داستان ایک جہاں گرد کی

مکرم خان ترین کے تعارف کے کئی حوالے ہیں۔ آپ ایک منجھے ہوئے بائیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سینیئر سکاؤٹ، کراس روٹ انٹرنیشنل بائکر کلب کے فاؤنڈر ممبر، سیاح، خیراتی ادارے ہمسایہ فوڈ بینک کے چیئرمین اور سب سے بڑھ کر ایک خوبصورت انسان ہیں۔

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری جمعہ 25 ستمبر 2020

Dastan Aik JahanGard Ki
لاہور کی کینال ویو سوسائٹی میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر ہفتے ایک چوپال سجتی ہے جس میں ملک کے مختلف شہروں سے آئے سیاح اور بائیکر حضرات شرکت کر کہ  اپنے اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔ کبھی یہاں چائے کے دور کے ساتھ لاہور کا دیسی گھی والا پتیسہ چلتا ہے تو کبھی ملتان کے آم اور خانپور کے پیڑے کھائے جاتے ہیں یہ سوغاتیں یار لوگ دور دور سے ایک دوسرے کے لیئے لاتے ہیں۔

 
یہ ہمسایہ ہاؤس ہے۔ ملک کے نامور بائیکراور سیاح مکرم خان ترین کا ٹھکانہ جہاں انہوں نے ملک کے نامور موتی محبت کی لڑی میں پرو رکھے ہیں ۔
مکرم خان ترین کے تعارف کے کئی حوالے ہیں۔ آپ ایک منجھے ہوئے بائیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سینیئر سکاؤٹ، کراس روٹ انٹرنیشنل بائکر کلب کے فاؤنڈر ممبر، سیاح، خیراتی ادارے ہمسایہ فوڈ بینک  کے چیئرمین اور سب سے بڑھ کر ایک خوبصورت انسان ہیں۔

(جاری ہے)

خان صاحب کے ساتھ ایک نشست میں کی گئی گفتگو کا لب لباب پیش خدمت ہے۔
اپنی پیدائش اور بچپن کے بارے میں ترین صاحب بتاتے ہیں کہ میں 12 مارچ 1967 کو ملتان کے علاقے قدیر آباد میں  پیدا ہوا جبکہ میرا آبائی علاقہ مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو ہے۔ اس لحاظ سے میری مادری زبان سرائیکی ہے۔ میرے والد صاحب محکمہ تعلیم میں ڈی او تھے جبکہ والدہ سیدھی سادی گھریلو خاتون تھیں ۔

میرے پانچ بھائی ہیں جن کے ناموں کے پیچھے بھی ایک دلچسپ بات ہے۔  میرے والد صاحب کو نامِ محمدؐ سے اتنی محبت اور عقیدت  تھی کہ انہوں نے ہم پانچوں بھائیوں کے نام لفظ ''م'' سے رکھے۔ میں یعنی مکرم، معظم ،منعم ،مہتشم اور متبسم۔ تو ہم پانچوں بھائیوں کے نام کی یہ وجہ ہے ۔
بچپن سے ہی مجھے کھوج لگانے اور منفرد چیزوں میں دلچسپی لینے کا شوق تھا۔


میں نے بنیادی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی تھی پھر اس کے فوراً بعد میں 1982 میں ملتان آ گیا کہ یہ قریب بھی تھا اور ایک مرکزی شہر بھی تھا۔ آٹھویں سے دسویں تک میں پائلٹ سیکنڈری سکول میں پڑھا پھر اس سے آگے کی تعلیم میں نے گورنمنٹ کالج ملتان بوسن روڈ سے حاصل کی ۔ پھر 2006 میں پرسٹن یونیورسٹی سے میں نے فائن آرٹس میں ڈگری لی۔
 اس زمانے میں ہمارے علاقے میں یہ ایک منفرد ڈگری مانی جاتی تھی کیونکہ اس وقت بھی ڈاکٹری اور انجینیئرنگ کو اہم ڈگری مانا جاتا تھا ۔

بچپن سے ہی ایک چھوٹا موٹا آرٹسٹ میرے اندر چھپا بیٹھا تھا اور میں گھر میں بھی آرٹ کے بہت سے کام کرتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ کیوں ناں اسے پالش کروں۔ اس مقصد کے لیئے میں نے پرسٹن جوائن کی جہاں ''مجسمہ سازی اور سکلپچرز'' میرا بنیادی مضمون تھا پھر اس کے بعد میں نے لکڑی، پتھر، چکنی مٹی اور پلاسٹر آف پیرس پر بھی کافی ہاتھ سیدھا کیا۔  میرے ایک استاد تھے آغا صدف مہدی صاحب جو آج کل بہاولپور ہوتے ہیں، انہوں نے میری صلاحیتوں کو پہچانا اور مجھے خوب پالش کیا۔

اس کے علاوہ اس کام کے لیئے میں نے گھر میں بھی ایک چھوٹا سا سٹوڈیا بنایا ہوا تھا، جب ٹائم ملتا تو وہاں کام کرتا تھا اور مٹی سے چیزیں بناتا تھا۔ یہ کام اب بھی کرتا ہوں لیکن بہت کم ،اگرچہ نفاست کچھ کم ہو گئی ہے لیکن اچھا بنا لیتا ہوں۔
اس ہنر کو کمرشل طور پر استعمال کرنے کے بارے میں مکرم صاحب نے بتایا کہ بہت سے لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ اسے کمرشل سطح تک لے  کر جائیں، اس کی نمائشیں وغیرہ کروائیں لیکن میرے پاس اس کا ٹائم نہیں تھا۔

میں نے ملتان کی ایک دو نمائشوں میں دوسرے آرٹسٹوں کے ساتھ اپنا کام رکھا تھا جس کو کافی سراہا گیا الحمد لِلہ۔۔۔۔
 اس بات پر میں نے ان سے یہ گزارش کی کہ آپ اپنا کام کہیں نمائش کے لیئے پیش کریں کہ ایک آرٹسٹ کو کبھی اپنا فن چھوڑنا نہیں چاہیئے۔
یہ وہ دور تھا جب خان صاحب ایک سیاح اور بائیکر نہیں بلکہ ایک آرٹسٹ کے طور پر ابھر رہے تھے۔

ان کی شخصیت میں جو پہلی چیز نکھر کہ سامنے آئی وہ انکا یہ مجسمہ سازی اور سنگ تراشی کا ہنر تھا۔
یہ جان کر ان کے چاہنے والوں کو بھی بہت حیرانی ہو گی کیونکہ ان میں سے اکثر ان کے اس ہنر سے ناواقف ہیں۔
اس کے بعد ان کی زندگی کے دوسرے اور سب سے اہم دور کے بارے میں بات چیت شروع ہوئی یعنی سیاحت اور بائیکنگ۔
سیاحت کے حوالے سے آپ کا کہنا تھا کہ سیاحت میں بندہ بہت سی چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ سیکھتا اور اپناتا ہے لیکن میں یہ کہوں گا کہ میرے اندر بہت سی چیزیں قدرتی طور پر موجود تھیں۔

وہ میں نے ایڈاپٹ نہیں کیں۔ بچپن میں جو انگریزی کا پہلا لفظ میں نے سیکھا تھا وہ چھٹی جماعت میں  ''ٹورسٹ'' تھا۔ سیاح جو لفط ہے ناں یہ بچپن سے ہی مجھے انسپائر کرتا تھا۔ میں نے اس کی انگلش ڈھونڈی اور یہ لفظ سیکھا۔ میرے والد صاحب بھی ایک سیاح تھے جنہوں نے اپنے زمانے میں انٹرنیشنل ٹور بھی کیئے تھے تو میں ان سے بہت متاثر ہوتا تھا لیکن ہمارے ہاں جس طرح کا ماحول تھا اس میں سیاحت کے مواقع بہت کم تھے اور کوئی رہنمائی کرنے والا بھی نہیں تھا۔


یہاں میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ میرے والد صاحب ایجوکیشن  ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔ ہمارے بچپن میں ایک بار وہ لائبریری کی کچھ کتابیں گھر لائے تو وہ میں نے دیکھیں ان میں سے ایک کتاب جنرل سکاؤٹس کے بارے میں تھی۔ مجھے وہ اتنی اچھی لگی کہ میں نے وہ کتاب چپکہ سے اٹھا لی جس میں کیمپس کی  تصاویر مجھے بہت پسند آئیں۔  اس کی ایک زبردست تصویر مجھے اب بھی یاد ہے جس میں سکاؤٹس کو ایسی ندی پار کرنے کا طریقہ بتایا گیا تھا جس کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

ایسے حالات میں کسی قریبی درخت کو کاٹ کر پل بنانا سکھایا گیا تھا ۔ افسوس کہ آج کل نوجوانوں کو یہ چیزیں نہیں سکھائی جاتیں۔
تو وہ کتاب میں نے چھپا لی۔ ایک دو دن بعد ،جب وہ کارٹن والد صاحب نے واپس کرنا تھا تو کتابیں گنتی کی گئیں اور ایک کتاب کم نکلی۔ انہوں نے ہم سب بھائیوں کو بلا لیا اور کہا کہ ایک کتاب کم ہے۔ میں نے اس وقت خوف سے تو ناں بتایا کہ کتاب میرے پاس ہے اور الماری سے نکال کر باہر کہیں رکھ دی کہ کوئی دیکھ کر والد صاحب کو دے دے گا۔

ایک دو دن بعد ہی امی نے وہ کتاب دیکھی اور اٹھا کہ والد صاحب کو دے دی۔ غرض تب سے یہ سیاحت اور سکاؤٹنگ میرے خون میں ہیں۔
اس چیز کو پھر میں آگے لے کر چلا اور اسکول لائف سے ہی میں نے سکاؤٹنگ شروع کر دی۔ اپنی سکول ٹیم کے ساتھ  دو دفعہ میں مری گیا جہاں ہم نے سکاؤٹنگ کی بنیادی باتیں سیکھیں۔  تو میری بنیاد میں سکاؤٹنگ کا بہت بڑا کردار ہے بلکہ میں اب بھی ایک دو سکاؤٹنگ کلبز کا ممبر ہوں۔

بہاولپور کے مشہور ایجوکیشنسٹ اور سکاؤٹ میاں نیک اختر  نے مجھے ایک بار کہا کہ جو کام اب آپ کر رہے ہیں یہ 80 فیصد سکاؤٹنگ ہی ہے تو آپ سکاؤٹنگ میں کیوں نہیں آتے۔۔۔؟؟
تو میں نے انہیں کہا کہ میں تو کب سے ایک کلب بنانے کا سوچ رہا ہوں۔ کراس روٹ کلب کے اندر بھی ہم یہ ایکٹیوٹیز کروا سکتے ہیں۔ سکاؤٹنگ ایک ایسا فورم ہے کہ آپ اس میں اپنے نام کا کلب بنا کہ بھی بہت سے کام کر سکتے ہیں۔

میں اس حوالے سے بھی کام کرنے کا سوچ رہا ہوں ۔
آپ نے بتایا کہ  میں نے گھومنا پھرنا 1987 میں شروع کر دیا تھا اور 1989 میں ایک  بڑا ٹور جو میں نے کیا وہ سائیکل پر مظفر گڑھ تا لاہور کا سفر تھا۔ یہ اقبال ڈے کے حوالے سے تھا جس میں چار ہم پانچ سائیکلسٹ شامل تھے۔  اس زمانے کے لحاظ سے یہ مشکل سفر تھا کیونکہ سہولتیں کم ہوتی تھیں ۔ پھر باقاعدہ سیاحت میں نے 2000 کے بعد سے شروع کر دی تھی اور جب میں 10-2009 میں لاہور آیا تو یہاں سے میری بڑی سیاحتی مہمات کا آغاز ہوا۔


اپنی منفرد اور بین الاقوامی  قسم کی شخصیت اور حلیئے کے بارے میں مکرم صاحب نے ایک مزیدار کہا نی سنائی کہ 2001 سے 2004 کے درمیان اپنے ٹور میں نے تیز کر لیئے اس زمانے میں، میں پروفیشنل سیاحت میں تھا ۔ اِن  دنوں ہمارے ٹورز منظم طریقے سےہوا کرتے تھے، میڈیا اور مختلف ادارے  بھی شامل ہوتے تھے۔ تو بہت سے بین الاقوامی سیاح بھی آتے اور مجھ سے ملتے تھے۔


میں نے انہیں دیکھ کہ کچھ منفرد کرنے کا سوچا اور اپنے حلیئے پر توجہ دی۔ ان دنوں میرے بال بڑے تھے تو میں نے پونی کر لی۔ جب میں گاؤں جاتا تھا تو بڑے بوڑھوں سے اسے چھپانے کے لیئے پی کیپ پہن لیتا تھا۔ اس وقت دیہاتوں میں ٹراؤزر اور پینٹ پہننا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔
یہ 2010 کی بات ہے کہ جب میں لاہور آیا تو مجھے شدید قسم کا ڈینگی ہوا اور کوئی پندرہ دن میں نے بہت اذیت کے گزارے۔

ہڈیوں اور جسم میں درد کے ساتھ میرے بال بھی گرنے لگ گئے۔ جب میں کنگھی کرتا تو بال ٹوٹ جاتے۔ پھر جب میں ٹھیک ہوا تو میں نے سوچا کہ میں ٹِنڈ کرواتا ہوں تاکہ اچھے بال نکلیں لیکن اسکے باوجود بال اچھے ناں نکلے تو میں نے ایک فیصلہ کیا کہ اگر میرے اللہ کو میرے بال نہیں پسند تو میں ٹنڈ ہی کیوں نا کروا لوں۔ میں کون ہوتا ہوں اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کرنے والا۔

تو میں نےٹنڈ کروا لی۔ رہی بات مونچھوں کی تو وہ میری پہلے بھی تھیں پونی کے ساتھ ساتھ ۔فرق یہ ہے کہ اس وقت میری ہلکی داڑھی بھی تھی اور میں ایک آرٹسٹ لگتا تھا اور اب بائیکر لگتا ہوں۔ اب لوگ دیکھ کہ کہتے ہیں کہ میری مشابہت ریسلر ''ہلک ہوگن'' سے ہے۔ ایک اور دلچسپ بات آپ کو بتاؤں کہ جب میں اندرون لاہور یا کہیں اور ٹور پر جاتا ہوں تو لوگ بہت حیران ہوتے ہیں اور مجھے باہر کا بندہ سمجھ کہ تصاویر بنواتے ہیں، لیکن جب مجھے سرائیکی یا اردو بولتے دیکھتے ہیں تو دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں۔


خاندان والوں کے ری ایکشن اور فیملی سپورٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ خاندان کے کچھ لوگوں نے تو بہت باتیں کیں کہ یہ ہر وقت باہر رہتا ہے، اِدھر اُدھر نکل جاتا ہے، یہ سب وقت اور پیسے کا ضیاع ہے، کہیں اس کا کوئی معاشقہ نا چل رہا ہو وغیرہ وغیرہ لیکن الحمد للہ میری بیگم اور بچوں نے بہت ساتھ دیا میرا۔ اگرچہ شروع میں وہ بھی اس چیز کے حامی نہیں تھے لیکن جب سے میں نے ٹیلیویژن اور اخبارات میں آنا شروع کیا اور عوامی مقامات پر لوگوں نے مجھے پہچاننا شروع کیا  تو بچے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا۔

اب وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور اس چیز پر فخر بھی کرتے ہیں۔ میری والدہ اور والد نے بھی اس کو میرا عارضی شوق سمجھ کہ میرے حال پہ چھوڑ دیا تھا لیکن بعد میں اس کو قبول کر لیا۔
اب چلتے ہیں بائکنگ اور کراس روٹ کلب کی طرف۔ اس بارے میں بات کرتے ہوے ترین صاحب نے اپنی بہت سی یادیں مجھ سے شیئر کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2009 کے بعد جب میں لاہور آیا تو یہاں بہت مواقع تھے میں بہت لوگوں کو ملا ۔

ملتان میں چونکہ مواقع کم تھے تو میری سیاحت کی پیاس لاہور نے بجھائی یہاں۔ بہت سے دوست اور جاننے والے ملے۔ لیکن میں نے یہاں آ کہ دیکھا کہ سیاحت کا کوئی پراپر فورم نہیں ہے دو دو چار چار لوگ اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔ پھر میں کچھ دوستوں سے ملا جن میں ایک عاطف زاہد تھے جن سے میری روز سِٹنگ ہوتی تھی۔ تب ہمیں بہت لوگوں کے فون اور میسجز آتے تھے کہ ہم نے ٹور کرنا ہے ہمیں کوئی گائیڈ نہیں کرتا آُپ ہمیں بتائیں۔

پھر ایک دن میرے ایک دوست نے مجھے کسی شخص کا ایک میسج فارورڈ کیا کہ
''مکرم نوجوانوں کو گائیڈ نہیں کرتا حالانکہ اسے سب پتہ ہوتا ہے''۔ بس یہی کمینٹ اللہ کی طرف سے میرے لیئے لائف چینجنگ بنا ۔ میں نے سوچا کہ واقعی جو کچھ میں نے ڈنڈے اور گالیاں کھا کہ سیکھا ہے وہ نوجوانوں کو آسانی سے سکھایا جائے۔ ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے تو ہم نے ایک فورم بنانے کا سوچا۔


تب ہم نے موٹر سائیکل ایسوسی ایشن (میپ) کی بنیاد رکھی 2010 میں ۔پھر ہم نے اور لوگوں کو ساتھ ملایا جن میں ڈاکٹر عمر، اکبر مسعود وغیرہ شامل ہیں۔ تو یوں ہمارا گروپ بنا۔ پہلا ایونٹ ہمارا چھانگا مانگا میں کیمپنگ کا تھا جس میں کافی لوگ شامل ہوئے اور اس ایونٹ نے ٹوارزم کی نرسری کا کام دیا۔ وہاں دو دو، تین تین ہم خیال لوگوں کے گروپ بنے اور پھر یہ سب پھیل گئے۔

لیکن آگے چل کہ میپ میں کچھ گندے انڈے آ گئے جن کا سیاحت اور بائیکنگ سے دور دور تک کوئی تعلق نا تھا انہوں نے اس تنظیم کو ہائی جیک کر لیا۔ تنظیم میں دھڑے بن گئے اور لوگوں نے میٹنگ میٹنگ کھیلنا شروع کر دیا  تو میں نے لڑائی جھگڑا کرنے اور سیاست کرنے کی بجائے 2013 میں خاموشی سے اس تنظیم سے کنارہ کشی کر لی اور اپنا راستہ بدل لیا تاکہ ہم دنیا کو اپنا اور سیاحت کا بہترین چہرہ دکھائیں ۔


پھر دو تین مہینے ہم نے ایک نئی تنظیم پر کام کیا اور 2014 میں ہم نے کراس روٹ کلب کی بنیاد رکھی اور جوہر ٹاؤن لاہور میں واقع گسٹو ریسٹورنٹ پر اسکی لانچنگ تقریب کی جہاں 13 14 دوست موجود تھے۔
اس کا لوگو ہمارے دوست فرحان علی نے ڈیزائن کیا اور اس کا نام ہم نے  پانچ چھ ناموں میں سے سروے کروا کر چنا۔ اس کا ہم نے منشور بھی بنایا کہ ہم بائیکرز خصوصاً نوجوانوں کو سیاحت کے لیئے ایک پلیٹ فارم مہیا کریں گے۔


اس کے تحت پہلے  کھاجوٹ میں ہم نے کیمپنگ کی اور اس کے بعد بلوکی اور چھانگا مانگا میں ایک ایک دن کی کیمپنگ کی۔ سب ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کیا ۔ تب ہم نے ممبر شپ کا چکر نہیں رکھا تھا۔ لیکن جب لوگ بڑھتے گئے تو ہم نے 2015 میں ممبر شپ اوپن کی اس سے پہلے بس نام تھا ہمارا۔ اور ہم آگے بڑھتے گئے ۔
مکرم صاحب کے نزدیک کراس روٹ کلب کا اب تک کا سب سے دلچسپ و یادگار ایونٹ 2018 میں  ورلڈ ٹورزم ڈے زیارت، بلوچستان کا ہے۔

اس بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں یادگار سفر پر پوری کتاب لکھ سکتا ہوں۔ اس سفر میں جو ہم پر گزری وہ صرف ہم ہی جانتے ہیں۔
سب سے پہلے بائیکرز اور ان کے گھر  والوں کے تحفظات کو دور کرنا تھا پھر سیکیورٹی کے مسائل تھے کہ ایک بڑا قافلہ زیارت کی طرف جانا تھا۔ اچھا میں آپ کو بتاؤں کہ ہمارا فورٹ منرو قیام تھا۔ جب ہم وہاں موجود تھے تو مقامی لیویز کے ایس ایچ او نے مجھے کہا کہ ایک دن پہلے لورالائی میں سیکیورٹی فورسز کے 16 آدمیوں کو اغواء کر کے قتل کر دیا گیا ہے تو آپ اپنا یہ سفر فورٹ منرو میں ہی ختم کر دیں ۔

  میں نے یہ کہتے ہوئے صاف انکار کر دیا کہ میرے لیئے یہ بہت مشکل ہے کہ میں دور دور سے آئے لوگوں کو زیارت کا کہہ کر لاؤں اور انہیں فورٹ منرو سے واپس بھیج دوں۔ میرے وہاں چھکے چھوٹ گئے تھے۔ اس نے مجھے کہا کہ اگر آپ آگے گئے بھی تو انہوں نے آپ کو لورالوئی کراس نہیں کرنے دینا تو میں نے کہا کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور پاکستان کی سیاحت کا چہرہ ہیں، ہم جائیں گے۔


آگے رکھنی چیک پوسٹ پر بھی ہمیں روکا گیا لیکن ہم بڑھتے گئے۔ انہوں نے بھی شاید کہیں یہ سوچا ہوا تھا کہ اگر یہ رک جاتے ہیں تو بہت اچھے ورنہ ان کو کراس کرنے دیں گے اور زبردستی نہیں روکیں گے۔ میں نے یہ سب باتیں کسی کو نہیں بتائیں لیکن میں نے وہاں تقریر کر کہ لوگوں کا مائنڈ بنا دیا تھا کہ شاید دیر ہو جانے پر لورالائی میں ہمیں روکا  جائے۔

تو ہمیں 3 بجے سے پہلے لورالائی کراس کرنا ہے اب آپ کو سیف اور فاسٹ جانا ہے۔ میں نے انہیں لیٹ ہو جانے کی وجہ بتائی کہ اگر واپس بھیجا تو اس وجہ سے بھیجا جائے گا۔
 خیر اللہ نے کرم کیا اور ہم خیر خیریت سے لورالائی پہنچ گئے۔ سب لوگوں نے میری دی گئی ہدایات پر پورا پورا عمل کیا۔  وہاں انہوں نے ہمیں تھوڑی دیر ٹھہرایا اور ہائر اتھارٹی سے بات کی چونکہ ہم ٹائم پر پہنچے تھے تو ہمیں آگے جانے دیا حالانکہ ہمارے کچھ دوستوں کی بائیکس بھی خراب ہوئی تھیں۔

ہم مختلف ہوٹلوں پر رک کر کھانا کھاتے تھے کیونکہ ایک ہوٹل پر سب لوگوں کا انتظام ممکن نہیں تھا۔ میں یوں کیا کہ تین تین بائیکرز کے گروپ بنا دیئے تھے تو پریشانیاں کم ہو گئیں۔ رکھنی میں جتنے سب سہمے ہوئے تھے آگے چل کر اتنے ہی لوگ آزاد منش اور جوشیلے ہو گئے۔ آرمی کی ایک گاڑی ہمارے آگے اور ایک پیچھے تھی اور ایک ایک چیز کی انفارمیشن ہائی کمان تک جا رہی تھی۔


میں آپ کو بتاؤں عظیم کہ بلوچستان کی تاریخ میں اتنا بڑا موٹر سائیکلوں کا قافلہ نہیں گیا تھا جس میں ملتان، کراچی، لاہور، فیصل آباد، بہاولپور، گجرات، پنڈی ،گجرانوالہ، پشاور سمیت کئی شہروں کے بائیکرز تھے ۔ بلوچستان کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا تھا۔ گرتے پڑتے ہم شام کو زیارت پہنچے، تب تک اندھیرا ہو چکا تھا۔  ہم نے وہاں کیمپ لگائے اور میلہ سجایا۔

زیارت میں جنگل میں منگل کا سا سماں تھا۔  اگلے دن صبح ہم نے اکٹھا ہو کر تقریب شروع کی۔ قومی ترانہ پڑھا اور تصاویر بنوائیں۔ زیارت ریذیڈنسی کو ہم نے ٹیک اوور کر لیا تھا۔ ہر جگہ کلب کی پیلی شرٹس  پہنے کراس روٹ کلب کے ہی لوگ تھے۔ تصویر میں آپ دیکھیں تو زیارت ریذیڈنسی کی عمارت پیلی شرٹس والوں سے چھپ گئی تھی۔
 یہ تصاویر جیسے ہی سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہوئیں سیاحت کی دنیا میں ایک بھونچال آگیا۔

لوگوں نے زیارت سمیت کنگری، میختر، لورالائی اور دوسرے علاقوں کے خوبصورت مناظر دیکھے تو دنگ رہ گئے۔ بلوچستان کا حسن کھل کہ سامنے آ گیا۔ وہاں زیارت میں ہمارے ایونٹ کے کامیاب اختتام کے بعد مجھے فون پہ فون آنا شروع ہو گئے۔ ایف سی ہیڈ کوارٹر سدرن کمانڈ، جو ہمیں پورے سفر کے دوران مانیٹر کر رہا تھا نے مجھے فون کر کہ بتایا کہ ایونٹ کے فوراً بعد آپ کے کچھ بائیکر چمن پہنچے ہوئے ہیں کوئی خضدار جا رہا ہے، کوئی کوئٹہ، مکران تو کوئی کھوجک ٹنل گھوم رہا ہے۔

یقین کریں کہ ہمارا قافلہ پورے بلوچستان میں پھیل گیا اور پورا ہفتہ لوف مختلف علاقون میں گھومے ۔ بلوچستان کا خوف ختم ہو گیا لوگوں میں اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار تھا۔ ہمارے اسی گروپ کے کچھ لوگ گوادر اور استولا تک بھی گئے۔
اسی طرح واپسی پر کوئی سکھر سے گیا کوئی ژوب کے راستے ڈیرہ اسمٰعیل خان سے تو کوئی فورٹ منروکے راستے سے۔

آرمی، حکومت اور میڈیا سب نے ہمارے اس کامیاب ایونٹ کو بہت سراہا۔ جب گوادر، ژوب، سبی وغیرہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر پہنچیں تو لوگ اش اش کر اٹھے۔  جو لوگ نہیں جا سکے انہوں نے پھر بہت افسوس بھی کیا۔
اسی طرح اگر میں کراس روٹ کلب کی اہم ترین کامیابی کا ذکر کروں تو وہ لاہور تا تہران ریلی ہو گی جس کو ہم نے''یارِ من ایران'' کا نام دیا تھا۔

2019 کے اختتام پر ہم نے ایران جانے کا پلان بنایا اور اس کو کامیابی سے پائہ تکمیل تک پہنچایا۔ میں اس کا بھی ایک یادگار واقعہ سب سے شیئر کرنا چاہوں گا کہ جب ہم دالبندین، جو کوئٹہ اور تفتان کے بیچ میں ہے، سے نکلے تو راستے میں ریت کا طوفان آ گیا۔ آرمی کے دو ڈالے ہمارے ساتھ تھے کیونکہ یہ ٹور بلوچستان کی تاریخ کا اہم ٹور تھا جب پاکستان کے 16 بائیکر پہلی بار بزریعہ سڑک ایران جا رہے ہیں ۔

بقول ایک صوبیدار کے ( جو ہمارے قافلے کیساتھ چل رہا تھا) کہ پچھلے بائیس سال میں اس نے ایسا  ریت کا طوفان نہیں دیکھا تھا۔ تقریباً کوئی 250 کلومیٹر تک یہ طوفان ہمارے ساتھ رہا۔ بائیکرز کے کپڑے، ہیلمٹ، کیمرے، بائیک کے لیور سب خراب ہو گئے۔ ان میں ریت گھس گئی۔ یہ طوفان اتنا شدید تھا کہ ہم نے 20 سے اوپر سپیڈ نہیں بڑھائی اور ہم ایک کنارے پر بائیک چلاتے تو ہوا ہمیں دوسرے کنارے تک لا کہ نیچے صحرا میں دھکیل دیتی اور آرمی کے لوگ ( جن کا میں نہایت مشکور ہوں) ہماری مدد کرتے اور واپس سڑک پر لاتے۔

اسی جگہ جب ہمارا پانی کا ذخیزہ ختم ہوا تو ہم نے آرمی سے پانی لے کر پیا۔ پھر جب انکا پانی بھی ختم ہو گیا تو آرمی کی ایک اور گاڑی تفتان بارڈر سے پانی کا کولر لے کر آئی اور ہم تفتان بارڈر تک پہنچے۔ روڈ یہ سارا بہت زبردست تھا۔ اس ریلی کو ایران میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ پاکستان میں ''خانہ فرہنگ ایران'' نے بھی بہت تعاون کیا جس کے لیئے میں ان کے سفیر کا بھی شکر گزار ہوں۔

وہاں ہم نے 14 اگست کو پاکستان کا جھنڈا لہرایا اور اپنی کامیابی کا جشن منایا۔
اس کے علاوہ ہم کراس روٹ کلب کے پلیٹ فارم سے بہت سے چھوٹے بڑے ایونٹس اور ٹورز کر چکے ہیں۔ پبی میں کیمپنگ، پورے کوہِ سلیمان میں متعدد بائیک ریلیاں ، ملتان، ڈیرہ غازی خان اور گوجرانوالہ میں تاریخی فوٹو واکس، چولستان جیپ ریلی کے سالانہ ٹور اور سالانہ ورلڈ ٹورزم ڈے کے ٹور شامل ہیں۔


اس کے علاوہ ہم ایک اور اہم کام کرنے جا رہے ہیں جس کی منصوبہ بندی ابھی جاری ہے۔ پاکستان سے بائیکرز کا پہلا گروپ براستہ ایران اور متحدہ عرب امارات،عمرہ کی ادائیگی کے لیئے سعودیہ عرب جائے گا۔ کام مشکل ہے لیکن آپ سب کی دعاؤں سے ہو جائے گا ان شاٰء اللہ۔
 پھر اپنے پسندیدہ ترین سیاحتی مقام کے بارے میں بتاتے ہوئے خان صاحب کا کہنا تھا کہ پورے سیارے پر پاکستان ایک منفرد اور حسین ملک ہے جہاں کا ہر خطہ اپنی مثال آپ ہے۔

اس ملک پر اللہ تعالی کا خصوصی کرم ہے۔ میں نے 16 ملک گھومے پھرے لیکن یہ بہت خاص ہے۔ پاکستان میں مجھے خوبصورتی میں سوات اور چترال بہت پسند ہیں۔ سوست کے آس پاس کی جگہ اور نیلم ویلی بھی پسند ہے لیکن سب سے زیادہ ذاتی طور پر مجھے صحرائے چولستان پسند ہے اور میں وہاں بار بار گیا ہوں ۔ یہاں کی تاریخی جگہیں مجھے بہت لبھاتی ہیں۔ صحرا کے دل میں مجھے رات گزارنے کا مزہ آتا ہے ۔


بات کی جائے اگر بیرون ملک کی تو مجھے ویت نام بہت پسند ہے۔ وہاں کے لوگ وہاں کی خوبصورت کمال ہے۔ اس کے علاوہ میں نے روس، بنگلہ دیش، سری لنکا، ملائیشیا، سنگاپور، آزربائیجان،ایران اور  سعودی عرب بھی دیکھ رکھے ہیں ۔
پنجاب خصوصاً وسیب میں سیاحت کے فروغ کے بارے میں آُپ کا کہنا تھا کہ یہ مستقبل میں سیاحت کا مرکز ہے۔ جنوبی پنجاب ایک منفرد علاقہ ہے جو پورے پاکستان میں نہیں ملے گا۔

اس میں صحرا ہے جِسے ہم قلعوں کی زمین کہہ سکتے ہیں، جہاں ایک علاقے میں سب سے زیادہ قلعے موجود ہیں۔ اسی طرح یہی خطہ محلات کی سرزمین بھی کہلاتا ہے جہاں چھوٹے بڑے کئی شاہی محلات موجود ہیں ۔ فورٹ منرو، اناری ہِل اور ماڑی جیسے ٹھنڈے علاقے، کوہ سلیمان کے دلکش پہاڑ، دریائے سندھ کا جوبن غرض یہاں بہت کچھ ہے جو آپ کو اپنی جانب مائل کرتا ہے۔


وسیب کا لینڈ اسکیپ ، یہاں کی ثقافت، یہاں کے کھانے، یہاں کا طرز تعمیر، یہاں کے لوگ سب بہت منفرد ہیں جنہیں ابھی اور کھوجنا باقی ہے۔ سیاحت کے حوالے سے یہ بہت اہم ہے۔ ملتان ہزاروں سال قدیم شہر ہے جہاں کئی اولیاء اللہ کے مقبرے موجود ہیں اسی طرح اوچ شریف بھی بہت قدیم ہے۔ یہ خطہ میلوں اور عرسوں کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔  اس خطے کو ہم نے وہاں کی مشہور سیاحتی تنظیم ''وسیب ایکسپلورر'' کی مدد سے دریافت کیا ہے اور نئی نئی جگہیں اور چیزیں ڈھونڈٰی ہیں۔

اس تنظیم کی بہت خدمات ہیں کہ وسیب ایکسلورر نے ہی حکومت کی توجہ ان علاقوں کی جانب دلائی ہے۔ اور ہمارے کراس روٹ کلب کا لاہور کے بعد سب سے مضبوط چیپٹر ملتان اور ڈیرہ غازی خان کا ہے۔
 سیاحت کے بعد ہم نے مکرم ترین صاحب سے انکی سماجی خدمات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنی تنظیم ''ہمسایہ فوڈ بینک'' کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیں۔


ہمسایہ نام کی وجہ یہ بتائی کہ ہم نے پہلے سپر سٹورز کی ایک چین بنانے کا سوچا تھا جو چوبیس گھنٹے چلیں گے اور ان کا نام ہمسایہ ہو گا کیونکہ آپ کا ہمسایہ 24 گھنٹے آپ کے لیئے موجود ہوتا ہےکسی بھی گھر میں کچھ ختم ہو جائے تو ایمرجنسی میں ہمسائے کا ہی دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے،  آپ دن رات کسی بھی پہر اس سے نمک مرچ، چینی وغیرہ مانگ سکتے ہیں۔

تو اس بنیاد پر ہم نے یہ نام سوچا اور اسی کو رجسٹر بھی کروا لیا۔ کسی وجہ سے سپر سٹور تو ناں بن سکا لیکن ہم نے یہ فوڈ بینک بنا لیا اور اس کا نام ہمسایہ فوڈ بینک رکھ دیا۔
اسکی شروعات ایسے ہوئی کہ چھ سات سال پہلے ہم نے کچھ بچوں کو تعلیم کے حوالے سے مالی مدد فراہم کی اور ڈیڑھ دو سال کرتے رہے۔ پھر میرے بھائی منعم خان نے کہا کہ انسان کے لیئے تعلیم سے زیادہ اہم کھانا ہے۔

تو ہمیں لوگوں کو کھانا فراہم کرنا چاہیئے کہ پیٹ بھرا ہو گا تو بقیہ کام ہوں گے۔
ہم نے پھر اپنا کام تین مختلف جگہوں پر دسترخوان لگانے سے شروع کیا۔
ایک ٹھوکر اور باقی دو جوہر ٹاؤں کے مختلف علاقوں میں۔ لیکن ایک دن میں ایک جگہ سے گزرا تو وہاں لوگوں کی لمبی لائن دیکھی جو کسی دسترخوان پر کھانا کھانے والوں کی تھی۔ لوگ کھانے کے انتظار میں روڈ تک آئے ہوئے تھے۔

میں نے جب ان کی تصویر بنانا چاہی تو بہت سے لوگوں نے منہ پھیر لیا حالانکہ پاکستان میں لوگ خوشی سے تصویر بنواتے ہیں۔ بس یہی دیکھ کہ مجھے احساس ہوا کہ لوگ اپنے بھرم، اپنی انا کو عزیز رکھتے ہیں۔ تب ہم نے یوں کیا کہ کھانا پکا کر کیری ڈبے میں ڈالا اور لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا شروع کر دیا تاکہ ان لمبی لائنوں سے لوگوں کو نجات ملے ،سب کا بھرم بھی رہ جائے اور خواتین کو بھی کھانا لینے کا برابر موقع ملے جو اکثر دسترخوانوں پر نہیں آتی تھیں۔


یہ کام ہم نے 30 بیوہ خواتین سے شروع کیا تھا اور ما شاء اللہ اب ہم کوئی 520 لوگوں کو ایک وقت کا پکا ہوا کھانا ان کے دروازے تک پہنچا رہے ہیں اور آگے اس میں اور اضافہ متوقع ہے۔ایک اور بات بتاتا چلوں کہ اللہ کے فضل سے ہم نے ابھی تک اس کام کے لیئے کسی سے امداد نہیں مانگی۔ ہمارا ڈسٹری بیوشن کا بزنس ہے اور دیسی فارمولے کے تحت ہم تین روپے ہر کارٹن پر الگ کر لیتے ہیں۔

ہر مہینے کے اختتام پر ہم اپنی سیل دیکھ لیتے ہیں اور اس حساب سے پیسے الگ کر کہ ہمسایہ فوڈ بینک کے اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتی ہے۔ یقین مانیں جب سے یہ کام شروع کیا ہے اللہ پاک نے روزی میں بھی بہت برکت دی ہے اور حیران کن طور پر ہمیں بہت سی ڈسٹری بیوشنز اور ملی ہیں۔ یہ سب میرے رب کے کام ہیں۔
اس کام کے لیئے ہم سب سے پہلے مستحق خاندان کا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں اور میں بزاتِ خود وہاں جا کر اس چیز کو کنفرم کرتا ہوں اور پھر ہم ان کا کھانا لگا دیتے ہیں اور ہماری گاڑی جا کر وہاں تک پہنچا آتی ہے۔

اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ وہیں آس پاس کے علاقے میں ہمیں اور بھی لوگ مل جائیں تاکہ گاڑی ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھانا فراہم کر سکے۔ فوڈ بینک کے لیئے سامان کی خریداری میں خود جا کہ کرتا ہوں اور اس کے علاوہ ہم نے ایک کک اور کھانا بانٹنے کے لیئے دو بندے اور رکھے ہیں جو ہماری ہر کام میں مدد کرتے ہیں اور یہ کام چلتا رہتا ہے ۔


 
میرے آخری سوال کہ زندگی میں جتنے بھی ایوارڈ ملے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوشی کس کے ملنے پر ہوئی؟؟ کا مکرم صاحب نے جواب دیا کہ میرے لیئے دنیاوی ایوارڈز کی زیادہ اہمیت نہیں ہے میں دل سے بتاؤں تو دوستوں کی محبت، پوری دنیا میں مجھے جاننے والے لوگوں کا پیار اور اپنائیت ہی میرے لئے سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ اور میں اس حوالے سے خود کو بہت امیر سمجھتا ہوں۔


 یہ کیسے ہو گیا۔۔؟؟
 اس کی پیچھے وہ محبت ہے جو میں لوگوں سے کرتا ہوں۔ میں ہمیشہ جوڑنے کا کام کرتا ہوں توڑنے کا نہیں کرتا۔ میرے پاس آج کل دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ کرونا کے دنوں میں بھی میرے پاس سیاحوں کی 4  گاڑیاں پھنس گئیں جن میں 3 جوڑے اور دو بھائی سوار ہو کر پاکستان آئے تھے ۔ ٹوٹل آٹھ لوگ میرے پاس یہاں رہے اور میں نے ان کی مہمان نوازی کی، اس بات کی مجھے بہت خوشی ہے۔


 اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بتایا کہ میرا ارادہ پاکستان چین دوستی پر ایک بڑا ایونٹ کروانے کا ہے ساتھ ہی بلوچستان کے مختلف سیاحتی و تاریخی مقامات کو دنیا کے سامنے لانے کا عزم بھی کیا ہے۔ کوئٹہ میں آل پاکستان ٹورسٹ کی میٹنگ کرنے کا ارادہ ہے جو ان شاء اللہ پاکستان کا سب سے بڑا میٹ اپ ہو گا۔
اس دعا کے ساتھ میں نے ان سے رخصت چاہی کہ اللہ پاک ان کی تمام نیک خواہشات کو پورا کرے اور سیاحت کے میدان میں انکو اور کامیابیاں عطا فرمائے۔آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Dastan Aik JahanGard Ki is a local heros article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2020 and is famous in local heros category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.