
حق کی تلاش میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہنگامہ
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلباء جو حساس طبعیت کے مالک ہیں اور سچ کے متلا شی۔ جب گزشتہ ماہ حیدرآباد یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طالب علم روہیت ویمولا جو نیچ ذات کے دلت تھے نے اپنی درسگاہ کے متعصبانہ رویے سے تنگ آکر خود کشی کر لی تھی
منگل 1 مارچ 2016

نئی دہلی میں قائم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اپنے طلباء کی جانب سے حق اور سچائی کی خاطر علم بلند کر نے لئے مشہور ہے یونیورسٹی کے بانی اور بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا طلباء کو نصیحت کی خاطر پیغام جو درسگاہ میں نصب ہے کے مطابق "ایک یو نیورسٹی انسانیت رواداری ضبط اور حقیقت کی تلاش کی علامت ہے۔ اعلیٰ مقاصد کی سمت انسانی نسل کے سفر کا مظہر ہے۔"
9فروری 2013 کو کشمیری نژاد افضل گورو کو دہلی کی تہاڑ جیل میں خا موشی سے تختہ دار پہ لٹکا دیا گیا تھا ۔ نہ ان کے گھر والوں کو اطلاع دی گئی نہ انہیں افضل گورو سے آخری ملاقات کا موقع دیا گیا۔ افضل گورو پہ الزام تھا کہ13 دسمبر2001 کو دہلی کی پار لیمانی عمارت پہ حملہ انہوں نے کرایا تھا۔
(جاری ہے)
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلباء جو حساس طبعیت کے مالک ہیں اور سچ کے متلا شی۔ جب گزشتہ ماہ حیدرآباد یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی کے طالب علم روہیت ویمولا جو نیچ ذات کے دلت تھے نے اپنی درسگاہ کے متعصبانہ رویے سے تنگ آکر خود کشی کر لی تھی تو اس موقع پہ بھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلباء نے صدائے احتجاج بلند کی تھی۔9 فروری 2016 کو انہی طلباء نے یونیورسٹی میں مختلف مقامات پہ پوسٹر چسپاں کر کے طلباء کو دعوت دی کہ افضل گورو کے عدالتی قتل کے خلاف احتجاج کی خاطر مارچ میں حصہ لیں۔ انتہا پسند ہندو جماعت RSSآر ایس ایس کے طلباء کے بازو اخیل بھاریتہ ودیارتھی پرشید (اے بی وی پی) نے یونیورسٹی کے وائس چا نسلر جگدیش کمار کو مراسلہ بھیجا کہ طلبا کو افضل گوروکی پھانسی کے خلاف احتجاج کرنے سے روکا جائے۔
وائس چا نسلر نے اس احتجاجی ریلی کو منسوخ کرنے کا حکم دیار لیکن طلبا نے ریلی پھر بھی منعقد کرائی۔ نیتجتاً وائس چانسلر نے واقعے سے متعلق انکوائری کا حکم صادر فرمایا لیکن اے بی وی پی کی تشفی نہ ہوئی اور وہ حکمران بی جے پی کے پاس پہنچ گئے اور جھوٹی سچی شکائتیں لگا کر بی جے پی کے پارلیمانی رکن مہیش گیری کو مجبور کیا کہ وہ پولیس میں مقدمہ درج کرائیں۔ پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلباء کی انجمن کے صدر کنہیا کمارکو حراست میں لے لیا۔ انہیں زدوکوب کیا گیا اور دہلی کی تہاڑ جیل کی اسی کو ٹھری میں قید رکھا گیا ہے جس میں ا فضل گورو کو پابند سلاسل کیا گیا تھا۔ کنہیا کمار کے خلاف بھارتی ٹیلی ویڑن چینل زی ٹی وی کی ایک ویڈیو پیش کی گئی جس میں احتجاجی طلباء کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے حق میں نعرے پیش کرتے ہوئے دکھا یا گیا۔
اس ویڈیو نے دہلی کے وکلاء کو مشتعل کر دیا اور انہوں نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبا پہ ہلہ بول دیا اور ان کی ٹھکائی کر دی بعد میں مختلف ٹی وی چینلوں نے ان وکلا کو فاتحا نہ انداز میں اقرار کرتے ہوئے دکھا یاکہ ہم نے بھارت دشمن طلباء کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ زی ٹی وی کے رپورٹر وشواد یپک جس نے وہ ویڈیو بنائی تھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلباء کی گرفتاری کا باعث بنی نے چینل کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا کہ ان کی بنائی ہوئی ویڈیو میں پاکستان کے حق میں نہ نعرے لگے نہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی سے متعلق۔ یہ نعرے جعلی طور پر ویڈیومیں شامل کئے گئے۔
کنہیا کمار کے علاوہ اور بھی کئی طلباء دہلی پولیس کو مطلوب ہیں لیکن عوام نے طلباء کے خلاف پولیس اور وکلاء کے تشدد پہ احتجاج جاری رکھا ہے اس احتجاج میں کئی نامور شخصیات شامل ہو چکی ہیں۔ معروف صحافی جاوید نقوی جواہر لعل یونیورسٹی سے فارغ التحصیل سابق طا لب علم ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون جو دو دن قبل شائع ہوا میں لکھتے ہیں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلباء ہمیشہ سے حساس مزاج رہے ہیں۔ جب چینی رہنما ماؤز ے تنگ کا انتقال ہوا اور پاکستان کے وزایراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پہ لٹکایا گیا تو اس درسگاہ کے طلبا نے سوگ میں ایک دن کھانا نہیں کھایا اور بازؤوں پہ کالی پٹیاں باند ھیں۔ ان طلباء کو نہ تو پاکستان یا چین کا حا می قرار دیا گیا نہ ہی بھارت کا دشمن۔ بھارت کے مشہور روزنامے ہندوستان ٹائمز کے مدیر ونود شرما نے ٹی وی شو کے دوران بتایا کہ جب بینظیر بھٹو کا بہیمانہ قتل ہوا تو پورے بھارت نے اس درد کومحسوس کیا۔ افضل گورو کے عدالتی قتل پہ بحث و مباحثہ ملک دشمنی کا ثبوت نہیں۔ نامور صحافی برکھا دت نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام کھلے خط میں انکی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔کہ اس قسم کی انتہاء پسندی سے بھارت کی ساتھ کونقصان پہنچ رہا ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق طلباء جنہوں نے بھارتی فوج میں شمولیت اختیار کی اور اپنی جرات اور جوانمردی کی خاطر تمغے حاصل کئے نے احتجاج کے طور پر اپنے اعزازات حکومت کو واپس کر دئیے ہیں۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی شدت اور انتہا پسندی سے مایوس ہو کر سینکڑوں ادیب اور دانشوروں نے پہلے ہی اپنے اعزازات لوٹا دئیے ہیں۔ بھارت کو خود ہوش کے ناخن لینا چاہیے، دنیا بھر میں انتہا پسند ہندوؤں کی بھارت میں یلغار کے چرچے ہو رہے ہیں۔ ایک جانب اقلیتوں کے خلاف تشدد اور دوسری جانب اپنے ہی طلبا اور حساس صحافیوں کو بھارت دشمن اور غیر نیشنلسٹ قرار دے کر سزا کا مستوجب قرار دینا سراسر ناانصافی ہے۔
اگر بھارت دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوکر نام کمانا چاہتا ہے تو اسے حق پسندی، انصاف ،رواداری اور مساوات کی راہ کواپنا نا پڑ ے گا۔ شدت پسندی محض اسکے زوال کا سبب ہوگی۔ نریندرمودی نے خود جس انتہا پسندی کا آغاز کیا تھا، اسکے انجام کا وقت آگیا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
Haq Ki Talash Main Jawahar Laal Nehru Universty Main Hungama is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.