جعلی پولیس مقابلہ

2 کانسٹیبلز کو سزائے موت ، عمرقیدکی سزا

بدھ 31 جنوری 2018

Jali Police Muqabla
احمد جمال نظامی:
جعلی پولیس مقابلے کوئی نئی بات نہیں، پولیس جب اپنی ظلم و بربریت کی انتہا کرتی ہے تو جعلی پولیس مقابلہ سامنے آتا ہے۔ ماضی قریب میں پولیس کے ایسے مظالم ہی درحقیقت صحافیوں کی اصل تحقیق کا ذریعہ قرار پاتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب جنرل ضیاء الحق نے ابھی پیپلزپارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کر کے مارشل لاء کا نفاذ نہیں کیا تھا۔

ہمارا معاشرہ ان دنوں ظلم و بربریت اور کسمپرسی کے حالات کا شکار تھا اور اس بناء پر پولیس گردی کے واقعات پر احتجاج اخبارات کی زینت بنتا اور سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا بھی حکومتی سطح سے پولیس کے ذریعے ہونے والے مظالم پر اپنی آواز بلند کیا کرتے تھے۔ ماضی کے کئی اخبارات کے حوالے سے کتب کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی کہ جعلی پولیس مقابلوں پر صحافی کیسے اور کس طرح تحقیق کر کے اس پر اپنی تحقیقی خبریں شائع کرتے رہے اور یہ وہ دور تھا جب سیاسی سے زیادہ کرائم رپورٹر کی اہمیت ہوا کرتی تھی اور اعلیٰ پولیس افسران بہت سارے ایسے صحافتی نام تھے جن کے تذکرے سے ہی کانپ جایا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

ہر دور میں ہمارے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں نے پولیس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے اور معاشرے کو پولیس سٹیٹ بنانے میں کبھی بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی تاہم یہ الگ بات ہے کہ پرویزمشرف دور سے شروع ہونے والے دہشت گرد حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کے بعد پولیس محض اعلیٰ شخصیات، حکومتی وزراء اور متمول حضرات کے سیکورٹی گارڈ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور پولیس محکمہ میں تفتیش کے نام پر، پٹرولنگ کے نام پر، کوئیک رسپانس کے نام پر غرضیکہ مختلف ناموں پر نئی نئی فورسز قائم کر دی گئی ہیں اور اس طرح سے ہمارا روایتی پولیسنگ کا نظام اس انداز میں معاشرے پر اپنا رعب اور بربریت قائم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے جس کی مثالیں ماضی میں ملا کرتی تھیں۔

لیکن بہرحال روایتی پولیس نظام سے بیزاری اور اس نظام کی مکمل طور پر ناکامی کے باوجود نئی فورسز اور جدید ٹیکنالوجی بھی عوام کو ثمرات منتقل کرنے میں ناکام ہے۔ سانحہ قصور اس کی زندہ مثال ہے کہ گرفتار ہونے والا ملزم اپنی داڑھی کٹوانے، جیکٹ پر لگے دو بٹن اور غائب ہونے کی وجہ سے روایتی پولیس ہتھکنڈوں کی بابت گرفتار ہوا لیکن آئی ٹی بورڈ کے تمام سوفٹ ویئر ناکام ہو گئے اور وہ کسی بھی طور پر ایسا کوئی الرٹ جاری نہیں کر سکے جس بناء پر ملزم گرفتار ہو سکتا۔

تاہم بات جعلی پولیس مقابلوں کی ہو رہی تھی۔ فیصل آباد میں بھی جعلی پولیس مقابلوں کی بازگشت سامنے آتی رہتی ہے۔ کراچی میں ان دنوں دو پولیس مقابلے نقیب اللہ مسعود اور انتظار حسین جیسے واقعات پولیس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں جبکہ فیصل آباد میں دو سال قبل جعلی پولیس مقابلے کے دوران فیصل آباد پولیس کی طرف سے ماڈل تھانہ قرار دیئے جانے والے تھانہ پیپلزکالونی کے ایس ایچ او نے کھلونا بندوق سے سیلفی بناتے ہوئے میٹرک کے دو طالب علموں پر بلاجواز اندھادھند فائرنگ کر دی تھی جس کے باعث مدینہ ٹاوٴن میں کھڑے ان دو بچوں میں سے ایک بچہ جاں بحق ہو گیا تھا۔

صرف چند ہفتے پہلے سال نو کے ابتدائی ایام میں ڈولفن فورس کے دو اہلکاروں کو ڈاکووٴں نے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔ یہ ڈاکو پولیس کی حراست میں آ گئے لیکن بعدازاں انہیں پولیس مقابلے میں پار کر دیا گیا اور اس طرح سے اس پولیس مقابلے پر بھی کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے۔ 2017ء کے دوران تھانہ فیکٹری ایریامیں ایک ایسے مبینہ پولیس مقابلے کی فوٹیج بھی سامنے آئی جس میں پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والا شخص فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکار یا افسر کی منت سماجت کر رہا ہے اور پولیس نے فائرنگ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

گویا فیصل آباد میں بھی جعلی پولیس مقابلوں کی ریت روایت خاصی پرانی ہے۔ گزشتہ روز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے ایک جعلی پولیس مقابلہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کانسٹیبل شیرا فضل کو سزائے موت، پانچ لاکھ روپے ہرجانہ کی سزا کا حکم سنایا جبکہ دوسرے پولیس کانسٹیبل زاہد کو عمرقید بامشقت اور پانچ لاکھ روپے ہرجانہ کی سزا کا حکم سنایا گیا۔

اس کیس میں ڈی ایس پی رانا شبیر بری ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن پولیس مقابلہ جعلی ثابت ہونے پر دو پولیس کانسٹیبلز کو سزائے موت اور عمرقید کی سزاوٴں کا حکم سنایا گیا ہے۔ یہ پولیس مقابلہ 2011ء میں تھانہ گلبرگ کے علاقے میں ہوا ، رضوان نامی شخص کو پولیس مقابلہ ظاہر کر کے قتل کر دیا گیا۔استغاثہ کے مطابق پولیس کانسٹیبلز شیرافضل اور رضوان نے جعلی پولیس مقابلہ کیا۔

اس پولیس مقابلے کی تفتیش کے دوران پولیس نے دونوں پولیس اہلکاروں کو بے گناہ قرار دے دیا تھا لیکن نجی استغاثہ میں عدالت نے ٹرائل مکمل کیا۔ عدالت کی طرف سے جوڈیشل انکوائری رپورٹ تیار کی گئی جو ان پولیس اہلکاروں کے خلاف آئی جس پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے دونوں پولیس کانسٹیبلز کو سزا سنائی ہے۔ عدالت نے اقدام قتل کی دفعات کے تحت دونوں ملزمان کو دس دس سال قیدبامشقت اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا بھی حکم سنایا ہے۔

عدالت نے جائے وقوعہ پر موجود اس وقت انسپکٹر رانا شبیر جو اب ڈی ایس پی کے عہدے پر پروموٹ ہو چکے ہیں ان کو عدم شواہد پر بری کر دیا ہے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے دو پولیس کانسٹیبلز کو جعلی پولیس مقابلے میں ایک بے گناہ شہری کو موت کے گھاٹ اتارنے پر سزا کا حکم سنایا گیا ہے جس سے یہ بات اظہرمن الشمس ہوتی ہے کہ آج بھی جعلی پولیس مقابلے جاری ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق محکمہ پولیس میں بہت سارے ایسے لوگ اہلکاروں اور افسروں کی صفوں میں موجود ہیں جو ذاتی دشمنی کے لئے بھی پولیس میں ہونے کے باوجود گینگسٹرز کا کردار ادا کرتے ہیں اور اس طرح سے کئی جعلی پولیس مقابلے سجا کرمبینہ طور پر محض چند روپوں کے لئے بے گناہوں کو مبینہ طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ پولیس مقابلے ہر دور میں ہوتے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔

سال نو کا پہلا پولیس مقابلہ جس میں ڈولفن فورس کے دو اہلکار زخمی ہوئے اس پر بھی کئی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماورائے عدالت قتل معاشرے میں سدھار برپا کر سکتا ہے، کیا جرائم پیشہ افراد کو محض چند گولیوں سے بھون کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، اس طرح سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور کیا ماورائے عدالت قتل سے جرائم پیشہ افراد کی صفوں میں پولیس کا رعب و دبدبہ قائم ہو سکتا ہے اس کا جواب سچ پوچھیں تو یہ ہے کہ بالکل بھی نہیں کیونکہ کسی بھی تھانے یا چوکی کی حدود میں زیادہ تر جرائم پولیس کی اپنی ناک کے نیچے ہوتے ہیں۔

مبینہ طور پر جواء خانوں سے لے کرمنشیات فروشوں کے اڈوں تک سے منتھلی وصول کی جاتی ہے اور یہی وہ ٹھکانے ہوتے ہیں جہاں جرائم پیشہ افراد پرورش پاتے ہیں اور پھر جگہ جگہ شہریوں کو لوٹتے ہیں اور معمولی سی مزاحمت پر اپنی اندھی گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ تک اتار دیا جاتا ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں کے سدباب کے لئے ہماری پولیس کے لئے ماہرین نفسیات سے خصوصی سیشن کروانے اور ان کی ازسرنو تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری پولیس اپنی تفتیش سے لے کر عدالتوں میں چالان اور استغاثہ جمع کرانے تک کے معاملات بہتر کر لے تو شاید کوئی ملزم کٹہرا عدالت سے مجرم ثابت ہوئے بغیر باہر نہیں نکل سکتا اور جب ایسا ہونے لگے تو پھر جعلی پولیس مقابلوں کا مقصد کیا رہے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jali Police Muqabla is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.