انتخابا ت 2018ء “پی ٹی آئی اور آزاد گروپ آمنے سامنے!

ناراض کارکنوں کی اکثریت ”جیپ“میں سوار ، مرکز میں سینیٹ کی طرز پر حکومت بننے کا امکان

بدھ 11 جولائی 2018

intkhabat 2018 PTI aur azad group aamnay samnay
محبوب احمد
جمہوریت جو آمریت کی ضد ہے اس میں عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنا کر ان کی فلاح و بہبود کیلئے مثالی اقدامات کرنا اولین ترجیح ہونا چاہئے ، یہ جذبہ بھی صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی کا حق ادا ہولیکن بدقسمتی سے پاکستان میں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ ، اقربا پروری ، کرپشن اور دیگر کئی عیوب پر شرمندگی یا بیزاری کے بجائے ان کے لئے آمادگی اورتحسین کے جذبات کا فروغ پانا لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے، وقت کے تقاضوں کے مطابق معاشرے کو ترقی نہ دینے محروم طبقات تک تعلیم وصحت اور روزگار کی بہتر فراہمی میں یہی خرابیاں مزاحمت کا کردار ادا کررہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج غریب عوام ایسی نام نہاد جمہوری حکومت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ اور پاک فوج پر اپنی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں 2018ء کے عام انتخابات جوں جوں قریب آرہے ہیں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بھی مختلف خدشات اور امکانات کے عمل سے گزر ر ہا ہے کیونکہ کہیں سیاسی جماعتیں شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہی ہیں توکہیں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے بات چیت جاری ہے۔

(جاری ہے)

صوبہ پنجاب قومی اسمبلی کی141 اور صوبائی اسمبلی کی 297 نشستوں کے ساتھ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صوبے کو ہمیشہ سے ہی ملکی سیاست میں ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاں وفاق کی ان پر حکومت سازی کا فیصلہ یہیں سے ہوتا ہے وہیں اس بات کا بھی تعین ہوتا ہے کہ وزارت عظمی کا سہرا کس کے سر سجتاہے۔ مسلم لیگ (ن) کو گزشتہ 2 انتخابات میں پنجاب سے 2 بار حکومت بنانے کا اعزاز حاصل رہا ہے اور اس کی اب کی بار بھی یہی کوشش ہے کہ وہ مسند اقتدار پر براجمان ہو لیکن اس مرتبہ تحریک انصاف پنجاب کے ساتھ ساتھ لاہور کا قلعہ بھی سر کرنے کیلئے خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے اور پی ٹی آئی قیادت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس بار تبدیلی ضرور آئے گی ، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جنوبی پنجاب صوبے کا لالی پاپ اور تبدیلی کے نعرے عوام کو قائل کر سکیں گے؟ ، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس بات کا قطعاََانداز نہیں تھا کہ انہیں تحریک انصاف کی سخت پوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا، اس بات میں بھی کوئی شک و شے کی گنجائش نہیں ہے کہ پی ٹی آئی ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے پوری قوت کے ساتھ انتخابات میں نمودار ہوئی ہے۔


مسلم لیگ ن کے لئے تیزی کے ساتھ سیاسی فضا نا سازگار ہوتی جارہی ہے لیکن یہاں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس ساری صورت حال کا بھر پورفائد ہ تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی سمیت کوئی اور جماعت اٹھائے گی کیونکہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت بھاری مینڈیٹ تو دور کی بات سادہ اکثریت بھی نہیں لے سکے گی۔

اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کے 52 حلقوں میں 3 بڑی جماعتوں نے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا، پیپلز پارٹی کے 39 مسلم لیگ ن 21 جبکہ پی ٹی آئی نے 8 حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے، لہذا ایسے حالات میں اب یہی دکھائی دے رہا ہے کہ نئے انتخابات کے نتیجے میں معلق پارلیمان وجود میں آنے کا قوی امکان ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اپنے منشور کے مطابق کامیابی کے بلند و بانگ دعوے کرنا ایک طرف لیکن بظاہر دیکھا جائے تو ٹکٹوں کی تقسیم اور دیگر ایشوز پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے نالاں جیالوں اور متوالوں کی فوج ظفر موج جس سرعت کے ساتھ اپنی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ٹکٹ واپس کر کے ”جیپ “میں سوار ہو کر آزاد حیثیت میں انتخابی میدان میں اتری ہے اس سے واضح ہو چکا ہے کہ انتخابات2018ء میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کا مقابلہ اب آزاد گروپ سے ہو گا اور اب مرکز ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی بالکل سینیٹ کی طرز کی حکومت تشکیل دینے کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔

پاکستان کی بعض بڑی سیاسی پارٹیاں ان بدلتے حالات کی ساری ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتے ہوئے یہ الزام لگا رہی ہیں کہ سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ ان کیخلاف نا انصافی کا رویہ اپنایا جا رہا ہے حالانکہ 2008ء سے 2013ء اور2013ء سے 2018ء کے دوران پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی کارکردگی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان 10 برسوں میں شدید توانائی کے بحران نے انڈسٹری کو تباہی سے دوچار کر دیا جس کے باعث بے روز گاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ملکی معیشت حکمرانوں کے بلند و بانگ دعووٴں کے برعکس غیرتسلی بخش رہی ، امریکی ڈالر بے قابو ہونے سے پاکستانی روپے کی قدر خوفناک حد تک گر گئی ، زرمبادلہ کے ذخائر کا گراف مسلسل نیچے آنے ، غیرملکی قر ضے اور افراط زر بڑھنے سے درآمدات اور برآمدات کا توازن بھی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔


پاکستان میں سیاسی رسہ شی اور گہما گہمی عروج پر ہونے کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور نیب کے فعال کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ایسے حالات میں سیاسی رہنما کمپینز سکینڈل اور دیگر پراجیکٹس میں کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق عدالتوں اور نیب میں مقدمات کی سماعت کو نشانہ بنا کر اسے انتقامی کارروائیوں سے تشبیہ دے رہے ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان میں کرپشن کا ناسور ملک کے بیشتر اداروں میں اس انداز میں سرایت کر چکا ہے کہ شاید ہی کوئی اس سے بچ پایا ہو ، مقام افسوس ہے کہ حالیہ برسوں میں مفاہمت کی سیاست کے نام پر ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن کا مقصد ایک دوسرے کی بدعنوانی کو تحفظ دینا ٹھہرا، اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کے جو کیسز سامنے آئے ہیں ان سے ہمارے عوامی نمائندوں کی وطن عزیز سے محبت کا واضح ثبوت مل جاتا ہے، دلوں میں موجود لوٹ کھسوٹ کے جذبات اب زبانوں پر آرہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقر یبا13 ہزارارب جبکہ روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ بدعنوان عناصر کے خلا ف گھیراتنگ ہونے پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے جس طرح کا ردعمل سامنے آیا اور آرہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپانہیں ہے۔ ایک وزیر سے لے کر چپڑاسی تک کرپشن چھوڑنے پر آمادہ نہیں، ہر سرکاری افسر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے بے تاب ہے، سرکردہ لیڈر بھی بدعنوانی کو اپنا حق قرار دیتے ہیں۔

کیا ملک کو کرپشن فری بنانے کیلئے کرپٹ عناصر کیخلاف بلا امتیاز کارروائی یقینی بنائی جا سکے گی؟ کیا پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی کر پٹ عناصر کی گرفتاریوں کے بعد تحقیقات کے دوران انہیں بری کر کے ان کی فائلیں ہمیشہ کیلئے بند کر دی جائیں گی؟، یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن جناب چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا یہ بیان کہ کرپشن اور لوٹ مار کی دولت واپس لے کر ڈیموں اور دیگر منصوبوں کی تعمیر و ترقی پر لگائیں گے۔

اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انتخابات کے فوری بعد میگا کرپشن سکینڈلز میں ملوث عناصر کیخلاف گھیرا مزید تنگ ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرپٹ دوہری شہریت کے حامل سیاستدان اور بیوروکریٹس وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر بیرونی ممالک فرار کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی یا نہیں اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے 5 سالہ دور میں سیاسی افق پر مایوسی اور بے یقینی کے گہرے بادل چھائے رہے ، اب جبکہ مسلم لیگ ن اپنی آئینی مدت پوری کر چکی ہے تو ملک میں جمہوری استحکام کیلئے عوامی نمائندوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انتخابات 2018ء کے پرامن انعقاد کیلئے اپنا اپنا موثر کردار اداکریں۔

عام انتخابات کا انعقاد ایک آئینی تقاضا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ تنازعات سے بھر پور موجودہ سیاسی صورت ماحول میں نگران حکومت اور الیکشن کمیشن شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کرانے میں کسی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہو پاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

intkhabat 2018 PTI aur azad group aamnay samnay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 July 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.