ٹیچرز کی اقسام

یقینا ایک استاد بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہے ، وہ وہی آگے پہنچاتا ہے جو اس پر بیتی ہوتی ہے، بلا شبہ استادی جیسے شعبہ پیغمبری کا عزت و وقار سب سے مقدم ہونا چاہیے

نورالامین دانش جمعہ 17 اپریل 2020

Teachers Ki Iqsaam
(ابا جی کو کہو رکشہ لے دیں ، یہ پڑھائی شڑھائی تمارے بس کا کھیل نہیں، پڑھ کے تم نے کونسا ڈی سی لگ جانا ہے)
مندرجہ بالا کلمات میں نے کسی فلم یا ڈرامے کے ڈائیلاگ سے قطعی طور پر مستعار نہیں لیئے ، یہ وہ ویکسین ہے جو ہر مڈل کلاس کے سرکاری و نجی تعلیمی ادارے میں سٹوڈنٹ کو ہر دس منٹ کے بعد لگانا فرض عین سمجھا جاتا ہے۔
دور دراز کے کسی گاوں دیہات کے بچے کو جب اسکی ماں صبح سویرے نئی نویلی یونیفارم پہنا کر خود سکول یہ سوچ کے چھوڑنے جاتی ہے کہ میرا بچہ کل کو بڑا آدمی بنے گا لیکن وہاں اس بچے کے خوابوں کا بے رحمی سے خیر خواہ بن کر قتل عام کیا جاتا ہے۔


حسین سپنوں کی تکمیل تک پہنچنے کی اس کہانی کا دردناک آغاز سکول کے گیٹ سے ہوتا ہے جہاں معصوم بچے کو ٹیچرز تو دور کی بات سکول کی صفائی پر مامور دیو ہیکل شخص بھی خونخوار آنکھیں نکال کر اسے وہیں بیگ رکھ کر سکول کی صفائی پر جت جانے کا حکم جاری کرتا ہے۔

(جاری ہے)


اپنا کام ان معصوم بچوں سے کروانے والے صاحب کی وحشت و ہیبت جاری ہوتی ہے کہ اوپر سے تھرڈ ڈگری ٹارچر میں استعمال ہونے والا ڈنڈا لیکر دو چار بچوں پر اسے ٹیسٹ کرتے ہوئے ایک صاحب نمودار ہوتے ہوئے دونوں ہاتھوں اور بعض اوقات جھولیاں بھی کوڑا کرکٹ سے بھرنے کا حکم صادر فرماتے ہیں، حکم کی عدم تعمیل پر فوری مرغا بنا دیا جاتا ہے۔


اس عظیم الشان ویلکم کیبعد منہ پر کئی من مٹی لیئے جب بندہ کلاس میں پہنچتا ہے تو وہاں ایک نیا دلفریب منظر آپ کا منتطر ہوتا ہے جہاں کلاس روم رٹا فیکٹری کی منظر کشی کر رہا ہوتا ہے اور وہاں کا بادشاہ وہی ہوتا ہے جو ایک مخصوص انداز سے (اے فار ایپل) پڑھے اگر آپ نے ایپل کے علاوہ اے کو کسی سے جوڑنے کی سازش کی تو پھر جنگ عظیم کے لیئے تیار ہونے کیساتھ ساتھ مختلف القابات سننے کو بھی تیار ہو جائیں۔

۔۔
اگر کوئی بچہ بھول کے بھی مستقبل کی کسی خواہش کا اظہار کردے تو پھر اسکی دنیا اجیرن ہی سمجھیں۔ (اوئے ڈی سی ، کپتان صاحب ) جیسے القابات سے نواز کر بچے کی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ وہ اپنا نام تک بولنے سے کتراتا ہے۔
کالجز و یونیورسٹیز کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، یہاں بھی چند مخصوص امرا کی اولادوں کے پروٹوکول سے زیادہ کچھ نہیں ملتا۔


یونیورسٹی کے سمسٹر سسٹم میں حاضری کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے ، دور دراز علاقوں سے آنے والے بچے اٹینڈس کم ہونے کے ڈر سے گھر تک نہیں جاتے اور صبح ہمیشہ کلاس شروع ہونے سے بھی آدھ گھنٹہ پہلے پہنچتے ہیں لیکن یہاں بھی اگر آپ کسی بڑے کی اولاد ہیں تو قانون کا اطلاق آپ پر ہر گز نہیں کروایا جاتا ، آپ گھر رہیں یا سینما گھروں میں آپکی حاضری لگانے کی ذمہ داریاں پوری کرنے والے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔


عام طالب علم کو انٹرن شپ لیٹر تک لینے کے لیئے ہمالیہ سر کرنے جتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔
 ان تمام تلخ حقائق کے باوجود بعض فرشتہ صفت ٹیچرز بھی اس معاشرے کی اصلاح میں بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں لیکن انکی تعداد انتہائی کم ہونے کے باعث نظر نہیں آتی۔
یقینا ایک استاد بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہے ، وہ وہی آگے پہنچاتا ہے جو اس پر بیتی ہوتی ہے، بلا شبہ استادی جیسے شعبہ پیغمبری کا عزت و وقار سب سے مقدم ہونا چاہیے ،معاشرے کیساتھ ساتھ حکومتوں کو بھی پڑھانے والے کی تربیت پر کام کرنا چایئے لیکن پڑھانے والے کو بھی یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ کس طرح اسکا ایک کمنٹ کسی سٹوڈنٹ کا پورا کئرئیر تباہ کر دیتا ہے۔

۔۔
انہی رویوں نے نے تعلیم کو سرکاری اداروں سے نکال کر کارپوریٹ سیکٹر میں پھینک دیا ہے۔پرائیوٹ سکولوں نے سب سے پہلے بچوں کو اجلے لباس پہنا کر ، انہیں عزت دیکر نام نہاد ریاستی نطام تعلیم کو پہلئ ہی راونڈ میں شکست دے دی تھی
مار کٹائی اور ڈنڈے کی وحشت سے مشہوری پانے والوں کو ایک استاد کا رتبہ سمجھتے ہوئے کلاس روم اور پولیس کے انویسٹیگیشن سیل ، طالب علم اور مجرم کا فرق سمجھنا ہو گا۔۔۔۔۔
خدارا مال و دولت اور بڑی گاڑیوں سے امپریس ہونے کی اور بہت سی جگہیں ہیں سکول میں روحانی باپ ہونے کا کردار ادا کرتے ہوئے بڑے دل کا مظاہرہ کریں ہو سکتا ہے آپکی زبانی ستائش کسی کا کئیرئر بنا دے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Teachers Ki Iqsaam is a local heros article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 April 2020 and is famous in local heros category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.