انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ٹرانسپورٹ و پارکنگ کی مشکلات

بڑھتی ہوئی آبادی اور بہتر معیار زندگی کے پیش نظر کسی ملک میں نئے ہوائی اڈے بنانے کے علاوہ توسیع و ترقی کی بھی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ جس کا مقصد ہوائی جہازروں کے اڑنے، اترنے اور ٹھہرنے کے لئے مناسب جگہ مہیا کرنا اور مسافروں کیلئے سہولتیں بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ا

بدھ 19 اپریل 2017

International Airport Per Transport o Parking K Masail
ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم:
بڑھتی ہوئی آبادی اور بہتر معیار زندگی کے پیش نظر کسی ملک میں نئے ہوائی اڈے بنانے کے علاوہ توسیع و ترقی کی بھی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ جس کا مقصد ہوائی جہازروں کے اڑنے، اترنے اور ٹھہرنے کے لئے مناسب جگہ مہیا کرنا اور مسافروں کیلئے سہولتیں بہم پہنچانا ہوتا ہے۔اب تک اندرون ملک پروازوں اور بیرون ممالک ہوائی سفر کے لئے متعدد شہروں میں کئی ہوائی اڈے بنائے گئے ہیں۔

مگر کراچی کے بعد لاہور کاعلامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ دوسرا بڑا ہوائی اڈہ ہے۔ آزادی پاکستان کے وقت لاہور میں والٹن ہوائی اڈہ تھا۔ جب پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (PIA) نے اپنا پہلا بوئنگ جہاز 720 حاصل کیا تو والٹن ہوائی اڈہ اس بڑے جہاز کا بوجھ سنبھالنے کے لئے ناکافی تھا۔

(جاری ہے)

لہٰذا بین الاقوامی ہوائی سفرکی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے لاہور میں ہوائی اڈہ تعمیر کیا گیا جسے اب پرانا ایئر پورٹ کہا جاتا ہے۔

یہ ایئر پورٹ 1962 میں لاہور انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے نام سے جانا جاتا تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے مصور پاکستان علامہ اقبال کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ لاہور کا یہ ہوائی اڈہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے والی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ناکافی ہو گیا تو لاہور شہر کے وسط سے تقریباً 15 کلو میٹر دور مشرق میں علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کر لیا گیا ہے۔

جس کے تین بڑے ٹرمینل ہیں۔ علامہ اقبال ٹرمینل کارگو ٹرمینل اور حج ٹرمینل، ایک محتاط انداز کے مطابق حاجیوں سمیت سال بھر میں تین لاکھ سے زیادہ مسافر یہاں آتے اور جاتے ہیں۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق 2009ء میں 3192904 مسافروں نے علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈہ لاہور کو سفر سہولتوں کے لئے استعمال کیا۔ جبکہ کارگو یعنی سامان لانے لے جانے کا شعبہ اس کے علاوہ ہے۔


علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئر پورٹ لاہور کا اندرون ملک اور بین الاقوامی چوالیس شہروں سے ہوائی رابطہ ہے جہاں مسافر اور سامان لانے اور لے جانے کی بہترین سہولتیں موجود ہیں۔ اس ہوائی اڈہ کے دو متوازی رن وے ہیں۔ جس پر چھوٹے بڑے ہوائی جہاز دوڑانے اور ٹیکسی کی صلاحیت موجود ہے۔علامہ اقبال بین الاقوامی ائیر پورٹ لاہور پر اندرون ملک اور بیرون ملک علیحدہ علیحدہ روانگی لاؤنج موجود ہیں۔

جہاں الگ الگ 1200 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اس طرح کاروباری کلاس کے لئے ایک بین الاقوامی لاؤنج ہے ہر ایک کے لئے الگ الگ کمرہ نماز بھی مختص کئے گئے ہیں کافی، چائے، بیکری، ٹیلی فون اور دیگرضروری سہولتیں بھی کسی حد تک دستیاب ہیں۔ یہ تمام سہولتیں یقیناً بین الاقوامی میعار کو سامنے رکھ کر شرع کی گئیں تھیں۔مگر بعض مشکلات کی نشاندہی نہ کرنا بھی درست نہیں۔

ایئر پورٹ کی حدود میں ٹریفک وارڈن اور ائیرپورٹ سکیورٹی گارڈز بھی موجود ہیں جو آنے اور جانے والے مسافروں کی رہنمائی کے لئے تعین کئے گئے ہیں۔ مگر گاڑیوں کی پار کنگ کے مسائل سر فہرست ہیں۔ کچھ عرصہ قبل علامہ اقبال بین الاقوامی ہوائی اڈہ لاہور اپنے ایک عزیز کو پہنچانے کا اتفاق ہوا۔ شاہراہ قائداعظم سے گزرتے ہوئے جب عسکری 10 سے ہوائی اڈہ کے علاقہ میں داخل ہوئے راستوں کی بھول بھلیوں سے گزرنا دشوار ہو گیا۔

پرانا لاہور ائیرپورٹ اپنے اوپن ویو کے ساتھ براہ راست سیدھی مین روڈ سے منسلک تھا جس کے بیریئرز تک اومنی بس اور مسافر ویگن بھی جاتی تھیں۔ا ب ایسی کوئی سہولت نہیں ذاتی سواری کے بغیر پہنچنا ممکن نہیں۔ ہوائی اڈہ کے قریب پہنچ کر آمد اور روانگی کیلئے الگ الگ راستہ اختیا کرنا ہوتا ہے۔کیونکہ کسی عزیز کو سعودی عرب کی پرواز پر سوار ہونا تھا۔

بیریئر پر کوئی پانچ سکیورٹی گارڈز بائیں جانب کھڑے تھے جبکہ ایک گارڈ دائیں جانب تھا۔ اس نے ہمیں روکا اور کہا ٹکٹ دکھائیں۔ ہم نے بتایا یہ پاسپورٹ ہے اور ٹکٹ ایئرپورٹ پر ایجنٹ سے ملے گی۔ اس پر جانے کی اجازت دے دی گئی۔لیکن حیرت والی بات تھی کہ نہ تو سکیورٹی گارڈ نے کار کو چیک کیا اور نہ ہی سامان کی تلاشی یا جائزہ لیا۔ تھوڑا سے آگے بڑھے تو روانگی لاؤنج کے سامنے بنے ہوئے وسیع راستہ کی بائیں جانب تقریباً پانچ چھ ٹریفک وارڈن کھڑے تھے۔

سڑک کے دونوں جانب نوپارکنگ کے جگہ جگہ بورڈ نصب تھے۔ گاڑی کھڑی کرنے کا پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہاں گاڑی کھڑی نہیں کر سکتے۔ مسافر اور سامان اتاریں اور اوپر سے گھوم کر دوبارہ واپس آئیں نیچے آمد والی جگہ کار پارکنگ ہے۔ چنانچہ دوبارہ ان بھول بھلیوں والے راستے سے گزر کر تقریباً پندہ بیس منٹ کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔یہ بات حیرانی اور پریشانی کا باعث تھی کہ سینکڑوں ایکڑ پر محیط ہوائی اڈہ کا روانگی پارکنگ سٹینڈ ہی نہیں ہے جبکہ آمد کے لئے ہے۔

اگر سامان زیادہ ہو، بچے ساتھ ہوں، ضعیف اور بیمار بھی ہوں تو گاڑی کہاں چھوڑیں اور انہیں کیسے الوداع کہیں۔بغیر ڈرائیور ایسا کرنا ممکن نہیں۔ وہاں ٹریفک وارڈن دو لفٹر لئے ہوئے ان گاڑیوں کو اٹھا رہے تھے جو لوگ نہ جانتے ہوئے اپنی گاڑیوں کو سڑک کنارے پارک کر گئے تھے۔
اس بین الاقوامی اڈہ کی توسیع کیلئے اب اقدامات کئے جارہے ہیں تو ( Zone Departure ) روانگی کے علاقہ میں بھی پارکنگ کا انتظام کیا جائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سکیورٹی گارڈز اور ٹریفک وارڈن روایتی انداز میں کھڑے ہونے کے بجائے مستعدی سے مسافروں کے لئے مددگار ثابت ہوں۔ میٹرو بس سروس کو ہوائی اڈہ تک جانے کی اجازت دی جائے۔ داخلہ کے لئے بنائی گئی تنگ سڑک کو وسیع کیا جائے۔مسافروں اور ان کے ہمراہیوں کے لئے پینے کا پانی، بیٹھنے کی جگہ، بارش و آندھی سے بچاؤ کا انتظام، گاڑیوں کے لئے بھی شیڈ بنایا جائے تاکہ بس سٹینڈ اور ہوائی اڈہ میں فرق نظر آئے۔

ڈسپنسری اور میڈیکل آفیسر کا بھی انتظام کیا جائے۔ اشیاء خورونوش مہنگے داموں مل رہی ہیں، مناسب قیمتوں میں اشیاء مہیا کی جائیں۔ اور کوالٹی کنٹرول کا بندوبست کیا جائے۔عموماً پروازیں دیر سے آتی اور جاتی ہیں، انتظار کا وقت گزارنے کے لئے خصوصی اہتمام کیا جائے، خصوصی طور پر بچوں کے لئے کھیلنے کی جگہ ( Land Play) بھی بنایا جائے۔ پرواز کی تاخیر کی وجہ سے مسافر اور خصوصاً بچے پریشانی محسوس کرتے ہیں۔

پرائے ہوائی اڈہ پر جہاز کی پرواز اور اترتے وقت نظارہ کرنے اور عزیز رشتہ داروں کے لئے دور سے خوش آمدید اور خدا حافظ کہنے کی سہولت تھی۔ لیکن اس نئے نظام سے اسے خارج کر دیا گیاہے۔ پاکستان سے بیرون ملک جانے والی اکثریت روزی کمانے کے لئے اپنے وطن عزیز سے دور جاتی ہے۔اگر عملہ انہیں خوشگوار رویے کے ساتھ سے خدا حافظ کہہ کر رخصت کرے تو دیار غیر میں ان کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی اور اپنے ملک کا تشخص اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔

یہاں الٹاسامان کا وزن کرتے اور بورڈنگ کارڈ بناتے ہوئے ہر ایک کو ملزم سمجھا جائے۔ اس وقت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) سمیت متعدد ایئرلائنز لاہور بین الاقوامی ہوائی اڈہ پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے اپنے مسافروں کی بہترین نگہداشت ان سب کا نا صرف فرض ہے بلکہ اس سے بزنس کو ترقی دینے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

International Airport Per Transport o Parking K Masail is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 April 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.