خواجہ سرا ”انسانیت اب بھی زندہ ہے“

ان کے والدین تو بچپن سے ہی ان کے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ان کو گھر سے بے دخل کرکے در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔پھر بھلا یہ قسمت کے مارے کس طرح ہماری نارمل اولاد کے ساتھ ایک درس گاہ میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرسکتے ہیں

ڈاکٹر راحت جبین منگل 5 مئی 2020

khawaja sara `insaniyat abhi zinda hai`
فیس بک پر ایک ہفتے میں ایک ہی موضوع پر دو پوسٹیں نظر سے گزریں۔پہلی پوسٹ میں ذکر تھا ایک ایسے والد کا، جس نے اپنے بچے کو صرف اور صرف اس لیے گھر سے نکال دیا کہ اس نے چپکے چپکے میک اپ کرنا شروع کردیا تھا۔ کیا میک اپ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے کوئی بھی شخص اپنی سگی اولاد کو ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش سے جدا کردے۔ 
دراصل اس معصوم بچے کا گناہ خواجہ سرا ہونا ہے، جس کی وجہ سے یہ دھتکارا گیا اور گھر سے بے گھرکیا گیا۔

جن کی ہمارے اس نام نہاد عزت دار معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی زندگی کی خوشیوں پر ان کا کوئی حق ہے۔قومی سطح پر بھی یہ جنس اہمیت کی حامل نہیں۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ان کے لیے کوئی مخصوص کوٹہ مقرر نہیں ہے۔ کچھ سال پہلے تو یہ شناختی کارڈ بنانے کے حق سے بھی محروم تھے کیونکہ اگر شناختی کارڈ بناتے بھی تو کس جنس سے۔

(جاری ہے)

اپنے حقیقی رشتوں کے دھتکارے ہوئے ان مجبور اور بے بس لوگوں کے لیے شناختی کارڈ میں جنس کا کوئی خانہ ہی موجود نہیں تھا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ اس معاشرے کا رکن ہونے کے باوجود تعلیم کے دروازے بھی ان پر بند ہیں۔تعلیم پر ان کا اس لیے بھی کوئی حق نہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی ادارے ماں باپ کا نام پوچھ کر تعلیم دیتے ہیں۔ ان کے والدین تو بچپن سے ہی ان کے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ان کو گھر سے بے دخل کرکے در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔پھر بھلا یہ قسمت کے مارے کس طرح ہماری نارمل اولاد کے ساتھ ایک درس گاہ میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔

 ہم بچپن سے ہی یہ سنتے آئے تھے کہ گھر میں ایسا بچہ پیدا ہونے کی صورت میں خواجہ سرا اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اب جاکے معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی خوشی سے اپنی اولاد ان کے حوالے کرتے ہیں اور پھر پلٹ کر بھی نہیں پوچھتے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنی مرضی اور پسند سے خواجہ سرا بنتے ہیں جو دھتکارے جاتے ہیں۔ گھر میں کسی کا بیٹا چوری، قتل یا کوئی اور غلط کام کرتا ہے تو بجائے اس کی اصلاح کے لیے اسے سزا دلوائی جائے،اسے گھر میں چھپا کر رکھا جاتا ہے تاکہ پولیس اسے نہ لے جائے اور اسے تکلیفوں کاسامنا نہ کرنا پڑے مگر خواجہ سراؤں کے لیے ہمارہ رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔

ایسے معصوم بچوں کو جب انہیں ماں باپ کے سہارے کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہ اسے خود سے ہمیشہ کے لیے جدا کرکے زمانے کی ٹھوکروں کے حوالے کرتے ہیں۔حالانکہ قاتل اور چوری کرنے والے بچے کا اپنا قصور ہوتا ہے مگر خواجہ سرا کا اپنا قصور بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے دو رخی معاشرے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب بھی ہمارے ہاں کوئی دماغی یا جسمانی معذور بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے کلیجے سے لگا کر رکھا جاتا ہے مگر وہیں المیہ یہ بھی ہے کہ خواجہ سراؤں کو گھر سے بے گھر کرتے وقت والدین کی محبت کھو جاتی ہے۔

وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ بھی اللہ کے پیدا کیے ہوئے بندے ہیں،جس نے باقیوں کو پیدا کیا ہے۔ ان کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں والدین کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے کیونکہ وہ معاشرے کے ڈر سے ان کی زندگی خراب کرنے کے مجرم بن جاتے ہیں۔ اسی لیے ان کی بربادی کی ذمہ داری پہلے والدین پر اور پھر معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔ اس معاملے میں والدین براہ راست خدا سے اور اس کی تقسیم سے جنگ کرتے ہیں کیونکہ اولاد دینے والی ذات صرف اور صرف خدا کی ہے۔

وہ جسے چاہے لڑکی دے یا لڑکا دے،جسے چاہے اس کے گھر خواجہ سرا یا پھر جسمانی اور ذہنی معذور پیدا کرے اور جسے چاہے بے اولاد رکھے۔ کسی بھی گھر میں بچہ پیدا ہونے کا یہ مطلب برگز نہیں کہ وہ اس بچے کے مالک حقیقی ہیں۔ اولاد اللہ کی طرف سے والدین پر ایک اہم ذمہ داری ہے۔ تاکہ وہ اسے پڑھا لکھا کر اور بہترین تربیت کرکے معاشرے کا ایک کارآمد شہری بناسکیں۔

جب یہی ذمہ داری ایک معذور بچے کی شکل میں دی جاتی ہے تو والدین اس بچے کو محبت اور پوری توجہ دیتے ہیں اور اسے زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر رکھتے ہیں۔مگر خواجہ سرا پیدا ہونے کی صورت میں اس کے حکم سے سرکوبی کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ ذمہ داری ہونے کے ساتھ ایک آزمائش بھی ہیں۔ جس طرح باقی اولاد کے حقوق کی بابت ہم سے پوچھ گچھ ہوگی اسی طرح ہم سیان کے باربے میں، ان کی تربیت کے بارے میں، ان کے حقوق کے بارے میں سوال جواب ہونگے۔

مگر ہم اپنی ذمہ داری سے صرف اس وجہ سے منہ چراتے ہیں کہ یہ بچے ہماری بے عزتی کا باعث ہیں۔ اللہ کے قہر سیڈرے بغیر کہ کل اس کی بارگاہ میں اس معصوم کے حوالے سے کیا منہ لے کر جائیں گے۔
 حیرت کی بات یہ ہے ہم کہ بدنامی کے خوف سے گناہ نہیں چھوڑتے، جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتے،چوری کرنا نہیں چھوڑتے مگر ایسے بچوں کو بدنامی کے خوف سے بے یاروں مددگار چھوڑتے ہیں۔

گھر سے نکالے جانے کے بعد یہ دربدرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ کیوں نہ کھائیں جب سگوں نے بدنامی کیڈر سے نہیں رکھا باقی کیوں پناہ دیں گے۔ ہر جگہ سے مایوس ہوکر اور دھتکارے جانے کے بعد آخر کار وہ برائیوں کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور معاشرہ کی نگاہوں میں صرف اور صرف گناہ گار تصور کیے جاتے ہیں۔گناہ بھی کونسا؟صرف خواجہ سرا ہونے کا۔

حالانکہ اصل گناہ گار تو وہ ہیں جو ان کو اس نہج تک پہنچنے کا سبب ہوتے ہیں۔
 اپنی ذمہ داری سمجھ کر ہی انہیں باعزت مقام دلایا جا سکتا ہے۔ جو ان کا اولین حق ہے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ ان کے لیے تعلیم کے دروازے کھول کر انہیں ترقی کے دھارے میں شامل کرے اور تعلیمی وظائف اور نوکریوں کوٹہ مقرر کرے۔ تب ہی یہ لوگ معاشرے کی بھاگ دوڑ میں اپنا کردار بخوبی ادا کرسکیں گے۔

جیسا کہ شروع میں،میں نے دو پوسٹوں کا ذکر کیا تھا۔ پہلی پوسٹ میں زمانے کا ایک بدنما چہرہ دکھائی دیا مگر دوسری پوسٹ ایک مثبت رویے کی جانب نشاندہی کرتی ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے۔ یہ وزیرستان کے بارے میں ہے جہاں خواجہ سرا کو باقی بچوں کی طرح پوری عزت اور احترام کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ان کے حقوق کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں گذشتہ مردم شماری میں وزیرستان سے تین خواجہ سرا رجسٹر بھی ہوئے ہیں۔ اسی مثبت تبدیلی اور رویے کی ضرورت پوری قوم کو ہے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

khawaja sara `insaniyat abhi zinda hai` is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 May 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.