اردن میں شمسی توانائی سے20 ہزار افراد پر مشتمل شامی پناہ گزین کیمپ روشن

جی سیون پناہ گزین بچوں کو تحفظ فراہم کرے،یونیسیف، شمسی پلانٹ کی تعمیر سے 50 پناہ گزینوں کو روزگار بھی مل گیا‘ اقوام متحدہ

جمعہ 16 جون 2017

Jordan Main Shamsi Tawanai Se 20 Hazar Afrad Par Mushtamil Shami Panah Guzeen
رمضان اصغر:
اردن میں شمسی توانائی رات کے وقت روشنی فراہم کر رہی ہے اور 20 ہزار شامی پناہ گزینوں کے لئے ایک ایسے کیمپ میں زندگی گذارنا آسان بنارہی ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے تک بجلی موجود نہیں تھی۔اردن میں شامی پناہ گزینوں کا دوسرا سب سے بڑا کیمپ ہے۔دو سال سے زیادہ عرصہ پہلے جب اُسے کھولا گیا تھا تو اس کیمپ میں رہنے والوں کو بجلی کی سہولت میسر نہیں تھی۔

لیکن حال میں ہی آنیکیا فاؤنڈیشن کی مالی مدد سے لگائے جانے والے شمسی توانائی کے پلانٹ سے صورت حال نمایاں طور پر تبدیل ہو جائے گی۔پناہ گزینون کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کی ڈپٹی ہائی کمشنر کیلی کلمنٹر کہتی ہیں کہ شمسی توانائی کا پلانٹ اس کیمپ کے پناہ گزینوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے پاس بجلی حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔

(جاری ہے)

اس کا مطلب ہے حفاظت کے لیے روشنی اور موسم گرما کے کسی گرم دن ایک پنکھے کی شکل میں ٹھنڈی ہوا،یا سردیوں کے مہینوں میں ضرورت کے وقت کچھ حرارت۔شمسی پلانٹ لگنے کے بعد بجلی آجانے سے اب بچے ٹی وی بھی دیکھ سکتے ہیں ۔اس شمشی پلانٹ کی تعمیر سے 50 کے لگ بھی پناہ گزینوں کو کام کرنے کے موقع فراہم ہوئے ہیں۔انہیں شمسی پینلز بنانے کی تربیت اور ملازمت دی گئی ہے ا ب ان کے پاس پلانٹ کو چلانے اور درست حالت میں رکھنے کی مہارتیں موجود ہیں۔


یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے اس سال شمالی افریقہ سے اٹلی جانے والے بحیرہ روم کے راستوں پر کم از کم 2سو پناہ گزین بچے ہلاک ہوئے جن کی اکثریت کا تعلق سب صحارا افریقہ سے تھا۔
2017 کے شروع کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد یورپ پہنچنے کے لیے وسطی بحیرہ روم کے خطرناک راستے استعمال کر رہی ہے۔

یونیسیف کے مطابق 45 ہزار سے زیادہ لوگ،جن میں کسی سرپرست کے بغیر تنہا سفر کرنے والے لگ بھگ ساڑھے پانچ ہزار بچے شامل ہیں۔سمندری راستے سے اٹلی پہنچ چکے ہیں یہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ تعداد ہے۔
سسلی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے یونیسیف کے ڈپٹی ڈائریکٹر جسٹن فورسیتھ نے کہا کہ اٹلی پہنچنے کے دوران بہت سے بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔

اور ہر روز فی الواقع ایک سے زیادہ بچے لقمہ اجل بن رہے ہیں اور جو وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،وہ سفر سے قبل اور دوران فاقوں،مار پیٹ اور غلاموں جیسی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔جسٹن کہتا ہے اطالوی بندر گاہ لمیٹید و سا پر پہنچنے والے جن تنہا بچوں نے کسی ڈاکٹر سے بات کی انہوں نے ان بچوں کو کشتیوں پر لانے والے انسانی اسمگلروں کی خوفناک تصویر پیش کی۔

یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 2008 اور 2016 کے درمیان یورپ میں پناہ کی تلاش میں آنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد ہر پانچ میں سے ایک کی شرح کے مقابلے میں بڑھ کر ہر تین میں سے ایک ہوگئی ۔زیادہ ترپناہ گزین اریڑیریا،گمبیا،نائجیریا،مصر اور گنی سے آتے ہیں۔
جسٹن کہتا ہے کہ اگر راہنماؤں کے درمیان تارکین وطن اور ہناہ گزینوں کے بڑے پیمانے کے بحران پر کوئی اتفاق نہ ہوسکا تو یہ بھی توقع ہے کہ وہ ان بچوں کی مدد کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے پر ضرور متفق ہوجائیں گے کیونکہ اس مسئلے کا سب سے زیادہ کمزور اور بے یارو مددگار حصہ ہیں۔

یونیسیف کیمل درآمد سے متعلق چھ نکاتی ایجنڈے میں پناہ گزین اور تارکین وطن بچوں کو زیادتی اور تشدد سے تحفظ دینے،ان کی حراست کے خاتمے اور خاندانوں کو اکھٹارکھنے کی اپیل شامل ہے۔27 اپریل2017ء کے دن جرمن پولیس کو ایک ایسے کیس کا سامنا کرنا پڑاجو اپنی نوعیت کا ایک منفرد کیس تھا۔اس کیس کا اہم کردار جرمن آرمی کا ایک 28 سالہ آفیسر،لیفٹیننٹ فرانکواے تھا۔

یہ نوجوان ایک ایسے دہشت گرد حملے کی تیاری کرتے ہوئے پکڑا گیا جس میں اسے شامی ٹرک ڈرائیور بن کر جرمن ہجوم پر چڑھائی کرناتھی،اس سلسلے میں وہ پہلے ہی ایک شامی پناہ گزین کا بھیس اپنائے ہوئے تھا۔تاکہ حملے کا موردالزم شامی پناہ گزین کو ٹھہرایا جائے۔وہ ایک کی بجائے دو شہروں میں ایک شامی پناہ گزین کے فرضی نام سے رجسٹرڈ تھا۔یہ دو طرح کی رجسٹریشن جرمنی کے صوبہ ہیسے اور صوبہ باویریا میں حاصل کر رکھی تھی۔

اسے باویریا کے قصبے میلبرگ میں گرفتار کیا گیا تھا۔فرانکواس سے پہلے سیکیورٹیز کی نظر میں اس وقت آیا تھا جب آسٹرین پولیس نے اسے ویانا ائیرپورٹ کے ایک ٹوائلٹ میں اسلحہ چھپاتے ہوئے گرفتار کیا۔لیکن اس وقت تحقیقات کے بعد اسے آزاد کر دیا گیاتھا۔اس کے اس سارے منصوبے میں اس کا ایک شریک 24 سالہ طالبعلم بھی تھا جو اس کے ہی قصبے سے تعلق رکھتا تھا۔

اس سارے کیس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ یہ واقعہ کسی عالمی سازش کا حصہ تھا۔جسے ڈرامائی طور پر اسی واقعے کا تسلسل قرار دلوانے کی تیاری تھی،چوبرلن میں کرسمس کی تقریبات کے دوران ایک تیونسی شخص کے ہجوم پر ٹرک چڑھا دینے سے پیش آیا،جس میں 12 افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو فرانکو کی گرفتاری اور اس کے رچائے اس سارے منصوبے کے منظر عام پر آنا نا ممکن ہوتا۔

خود جرمن پولیس ایجنسیاں سرجوڑے اس واقعے کے تناظر میں یہ جانچنے کی کوشش میں تھیں کہ ایک سفید فام جرمن نسل شخص جسے عربی تک بولنی نہیں آتی وہ کیسے پناہ گزینوں میں اپنا نام شامل کروا پایا۔اور کس طرح وہ فرانس میں اپنی فوجی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے جرمنی کے مہاجر کیمپ میں اپنی حاضری ممکن بناتا رہا۔اس کے بعد جرمنی نے ملک میں موجود رتمام تارکین وطن لوگوں کی شناخت،قومیت اور دیگر معلومات کی ازسر نو تحقیقات کا نظام استوار کیا۔

اگر یہ کوئی عالمی سازش ہوتی تو اس قدر کمزور نہ ہوتی اسی لئے اسے ایک دوسرے تناظر میں پرکھنے کی رائے زیادہ مضبوط ہے اور وہ ہے تارکین وطن اور پناہ گزینوں سے مقامی نفرت کا عنصر۔اس میں زیادہ شواہد جرمنی میں پائی جانے والی غیر ملکیوں سے نفرت کے احساسات اور جذبات ہیں۔
اقوام متحدہ کے”ادارہ برائے پناہ گزیناں“ کے مطابق دنیا میں رونما ہونے والی حالیہ جنگوں اور تنازعات کے نتیجے میں گزشتہ کچھ عرصے سے بے گھر افراد کی تعداد چھ کرو ڑ53 لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔

ایک سال کے اندر 50 لاکھ افراد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ہر 113 میں سے ایک آدمی بے گھر ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نقل مکانی کا یہ سب سے بڑا سیلاب ہے جسے سمیٹنے میں دنیا ناکام ہے۔54فیصد پناہ گزینوں کا تعلق محض تین ممالک شام،افغانستان،صومالیہ سے ہے۔اکثریت کا رجحان یورپ کی طرف نقل مقانی کا ہی رہا لیکن ان میں سے زیادہ تر کی پسندیدہ منزل جرمنی تھا۔

جس کی ایک بڑی وجہ اس کی چانسلر انجیلا مرکل کا پناہ گزینوں کے لئے مشفقانہ رویہ بنا۔جس نے اپنے ملک میں پناہ گزینوں کو گرمجوشی سے خوش آمدید کہا ۔عین اس وقت جب دیگر یورپ ممالک نے اپنے ملکوں کی مہاجرین کی آمد کے خوف سے سرحدیں تک سیل کردیں۔
جرمنی میں آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 2015ء تک تقریباََ چار لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔یہ پناہ گزین شام،افغانستان،سربیا اور کوسود سے آئے۔

جن کا زیادہ بہاؤ مشرقی جرمنی کی طرف دیکھنے میں آیا۔
مشرقی جرمنی جرمنی کا وہ حصہ ہے جو کئی سالوں بعد مشرقی اور مغربی جرمنی کی باہمی دیوار کے خاتمے کے بعد بھی محرومیوں کا شکار رہا۔
انہیں یہ شدید قسم کا احساس ہے کہ انہیں برابر کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔یہاں بے روزگاری بے دوسرے حصے کی نسبت زیادہ ہے۔
اس احساس محرومی کے ہوتے ہوئے جب ان پر مہاجرین کے ایک ناقابل براداشت بوجھ درایا تو ان کے جذبات مہاجرین کے لئے بہتر نہ ہوسکے۔

یہی وجہ ہے کہ پناہ گزینوں کے خلاف متشدد واقعات میں اس حصے کے نوجوانوں کا خاص کردار رہا۔
یہاں تک کہ ایسے نوجوان بھی ایسے واقعات میں ملوث پائے گئے جن کا رویہ کبھی بھی عام زندگی میں متشدد نہ رہا تھا۔
پناہ گزینوں سے نفرت، جنسی تشدد،قتل وغارت گری اور نسلی تعصب جیسے سنگین جرائم میں جب 14 ممالک کا موازنہ کیا جائے تو جرمنی اس میں سرفہرست پایا گیا۔


ایمنسٹی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں پناہ گزینوں پر تقریباََ ایک ہزار 31 واقعات ہوچکے ہیں۔جن میں ایک ہزارحملے ان کے کیمپوں پر کئے گئے۔کیونکہ ان مہاجرین کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تو ان حملوں کے پیچھے اسلام مخالف تحریکی عناصر کی سرگرمیوں کو خازج اززمکان نہیں کہا جا سکتا۔
ایک نقطہ نظریہ بھی سامنے آیا ہے کہ مقامی جرمنوں کو ان مسلمانوں کے کلچر سے بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔

اس کے خدشات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ شامی مسلمان چونکہ اپنے اسلامی کلچر کے بہت پابند ہیں اس لئے مقامی جرمن نوجوان اس سے اثر قبول کر سکتے ہیں۔خصوصاََ خواتین کے حجاب کو اکثر جرمن خواتین پسندید گی کی نظر سے دیکھنے لگی ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی وہ اپنے تحفظات کا اظہار مسلمانوں کے متعلق شدید نفرت آمیز تبصروں سے کرتے ہیں۔
ایسے ہی منفی خیالات کی شیئرنگ کو دیکھتے ہوئے خودفیس بک نے بھی ان تبصروں اور پوسٹوں پر پابندی لگانا ضروری سمجھا۔


ایک طرف مغربی دنیا کو وقت کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی کا سمنا ہونے لگا ہے اور دوسری طرف معاشی طور پر کمزور ممالک میں بد امنی،خانہ جنگی اور جنگ کی صورتحال بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
لاکھوں لوگ بھوک،بے روزگاری،اور جنگ سے جان بچاتے ہوئے یورپ ممالک کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فلاحی اداروں نے اگر ان بے گھر لوگوں کی آباد کاری اور انہیں سہولیات زندگی کی فراہمی ممکن نہ بنائی تو ان میں تناؤ ،دباؤ،او ر محرومی و مایوسی کی بڑھتین کیفیت نا صرف انہیں دہشت گردی کی بھٹی میں جھونک سکتی ہے۔

بلکہ دوسری طرف مقامی آبادی کے دل میں ان کے لئے بڑھتی ہوئی نفرت انہیں کسی بڑے باہمی تصادم کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔کیونکہ اگر ایک طرف ان پناہ گزینوں کو بوجھ سمجھ کر قابل نفرت ٹھہرایا کا رہا ہے تو دوسری طرف خود ان بکھرئے ہوئے اور ٹوٹے ہوئے لوگوں میں بھی یہ احساس شدت سے جاگزیں ہے کہ ان کی اس دگرگوں حالت کے اسباب میں کہیں نہ کہیں مغرب کی خود اپنے مفادات کو دوام بخشنے کے لئے اپنائی گئی غلط پالیسیوں کا بھی ہاتھ ہے۔سو اس عدم اعتماد اور رنجشوں کی فضا کی سوگواری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ مسلم کش پالیسیاں بھی جلتی پر تیل پھینکنے کاکام کرسکتی ہیں۔لہٰذا ان نفرتوں کو بڑھاوا دینے کی بجائے انہیں ختم کرنا بہت ضروری ہے۔یہی اقدام عالم انسانی کے بہترین مفاد میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Jordan Main Shamsi Tawanai Se 20 Hazar Afrad Par Mushtamil Shami Panah Guzeen is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 June 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.