہرانے کے لئے تیار تھے۔

رات جیسے ہی گہری ہوئی کمالیہ کے سرفراز کھرل نے میر جعفروں کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کرنے کے لئے گھوڑی کا رخ بر کلے کے بنگلے کی جانب پھیر دیا۔ رات کے تقریبا ساڑھے گیارہ بجے تھے، جب سرفراز نے برکلے کو جگا کر رائے احمد خان کھرل کے اکٹھ کی روداد سنائی۔ صبح ہوتے ہی برکلے نے جھامرہ پر چڑھائی کر دی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

ghadar ka Mujahid raye Ahmed Khan kharl is a local heros article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 April 2018 and is famous in local heros category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.