
جبری مشقت کے نام پرسسکتی انسانیت
بڑی بڑی کوٹھیاں‘ محلات کتنی ننھی‘ معصوم جانیں نگل گئیں غربت نے پردہ نہ اٹھنے دیاایک زمانہ تھا بچوں کو اونٹ کی دوڑ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ جان چلی جاتی تھی کسی کو پرواہ نہ ہوتی
جمعہ 2 مئی 2014
ایک زمانہ تھا بچوں کو اونٹ کی دوڑ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ جان چلی جاتی تھی کسی کو پرواہ نہ ہوتی ، اونٹ ریس جیت جاتا اور چیختا چلاتا معصوم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چپ ہوجاتا۔ 5سے 14سال کے 40ملین بچے ہیں جو ملک کے کسی نہ کسی کونے میں ”مشقت“ کرتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بچو(لڑکی ہو یا لڑکا) کے دکھ کلیجہ چیر دیتے ہیں۔ جنسی و جسمانی تشد‘ کام کی زیادتی‘ 24گھنٹے کی نوکری‘ نہ آرام نہ چھٹی یہ سب کچھ بھی اسی اسلام کے نام پربننے والے ملک میں روا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔ کیا ایسا ہوتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔۔۔ یہ غلامی ہے ، بانڈڈ لیبر ہے، اس مزدوری کا ایک بھیانک رخ یہ بھی ہے کہ بعض ااوقات ”جینے کا حق“ تک چھین لیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
اپریل 2014ء کا تازہ واقعہ سنئے سبزہ زار کے رہائشی اختر حسین کی 14سالہ بیٹی اقصیٰ ”زبیدہ پارک نواں کوٹ“ کے رہائشی حسن کے گھر ملازمہ تھی جسے مبینہ طور پر قیمتی سامان چوری ہونے پر مالک مکان اور اس کی بیوی نے پوچھ گچھ کی اور نہ ماننے پر اسے تشدد کے بعد مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی، وہ بری طرح جھلس گئی۔ ہسپتال داخل کرادیا گیا۔ لڑکی کا چہرہ اور جسم جل گیا ہے جبکہ سر کے بال بھی کاٹ دئیے گئے ہیں۔۔۔ مسلم لیگ(ن) کی ممبر صوبائی اسمبلی وکاکس کی جنرل سیکرٹری حنا پرویز بٹ کا کہنا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور بچوں کے تحفظ کیلئے بہت جلد قانون سازی کی جائیگی۔ خواتین پر تشدد روز بروز بڑھتا جارہا ہے جب تک ہم ان عناصر کو وہی سزا نہ دیں جو انہوں نے تشدد کیا ہو معاشرے سے اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ”کاکس“ نے تمام خاتون ایم پی ایز کو ان کے اپنے اپنے اضلاع میں فوکل پرسن نامزد کردیا ہے جو اپنے اضلاع میں خواتین کے ساتھ رپورٹ ہونے والے واقعات کا نوٹس لیں گی اور اس سلسلے میں انہیں پولیس کی مدد اور قانونی تحفظ کی فراہمی کیلئے کام کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں کامکرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے اور بہت جلد پنجاب اسمبلی میں انکی پروٹیکشن کا بل بھی پیش کرینگے تاکہ یہ باقاعدہ قانون بن جائے۔ سپارک سے وابستہ علی حمزہ کہتے ہیں کہ جبری مشقت ہو یا تیزاب پھینکنے کے واقعات، قانون تو ہے مگر عملدرآمد نہیں ہوتا اس حوالے سے آگہی مہم کی بھی سخت ضرورت ہے ، ملزمان فرار کرادیے جاتے ہیں اور غریب کا کیس داخل دفتر۔۔۔ کتنی ایسی اندوہناک کہانیاں ہیں جنہیں لفظوں کا لاس نہیں مل سکا۔ جنہیں کوئی زبان نشر نہیں کرسکی وار جنہیں قلم کی سیاہی نصیب نہ ہوئی۔۔۔ گھریلو ملازمین بالخصوص کم عمر بچوں اور بچیوں پر مظالم کی داستانیں ختم ہونے کو نہیں آرہیں۔ جس ملک کی پارلیمنٹ کے اراکین سے متعلق روح افسا خبریں‘ حیران کن انکشافات‘ غیر اخلاقی سرگرمیوں کے الزامات سامنے آئیں وہاں دوسروں کے گھروں میں برتن دھونے‘ جوٹھا کھانا کھانے‘ جوتے پالش کرنے‘ فرشوں کو چمکانے والیوں، بچے کو بہلانے والیوں اور گاڑیوں کو صاف کرنے والوں کی طرف کون توجہ دے گا۔۔۔ شاید کوئی نہیں۔ سی آر سی کے مطابق 2500ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور کم عمر بچوں اور بچیوں پر تشدد کے جنوری 2010ء سے 2013کے چھٹے مہینے تک 41کیس رپورٹ ہوئے اور ان میں سے اپنے مالکوں کے ناروا ظلم سے 18جان کی بازی ہار گئے۔ جن کے لواحقین آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ مگر کوئی جوابدہ نہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ایڈووکیٹ لیاقت بنوریکا کہنا ہے کہ مزدور کو وہ مزدوری بھی نہیں دی جاتی جو اس کا حق ہے۔ ہمارے پاس ایسے سینکڑوں کیسز آتے ہیں جنہیں فری لیگل ایڈ دی جاتی ہے۔ قانون کی عملداری کے بغیر حالات کا بدلنا ممکن نہیں، کم سے کم اجرت بھی نہیں دی جاتی۔۔۔ انسانیات بڑے بڑے محلات میں آج بھی سسک رہی ہے لیکن مداوا کرنے والا کوئی نہیں ۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے جبری مشقت کے خاتمے کیلئے صوبائی وزیر محنت و انسانی وسائل راجہ اشفاق سرور کی سربراہی میں 18رنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کی مشاورت اور تجاویز کی روشنی میں اقدامات کے ذریعے جبری مشقت کے شکار بھٹہ مزدوروں، دیگر تجارتی و صنعتی اداروں میں مزدوروں کو آزادی حاصل ہوسکے گی اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ عالمی لیبر کانفرنس بھی اس بار اپریل کے اواخر میں لاہور میں ہورہی ہے۔ پنجاب بھر میں جبری مشقت کے خاتمہ کیلئے جاری کوششوں کو مزید تیز کردیا گیا ہے، کمیٹی جبری مشقت خاتمہ کے ایکٹ 1992ء اور قوانین 1995ء کے تحت بانڈڈلیبر کے خاتمہ کیلئے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے گی۔ کمیٹی پنجاب بھر میں موجود 35لاکھ سے زائد بھٹہ مزدوروں سمیت دیگر شعبہ جات میں موجود تقریباََ ایک کروڑ پابند مزدوروں کو جبری مشقت سے نجات کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرے گی، کمیٹی عدالتوں کے ذریعے آزاد ہونے والے مزدوروں کی بحالی، قانون کی عملداری، ایکشن پلان سمیت جبری مشقت کے خاتمہ کیلئے قانون میں ترامیم اور اسے قابل عمل بنانے کے حوالے سے بھی کام کرے گی نیز جبری مشقت کے خاتمہ کے حوالے سے قائم کی گئی ڈسٹرکٹ ویجیلنس کمیٹیوں کی کارکردگی کو بھی باقاعدگی سے مانیٹر کیا جائے گا۔ مذکورہ کمیٹی جبری مشقت کے خاتمے کیلئے کام کرنے والے ملکی و غیر ملکی اداروں اور این جی اوز کے ساتھ ورکنگ پارٹنر شپ کو مزید مستحکم کرنے کیلئے قابل عمل تجاویز پیش کرے گی۔ حکومت پنجاب کا یہ نہایت خوش آئند اقدام جبری مشقت کے خاتمہ کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ کمیٹی کے اقدامات سے جبری مشقت کے شکار مزدوروں کے مسائل حل ہوں گے اور جلدی صوبہ بھر سے جبری مشقت کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ کیا اب بھی معاشی مسائل‘ غربت‘ تعلیم کے کم مواقع اور ریاست کے غیر ذہ دارانہ کردار کے باعث بچے اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اور عمر سے زیادہ مشقت کرنے، معصوم کلیاں بے رحم مالکوں کی ہوس کا شکار ہونے پر مجبور رہیں گی۔ جبری مشقت اور غلامی کی صدیوں قدیم ثقافت آج بھی زندہ ہے۔ غربت ہر سو پھیلی نظر آتی ہے۔ اگرچہ دنیا بھر کے غریبوں کی ایک تہائی آبادی بھارت میں مقیم ہے۔ مگر ملک عزیز میں بھی یہ تعداد کم نہیں۔۔۔ بھارت کے آدھے سے زیادہ شہری دو ڈالر سے سے بھی کم یومیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 1947ء میں انگریز سے آزادی حاصل کرنے سے قبل ایشیا میں صدیوں تک جبری مشقت اور غلامی کا راج رہا۔ تاہم آزادی کے بعد پاکستان میں جبری مشقت اور غلامی کی ہیت میں تبدیلی ضروری آئی لیکن آج بھی نہ صرف مرد، خواتین بلکہ بچے بھی کانوں، فیکٹریوں، کھیتوں اور بھٹہ خشت میں جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں، جہاں انکی زندگی مالک کے قرضے چکاتے چکاتے ختم ہوجاتی ہے لیکن قرضہ ختم نہیں ہوتا اور یہ قرضہ پھر اگلی نسل کو منتقل ہوجاتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
راوی کی کہانی
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
مزید عنوان
Jabri Mushaqat K Naam Per Sisasti Insaniat is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 May 2014 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.