” ہم کہاں کہاں قضا ہو رہے ہیں!!“

دینِ حنیف میں حقوق اللہ سے کہیں زیادہ حقوق العباد کی اہمیت بتائی گئی ہے ،ذرادیکھو اہلِ مغرب کی طرف جنہیں تم کفر میں مبتلا سمجھ رہے ہو ان کی اخلاقی حالت، ان کی سماجی زندگی تم سے کہیں بہتر ہے

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی ہفتہ 2 مارچ 2019

hum kahan kahan qaza ho rahay hain
نماز ِ جنازہ کیلئے صف بندی ہو رہی تھی ،لوگ جو زندگی میں کبھی صف بندی کیلئے کوشاں نہیں رہے وہ بھی اس نماز کیلئے صف ٹیڑھی نہ ہو، فکر مند تھے۔ یقیناً نماز میں صف بندی کی اہمیت ہے مگر ایک سوال ذہن میں اْٹھا کہ” صف بندی صرف نماز ہی میں ضروری ہے۔؟“ بعض اوقات ذہن میں اْٹھنے والے سوالات کے پیچھے کچھ اور بھی ہوتا ہے تو یاد آیا کہ ہمارے بزرگ حافظ شمس الدین مرحوم کہا کرتے تھے کہ نماز کا عمل محض اللہ کی عبادت ہے، ایسا نہیں بلکہ یہ بہر لحاظ زندگی کے نظم و ضبط (ڈِسپلن) کا بھی ایک سبق ہے ، شرط توفیق کی ہے، بہت سے لوگ زندگی بھر نماز پڑھتے ہیں مگر اْن کے حصےّ میں سوائے ایک کسرت ، کچھ ہاتھ نہیں آتا اور کچھ لوگ اِک نماز سے نجانے کیا کیا حاصل کر لیتے ہیں پھر وہی نقطہ سامنے ہے کہ ان تمام عوامل کے پیچھے توفیق ہی کام کرتی ہے۔

(جاری ہے)

اب سوال اْٹھتا ہے کہ یہ توفیق کیوں کر نصیب ہوتی ہے ؟۔۔۔
انگریزی کا ایک لفظ Process (پروسس)ہے پروسس کا یہ عمل کبھی کبھی بہت طول بھی اختیار کر لیتا ہے اور کبھی اختصار ہی میں یہ عمل اپنی تکمیل کو پہنچ جاتا ہے ،بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ حمل قرار تو پایا مگر وضع ہونے سے قبل ہی ضائع ہوگیا کچھ ایسا ہی حال زندگی کے دیگر معاملات میں بھی کبھی کبھی دَر اآتا ہے۔

حال ہی میں ایک صاحب نے اپنے لیکچر میں ایک واقعہ سنایا کہ کسی کارپوریٹ ادارے میں بڑے عہدے کیلئے ایک امیدوار کا انٹرویو ہورہا تھا، انٹرویو کرنے والوں کا ایک پینل تھا، امیدوار سے ایک سوال کیا گیا اور ابھی اْس نے جواب دِیا ہی تھا کہ پینل کے دوسرے ممبر نے دوسرا سوال داغ دِیا مگر اْمیدوار بھی کم نہیں تھا ہر سوال کا وہ ایسے جواب دے رہا تھا کہ جیسے اْس کو یہ تمام سوال پہلے سے پتہ تھے۔

مختصر یہ کہ پینل نے اْمیدوار کو منتخب کر لیا مگر انتخاب کے باوجود آخری مرحلہ باقی تھا کہ کمپنی کا مینجِنگ ڈائریکٹر اس انتخاب کو تقرر نامہ دے کر مکمل کرتا تھا، اس عمل کا بھی ایک طریقہ تھا کہ وہ امیدوار کو باقاعدہ کسی اعلیٰ ترین ہوٹل میں عشائیے(ڈنر)پر مدعو کرتا اور کھانے کے بعد تقرر نامہ امیدوار کودِیا جاتا تھا، مذکورہ امیدوار کو حسبِ قاعدہ ایک اعلیٰ ہوٹل میں عشائیے پر مدعو کیا گیا سب کچھ حسب ِمعمول ہوتا رہا،کھانے میں سب سے پہلے سوپ پیش کیا گیا اور اس کے بعد دیگراشیائے خرد و نوش۔

۔۔ عشائیہ اپنی تکمیل کوپہنچا مگر کھانے کے بعد قاعدے کے مطابق مینجِنگ ڈائریکٹر نے امیدوار سے رْخصتی کا مصافحہ تو کیا مگر تقرر نامے کا لفافے دِیے بغیر یہ ملاقات تمام ہوگئی۔دوسری صبح دفتر میں انٹروِیو پینل کے اراکین نے مینجِنگ ڈائریکٹر کو ایک لائق افسر کی تقرری پر مبارکباد دِی تو مینجِنگ ڈائریکٹر نے جوابا ً کہا کہ۔۔۔کس بات کی مبارک باد؟۔

۔۔ میں نے تو اس امیدوارکو تقرر نامہ دِیا ہی نہیں۔۔۔پینل کے اراکین نے مینجِنگ ڈائریکٹر کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا: سَر! وہ نہایت لائق اور قابلِ شخص ہے وہ ہماری کمپنی کیلئے بہت سود مند ثابت ہو سکتا ہے، آخر اسے کیوں کر مسترد کر دِیا گیا ؟۔۔۔مینجِنگ ڈائریکٹر کاجواب تھا:
رات کھانے میں حسب ِمعمول سوپ پہلے پیش کیا گیا اور وہ سوپ ہی اس امیدوار کو لے ڈوبا۔

 
پینل اراکین حیرت زدہ کہ۔۔۔ ”سوپ ہی اسکی تقرری کو لے ڈوبا“۔۔۔!!ان لوگوں نے مینجِنگ ڈائریکٹر سے ستعجابی لہجے میں پوچھا کہ سَر وہ کیسے۔۔۔!؟مینجِنگ ڈائریکٹر کا جواب تھا کہ سوپ جیسے سامنے آیا اس نے نمک دانی اْٹھا کر سوپ میں نمک چھڑکنا شروع کر دیا۔ اْس کے اِس عمل ہی نے مجھے اس کی تقرری سے روک دِیا۔
پینل کے تمام اراکین ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر حیرت کی تصویر بن گئے۔

۔۔۔ اب مینجِنگ ڈائریکٹر سے پھرسوال کیا گیا کہ سَر سوپ میں نمک کا چھڑکنے سے اس کی تقرری کا تعلق۔۔۔؟؟مینجِنگ ڈائریکٹر نے سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور کہا کہ بات تو بہت چھوٹی سی ہے مگر اْس کے اِس چھوٹے سے عمل نے مجھے اس شخص کی نفسیات اس کے مزاج کی پوری تصویر دکھادِی، اس شخص کے سامنے جب سوپ رکھا گیا تو اسے چاہیے تھا کہ وہ پہلے سوپ چکھتا اور جب اسے اس سوپ میں نمک نہ ہونے کا احساس ہوتا تو اسے ضرور سوپ میں نمک چھڑکنا چاہیے تھا مگر اْس نے اس کے برعکس کیا، جس سے اس کی عجلت مزاجی اور عدم دور اندیشی کھل گئی۔

جو شخص یہ مزاج اور اس نفسیات کا حامل ہو وہ ہماری کمپنی کیلئے کسی بھی وقت کسی خطرے اور نقصان کا سبب بن سکتا ہے کہ بغیر معاملے کی تہہ میں اْترے وہ کوئی بھی فیصلہ کر دے اور وہ فیصلہ کمپنی کے جہاز کو بیچ سمْندَر میں ڈبو دے۔ہو سکتا ہے لکچرر صاحب نے یہ پورا معاملہ گھڑا ہو ، یعنی یہ محض کہانی یا افسانہ ہو مگر کوئی بھی کہانی یا افسانہ حقائق ہی کے بطن سے برآمد ہوتا ہے۔

فکشن اپنے آپ میں حقیقت ہی کی ایک تصویر ہوتا ہے۔ ہماری عمر کے وہ لوگ جنہوں نے مشہور جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی نگارشات کو پڑھا ہے وہ اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ آج سے نصف صدی قبل کمپیوٹر، انٹرنیٹ اورموبائیل جیسی ایجادات کا ہماری دْنیا میں کوئی تصور تک نہیں تھا مگر ابنِ صفی کی کہانیوں میں اس طرح کی کئی چیزوں کا بہرصورت خاصا تذکرہ برسہا برس قبل ہو چکا ہے اور وہ تصورات آج حقیقت بن کر ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔

افسانے اور حقیقت کے رشتے اور وجود کی یہ ایک سامنے کی مثال ہے اگر آپ ذرا گہرے تفکر اور تدبر سے کام لیں تو ایسی اور بھی مثالیں از خود آپ کے سامنے آجائیں گی۔ دیکھئے ایک شعر میں یہ پس منظر کیسے واضح ہوا ہے:تم تحیر کی حقیقت پَہ پریشان نہ ہوکیا عجب کل جو حقیقت سے بھی حیرت نکلے ۔یہ دْنیا قدرت کی تخلیق کا عجب مظہر ہے اور یہ ابھی نا تمام ہے اور اِس کی نا تمامی ہی دال ہے’ کہ آرہی ہے دمام دَم صدائے کن فیکوں‘۔

۔۔ 
ہمارے مذہبی قائدین کا بالخصوص عہد ِحاضر کا ایک بڑا طبقہ ایک عجب قسم کے تضاد اور نفس پروری کا شکار ہے جبکہ انہی کے ذریعے ہم تک’صف بندی‘ کا فلسفہ پہنچا مگر بغور دیکھیے تو صف بندی کی یہ تصویر انکے ہاں ناپید ہے، دراصل صف بندی اپنے آپ میں صرف ایک عمل نہیں بلکہ زندگی آمیز اور زندگی آموز پورا فلسفہ ہے، ہماری نماز کی صف ہو یا زندگی کے باطن کی صف بندی کا معاملہ ہم اس عمل میں من حیث القوم بہت پسماندہ ہیں، صف بندی کو ہم جیسے لوگ اتحاد اور نظم و ضبط کی ایک بنیاد سمجھتے ہیں اب ذرا اپنے اِرد گرد کا منظر گہری نظر سے دیکھیے اور سوچیے کہ ہم کہاں کہاں قضا ہو رہے ہیں یہ لفظ ” قضا“ بھی ہمارے ہاں ایک خاص معنو ں ہی میں مقید ہوکر رہ گیا ہے۔

ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ جس دین کے ہم پیرو ہونے کے مدعی ہیں اس میں راستے کی اڑچن کو دور کردینا بھی ایک نیکی بتائی گئی ہے مگر ہمارا معاشرہ اس عمل کے برعکس تصویر بنا ہوا ہے۔ ہمارے علاقوں میں جہاں چلے جائیے ایک اڑچن ہمارے سامنے ہوتی ہے اور مجال ہے کہ ہم کسی کو ٹوک سکیں مفتی صاحب نے کل ہی ایک فتوے میں حدیث نقل کی ہے کہ” تم کسی برائی کو دیکھو ، تو اسے اپنے ہاتھ سے رو کو ، اگر اسکی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو ، اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں برا سمجھو اور( واضح ہو کہ) ایمان کا یہ کم ترین درجہ ہے۔

پتہ چلا کہ ہم ایمان کے کم ترین درجے میں ہیں اور ہم ہی کیا حضرتِ والا قسم کے لوگ بھی اسی دائرے میں قید ہیں البتہ ان کے منہ پر کچھ کہنے کی ہم میں سکت نہیں چونکہ’۔۔۔ ہم ایمان کے کم ترین درجے میں ہیں۔‘۔۔۔ یہ باتیں ذہن میں گردِش کر رہی تھیں کہ حضرت والا قسم کا ہمارا اندرون ہم سے مخاطب ہوا کہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک غرور ہی نہیں ایک کِبر کے شکار ہو اور کبر کا مزاج رکھنے والا اِنسان حقیقی صاحبِ کبر یعنی اللہ کا حریف ہوتا ہے اور اللہ کے حریف کا انجام کتاب ِ مقدس میں بتا دِیا گیا ہے، سنو! یہ تمہاری عبادات، یہ تم جن کو اپنی نیکیاں سمجھ رہے ہو یہ سب تمہارے منہ پر ماری جائیں گی کہ دینِ حنیف میں حقوق اللہ سے کہیں زیادہ حقوق العباد کی اہمیت بتائی گئی ہے ،ذرادیکھو اہلِ مغرب کی طرف جنہیں تم کفر میں مبتلا سمجھ رہے ہو ان کی اخلاقی حالت، ان کی سماجی زندگی تم سے کہیں بہتر ہے، وہ اپنے ساتھ ہی نہیں دوسروں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کی خُو رکھتے ہیں اور سنو حضرت علی کیا کہہ گئے ہیں:”معاشرے کفر پر تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن ناانصافی پر نہیں۔

“ہم نے اپنے ہمزاد کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ”۔۔۔ چپ۔۔۔ اگر حضرتِ والا نے سْن لیا تو تیرے ساتھ ہم بھی مارے جائیں گے، کیا تو بھول گیا کہ ہم ایمان کے کمترین درجے میں ہیں۔!!“

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

hum kahan kahan qaza ho rahay hain is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 March 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.