غالب کاشعور مذہبی

عمرکے ساتھ ساتھ انکامذہبی شعور گہرا ہوتا گیا

پیر 15 فروری 2016

Ghalib Ka Shaoor e Mazhabi
ڈاکٹر تحسین فراقی:
اگر گالب اور ان کی فکروہنگ کابنظر غائر ضائزہ لیاجائے توان کی شخصیت پرکسی اصلاح کااطلاق ہوسکتا ہے تو وہ لفظ” حکیم “ کا ہے۔ روایتی تہذیبوں میں شاعر پر حکیم کو معنوی فوقیت حاصل تھی۔ شاید اسی لئے فیضی نے کہا تھا کہ شاعر سے زیادہ حکیم ہوں کہ دانندہٴ حادث وقدیم ہوں۔ اسے تنقید غالب کاالمیہ کہیے کہ نقادان غالب ہمیں دان رات یہ ہاورکراتے نہیں تھکتے کہ غالب ایک آزاد مشرب رند بادہ کش تھے اور مذہب کی قباان پر موزوں نہ آئی تھی۔

اس میں شک نہیں کہ غالب بعض معاشرتی اور روحانی حقائق اور مسلمات کوہر باشعور انسان کی طرح جانچتے اور پرکھتے تھے اور ان پراپنی آزاد درائے کے اظہار میں تامل نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ انہیں تشکیک اور ارتیاب کے ناگزیر مراحل کاسامنا بھی ہوا لیکن وہ یہیں کے ہو کرنہیں رہ گئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس قفس کو توڑا بھی:

بیضہ آساننگ بال وپرہے یہ کنج قفس
ازسر نوزندگی ہو، گررہاہوجائیے
واقعہ یہ ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کا مذہبی شعور گہرا ہوتا چلا گیا، چنانچہ اس ضمن میں ان کی فارسی شاعری کا قابل لحاظ حصہ بالعموم اور اس میں شامل ان کے حمد یہ ونعتیہ قصائد اور بعض مثنویات بالخصوص لائق توجہ ہیں۔

دراصل غالب کے نقادوں کاالمیہ یہ رہاہے کہ یہ استثنائے چند انہوں نے غالب کی فارسی شاعری اور ان کی بعض نثر ی تحریروں کو کماحقہ لائق اعتنا نہیں جانا نتیجتاََ ان کے مطالعات ادھورے اوریکے رخے ہیں۔ چونکہ غالب کی فارسی شاعری ان کی پختگی فکر وفرہنگ کا ثمر ہے، اس لیے اس کے بالا استیعاب مطالعے کی ضرورت ہے۔ اس باب میں فارسی شاعری میں ان کی ” مثنوی ابرگہربار“ اور مثنوی رنگ وبو“ اور نثر میں” مہر نیمروز“ اوردیباچہ”سراج المعروفت“نہایت درجہ اہم ہیں۔

مہر نیمروز“ دبیاچہ” سراج المعرفت اور مثنویی رنگ وبو کے حوالے سے غالب کے مذہبی شعور کا تذکرہ ذیل کی سطور میں کیا جاتا ہے مہرنیمروز کاسنہ تکمیل میں لکھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے ان دونوں 1853/54ء ہے اور سراج المعرفت کا دیباچہ 1852تحریروں کی تسوید کے وقت غالب چون پچپن برس کے تھے اور فکرکی شکست اور یخت اور گریزوکشمکش کے 148مراحل سے گزر کربالیدہ اور پختہ شعور سے فیض یاب ہوچکے تھے۔

ملاصادق کابلی کے نام اپنے مکتوب( جلداول) میں حجرت مجدد صاحب نے نہایت پتے کی بات فرمائی ہے کہ مکتوب اول نے حصول وسیرانی کی اطلاع اور مکتوب ثانی نے تشنگی وبے حاصلی کی خبردی۔ الحمداللہ اعتبار خاتمہ اور آخری حالت کاہے۔ یہ وہ حکیمانہ ارشاد ہے جس کااطلاق غالب کی موخرتحریروں پر بخوبی ہوتا ہے۔ شاہان تیماری کی نامکمل تاریخ ” مہرنیمروز“ اپنے تاریخی واقعات کے اعتبار سے حدودرجہ اہم ہے۔

حیرت ہے کہ غالبیات کے مخصص ایس ایم اکرام نے اس کتاب پر پڑی بے دردی سے پیاز کی مثال کا اطلاق کیاہے جس میں چھلکے ہی چھلکے ہیں، مغزنام کونہیں۔ کاش اکرام صاحب اس کتاب کو توجہ اور معروضی زاویہ نگاہ سے پڑھ سکتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو نہ صرف اپنی مذکورہ بالارائے سے دستبردار ہو جاتے بلکہ یہ بھی ہرگز نہ لکھتے کہ عذاب واجرکے قائل نہ ایک طرف غالب کے نہایت اہم مصدر کی اس سے ان کے گہرے رائیگانی کے تاسف کا میرے خیال میں غالب روز جزایا جسمانی تھے۔

مہرنیمروز جہاں سوانح کے اعتبار سے ایک حیثیت رکھتی ہے وہیں دینی شعور اور عمر رفتہ کی اندازہ بھی ہوتا ہے۔ مہر نیمروز“ کا آغاز اور زمزمہ نعت‘ اور آغاز پر توافشانی مہرنیمروز“ زیادہ اہم ہیں کہ ان کامافیہ ان کے اپنے قلب کی تہوں اور ذہن کی پرتوں سے پھوٹا ہے۔ جہاں تک اس کے بعد کے ابواب کاتعلق ہے، ان کا لوازمہ زیادہ ترحکیم احسن اللہ خاں کافراہم کردہ ہے جسے غالب نے فارسی میں ڈھال دیا۔

یہ کتاب اس قابل تھی کہ نہ صرف ازسر نوترتیب پاتی بلکہ اردو میں ترجمہ بھی ہوئی چنانچہ غالب صدی کے موقع پر پروفیسر عبدالرشید فاضل نے اس کاکامل اردو ترجمہ کیا اور مفید حواشی،تعلقات اور مفصل مقدمے کے ساتھ اسے شائع کیا۔ فاضل صاحب لائق مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اپنے تفصیلی مقدمے میں غالب کے گہرے دینی احساس کوخوبی سے نمایاں کیا ہے اور یوں غالب کے ساتھ روارکھی جانے والی ناانصافی کاکسی قدرازالہ کیا ہے۔

مہرنیمروز کے آغاز“ زمرمہ نعت‘ اور خطاب زمیں بوس“ میں سپردگی والہیت تاسف اور دردوگداز کا ناقابل فراموش احساس جاری وساری نظر آتاہے۔ عمرکے اس حصے میں ناقدری زمانہ جسمانی امراض، مسلم حکومت کی زوال آمادگی اور احساس بارگناہ نے غالب کی شخصیت میں دردو کرب کی وہ صورت پیداکردی ہے کہ محسوس ہوتا ہے صحراکاتن آور شاہ بلوط آگ کے شعلوں میں چٹخ رہا ہو۔

خطاب زمیں بوس“ میں زمانے کی سفلہ پروری اور نابغہ ناشناسی کاماتم کرتے ہوئے کس تاسف بھرے لہجے میں کہتے ہیں: میری جنس بے بہانے اس بازار میں قیمت نہیں پائی۔ ناچار جو کچھ اپنے ساتھ لایاہوں۔ کیوٹکر کہوں کہ اپنے ہی ساتھ لے جارہاہوں، کسی قدرکتابوں میں اور کسی قدر سینوں میں چھوڑ کر جارہاہوں۔ میرے بعد اگر اس گنج شائگاں کو ہوا اڑدے اڑا دے، اگر خاک کھاجائے، کھاجائے سینہ جوانمرگ آرزوؤں کامدفن ہے تو نگاہ کو چراغ گورغریباں ہونا چاہیے۔

یہی بات انہوں نے علائی کے نام ایک خط میں لکھی ہے۔ مجھے اپنے ایمان کی قسم میں نے اپنی نظم ونثر کی۔دادبہ اندازہ بایست پائی نہیں۔ آپ ہی کہا، آپ ہی سمجھا۔ قلندری وآزادگی وایثاروکرم کے جو دواعی میرے خالق نے مجھے بھی دئے ہیں بقدرہزار ایک طہور میں نہ آئے۔ یہی نہایت کربناک احساس زیاں“ مہرنیمروز“ کے خطاب زمیں بوس“ کے ایک اور اقتباس میں نظر آتاہے۔

میرا سینہ ایک ایسا نفس رکھتاتھا جونسیم کی مانند فرحت افزا تھا، جونسترن زار کی طرف سے چلتی تھی۔ میری زیاں پسندی کابراہوکہ میں نے اس صلاحیت کو سوائے غیر ضروری باتوں کے اور کہیں صرف نہ کیا۔ میری انگلیوں میں وجدبارابر کی مانند ایک قلم تھا جو کعبے کی طرف سے اٹھتا ہے۔ افسوس میں نے اسے زمین شور میں ضائع کردیا۔ انا کے اسی شدید احساس نے ان کی شخصیت میں گہرا ملال پیدا کردیا تھا۔

غالب کا خاندازنی تفاحز اور شعور انا تو اتنا میں لکھتے ۔ ناقدری Capitalsبڑھا ہوا تھا کہ اگر وہ انگریزی جانتے تو ہمیشہ اپنے نام کے تمام وحروف زمانہ سے ان کی شدید واہمہ شکنی ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ماضی کی بے اعتدالیوں نے ان کے یہاں ایسا کرب پیدا کردیا جوذات حق سے گہرے انسلاک کادیباچہ بن جاتا ہے۔ آسکروائلڈنے اپنی کتاب It is the of sorrowمیں کسی قدر درست کہاتھاکہ De Profundis Whic Remamrries us to Goodغالب کی جس آزاد اور رندمشربی پر ہمارے غالب شناسوں نے ضرورت سے زیادہ زور دیاہے ”مہرنیمروز“ میں غالب اپنی اسی آزادہ روی پر گہرے افسوس اور ملال کا اظہار کرتے اور اس امرپر تشکر کے کلمات ادا کرتے ہیں کہ بالآخر فیض ربانی سے انہیں میاں نصیرالدین عرف میاں کالے صاحب سے فیض اندوزی کی سعادت حاصل ہوئی۔

لکھتے ہیں: پچاس سال کی آوارہ گردی کے بعد کہ میری تیز رفتار نے مسجدوبت خانہ کی خاک اڑادی اور خانقاہ اور میکدے کوایک کردیا، اس شان ایزدی کی روشنی کی بدولت کہ جس نے فریدوں کادل کرامت عدل سے روشن کیااور مجھے سخن وری کاسلیقہ سکھایا مجھے اس دروازے پرلائے جس پر تیری آنکھ بھی حلقہ درکی طرح لگی ہوئی ہے۔ مہرنیمروز“ میں غالب بار گناہ سے دبے ہوئے ایک عہد عاجز نظرآتے ہیں۔

ان کااحساس حرماں اس قدر بڑھا ہوا اور پیش نظر سفردور دازکے لئے مطلوبہ ذادارہ کی عدم موجودگی کے باعث ہول وجزل اس قدر شدید ہے کہ اس کا تصور کر کے اعضاء سن ہونے لگتے ہیں اور دل کی دھڑکن معدوم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ کس کرب کے عالم میں لکھتے ہیں ہم تباہ حال سیاہ کار کہ نہ جن کے ہاتھ میں عصا ہے نہ پاؤں میں طاقت ہے، نہ چراغ فراہم ہے نہ چاند رات کہ اس کی روشنی میں رات کا سفر کیاجاسکے نہ آواز درا اور نہ فرشتے کی آواز کان میں پڑتی ہے۔ ہم اس ہولناک اور دہشت ناک گزرگاہ کوکیسے عبور کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ghalib Ka Shaoor e Mazhabi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 February 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.