اطمینان، بے چینی

واضح کرتا چلوں کہ ہمارے معاشرے میں غیرت وہ پیمانہ ہے جس کی بنا پر عموماً قتل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ہیرا منڈی میں پیدا ہونے والے کڑیل جوان اس رمز سے نہ صرف نا آشنا ہوتے ہیں بلکہ یہ ان کی کمائی کا ذریعہ ہے

وحیدر انور زاہر جمعہ 24 اپریل 2020

itminan, be cheeni
آ ج صبح سے ہی کچھ بے چینی، بے اطمینانی سی محسوس ہو رہی تھی۔پیر کی روشن صبح تھی۔کچھ دفتری امور ذہن پر سوار تھے جن کا نپٹانا ضروری تھا۔ناشتے میں بھی وہ مزہ نہیں تھاجو عموماً چھٹی والے دن ہوتا ہے۔ خیر دن امور نپٹانے میں گزر گیا۔شام ہوتے ہوتے ضروری امورانجام پذیر ہو گئے تو گھر واپسی پر ذہن میں ایک اطمینان سا آ گیا۔
اطمینان اور بے چینی دو کیفیتات ہیں۔

ایک دوسرے کی ضد ہیں حالانکہ ان کا مآخذ ایک ہے۔ اللہ کے بر گزیدہ بندوں کے چہروں پر سکون و اطمینان کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔جبکہ اکثر دنیا داروں کے چہرے بے چینی، پریشانی اور بے اطمینانی سے لب ریز رہتے ہیں۔ہم میں سے بیشتر لوگ کسی دن بلا وجہ بہت خوش اور مطمئن نظر آ رہے ہوتے ہیں جبکہ کسی دوسرے دن بلا وجہ بے چین اور پریشان۔

(جاری ہے)

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ بے چینی و بے اطمینانی اچانک کہاں سے آجاتی ہے؟ اسی طرح اطمینان اچانک کہاں سے آجاتا ہے؟

 انسان ایک روبوٹ مشین کی مانند ہے۔

انسانی دماغ میں جو عوامل Parameters ڈال دئیے جاتے ہیں یہ ان کے تحت کام کرتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے کہ ایک کمپیوٹر۔یا ایک تجزیاتی مشین۔ جس طرح تجزیاتی مشین کو استعمال سے پہلے پیمانہ بند calibrate کیا جاتا ہے۔ یا کمپیوٹر میں پروگرام ڈالا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ماحول بھی اپنے عوامل سے ہمیں پیمانہ بند کرتا ہے۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عوامل کہاں مرتب ہوتے ہیں؟ اور کیسے انسانی ذہن میں منتقل ہوتے ہیں؟
قارئین کرام۔

اسکا جواب ہے ۔معاشرہ۔
کسی بھی خطے کا معاشرہ وہ مآخذ ہے جو ان مخصوص عوامل کا تعین کرتا ہے اور اپنے اندر رہنے والوں میں یہ عوامل منتقل کرتا ہے۔ یہ عوامل بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔
انفرادی عوامل جیسا کہ ذاتی پسند و ناپسندی، تعلیم،نوکری اور کاروبار وغیرہ۔
اجتماعی عوامل جیسا کہ مذہب، غیرت و ہمیت،قانون( علاقائی،صوبائی و ملکی بنیاد پر) وغیرہ۔

انفرادی اور اجتماعی عوامل مل کر انسانی کردار بناتے ہیں۔ایک آسان مثال سے واضح کرتا چلوں کہ ہمارے معاشرے میں غیرت وہ پیمانہ ہے جس کی بنا پر عموماً قتل ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ہیرا منڈی میں پیدا ہونے والے کڑیل جوان اس رمز سے نہ صرف نا آشناہوتے ہیں بلکہ یہ ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح یورپ امریکہ اور مشرق بعید(تھائی لینڈ وغیرہ) اخلاقی اقدار کے پیمانے الگ الگ ہیں۔

پس رہن سہن اور ماحول(بڑے پیمانے پر معاشرہ)انسان کی پیمانہ بندی کرتے ہیں۔ اجتماعی عوامل معاشرے اور انفرادی عوامل کی پیمانہ بندی بڑی حد تک انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ہم اپنے عنوان پر واپس آتے ہیں۔۔
قارئین کرام اطمینان و سکون انفرادی عمل میں آتا ہے۔انفرادی عمل کو ہم معمولی کوشش سے سدھار سکتے ہیں۔ ہم اپنی شخصیت میں اسکی پیمانہ بندی کر سکتے ہیں۔

یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔اپنے ذمہ کے امور نپٹا کر اطمینان کیوں ہو جاتا ہے؟ اس لیے کہ ہم نے یہ پیمانہ خود بنا لیا ہے ۔ ہم نے ذہن میں جو گراف مرتب کیا ہے۔ اسکو متعلقہ کام کی تکمیل پر پیمانہ بند کر لیا ۔کام مکمل ہو گیا تو اطمینان، نامکمل رہ گیا تو بے چینی۔۔۔۔
اطمینان کا تعلق آپکی سوچ سے ہے، وہ سوچ جس کو آپ نے خود مرتب کرنا ہے۔ مثلاً آج صبح آپ نے سوچا کہ کسی ایک مستحق کو سو روپے دینے ہیں۔

وہ آپ کو راستے میں مل گیا۔آپ نے اسکو وہ رقم دے دی تو آپ مطمئن ہو جائیں گے۔ نہ ملا تو بے چینی رہے گی تا وقتیکہ یہ ذمہ داری پوری نہیں ہو جاتی جو آپ نے اپنے اوپر خود لگائی ہے۔ اسی طرح رات کو ہم اگلے دن کے بارے میں سوچتے ہیں تو کئی ایک کام کرنے کا تہیہ کرتے ہیں۔وہ سب نہیں ہو پاتے تو پریشانی اور بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے۔ ردعمل کے طور پر لوگ غصہ کرتے ہیں، ناراض ہوتے ہیں اور اپنے سے جڑے دوسرے لوگوں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔

اگر آپ اپنے حالات کے مطابق تھوڑی سوچ بچار کر کے اپنے آنے والے دن کی منصوبہ بندی کر لیں تو آپ کے نجی معاملات بہت بہتر ہو سکتے ہیں۔
قارئین کرام ۔اپنے اطمینان قلب کے عوامل ۔Parameters۔ مرتب کر لیجیے۔ان کا حجم چھوٹا رکھیں اور خود کو ان کے مطابق پیمانہ بند کر لیں ۔مثلااپنے کاموں کو حقیقت پسند اور محدود کر لیں۔خیالی پن کم کر دیں اور خود کو حقیقت پسند بنا لیں۔

چھوٹی خوشیوں پر بھرپور خوش ہوں۔ ایک بہت بڑی خوشی کے انتظار میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز نہ کریں۔خواہشوں کو محدود کر لیں۔ خواہشیں بہت بڑی اور تعداد زیادہ رکھیں گے تو کبھی مطمئن اور خوش نہیں ہونگے۔زندگی کو بہت زیادہ بکھیڑوں میں نہ ڈالیں۔ بے اطمینانی بڑھے گی۔کسی چیز کے حصول کے لیے اپنی مکمل کوشش کریں۔ نہ مل سکے تو ذہن پر ناکامی سوار نہ کرلیں۔

دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ ذہنی بے سکونی بڑھے گی۔دوسروں کی ذمہ داریاں بلا وجہ اپنے اوپر نہ ڈالیں۔اپنے اطراف رہنے والوں کو تنگ نہ کریں۔اپنی چادر کا بہت دھیان سے تعین کرلیں اور پھر اسی حساب سے پاوں پھیلائیں۔اپنے سے نیچے دیکھنے کی عادت بنائیں۔اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے رہیں۔
قارئین کرام ذہنی اطمینان کے لیے یہی وہ چندگراف ہیں جن پر اگر ہم اپنے ذہن کو پیمانہ بند کرلیں تو نہ صرف مطمئن رہ سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی باعث اطمینان ہو سکتے ہیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

itminan, be cheeni is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 April 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.