کیا آئندہ الیکشن وقت پر ہوں گے ؟

پکے ہوئے پھل کھانے کا وقت آن پہنچا موجودہ حکومت کارکردگی سے عاری ہوتی تو بروقت الیکشن کا انعقعاد مشتبہ ہونے کا خدشہ نہ ہوتا

جمعرات 12 اپریل 2018

kya aindah election waqt par hon ge
عنبرین فاطمہ
 کیا آئندہ الیکشن وقت پر ہوں گے ؟کیا جمہوری نظام آئین کے تحت چلتا رہے گا یا پھر کوئی بالو اسطہ یا بلا واسطہ مداخلت ہو گی؟ کیا پانامہ کیس میں کرپشن کے کسی ثبوت کے بغیر ہی پاکستان کی مقبول سیاسی قیادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ کہیں مقبول سیاسی قیادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی اور راستہ تو نہیں اپنایا جائے گا، جیسا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آجکل ہر محفل میں زیربحث ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مشرف حکومت ختم ہو رہی تھی تو ملک میں دہشت گردی کا راج تھا، بری گورنس، غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے بجلی کے نئے منصوبے شروع نہ کیے گئے، حالانکہ جس دن مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اس دن ملک میں بجلی ضرورت سے زیادہ تھی، انرجی سیکٹر ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے، مگر مشرف کے اقتدار کے خاتمے پر بد ترین لوڈ شیڈنگ اور گیس کی بدترین کمی کی صورتحال نے ملکی معیشت کو بد حال کر دیا۔

پی پی پی حکومت کے دوران گورنس کی کیا صورحال تھی سب جانتے ہیں، لوڈ شیڈنگ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے تک پہنچ گئی، صنعتوں کیلئے گیس نہ ہونے کے برابر تھی، دہشت گردی اور کراچی کی صورتحال کی وجہ سے کوئی پاکستان آنے کو تیار نہ تھا، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اس بد ترین صورتحال کے باوجو د2013 میں کوئی شخص بھی یہ سوال نہیں کر رہا تھا کہ آیا الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں۔

نواز شریف حکومت کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ اس دور حکومت میں بہت بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے، ملک میں قدرتی گیس امپورٹ کر کے لائی گئی، بجلی کے بڑے بڑے منصوبے نہ صرف شروع کیے گئے بلکہ بہت سے مکمل بھی ہو گئے ( یقینا منصوبے مکمل ہونے کے بعدبجلی سستی بھی ہو جائے گی) ملکی معیشت کو دوبارا ٹریک پر لایا گیا، انفراسٹکچر کے بڑے منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں، پورے پاکستان کو ایک ہی موٹر وے سے ملانے کے نواز شریف کے منصوبے کے تحت زیادہ تر موٹرویز مکمل ہو چکی ہیں، اور باقی ماندہ آئندہ دو سے تین سال میں مکمل ہو جائیں گی اور پاکستان ایک موٹروے سے جڑ جائے گا۔

تمام بڑے اور قابل اعتماد بین الاقوامی معاشی اداروں نے پاکستان میں معاشی بہتری کی نشاندہی بھی کی، موجودہ دور حکومت شروع ہوتے ہی نواز شریف کی زیر قیادت حکومت نے ملک کے معاشی دارلحکومت کراچی کے امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کیا اور کراچی میں دہائیوں سے موجود چند قوتوں کے گٹھ جوڑ کو توڑا اور آپریشن شروع کروایا جس نے چند ماہ میں ہی نتائج دئیے۔

دہشت گردی کے خلاف بھی ہر طرح کے اقدامات اٹھائے گئے اور اس حوالے سے آئینی ترامیم تک کیں گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پی ایس ایل جیسے ایونٹ کے میچز ہی نہیں بین الاقوامی ٹیمیں بھی پاکستان آ رہی ہیں، اور موجودہ صورتحال کہ "الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں" شاید اسی وجہ سے ہے کہ اب بہت کچھ ٹھیک ہو چکا ہے یا پھر ٹھیک ہو رہا ہے اور پکے ہوئے پھل کھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔

 
2016 میں پانامہ پیپرز رپورٹ ہوئے، جو کہ ان لوگوں کی تفصیلات تھیں جنہوں نے آف شور کمپنیاں بنائیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے بڑے بزنس مین اور حکومتی عہدے دار ٹیکس چوری یا کرپشن کا پیسہ ملک سے باہر منتقل کرتے ہیں اور یہ ناجائز دولت آف شور کمپنیوں کے اکائونٹس میں رکھی جاتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سمندر پار رہنے والے شہریوں کو یورپ کے بہت سے ممالک میں جائز ذرائع سے کمائی گئی دولت کے ذریعے بھی جائیداد خریدتے وقت اپنی جائیداد اور ٹیکس مینجمنٹ کیلئے آف شور کمپنی بنانی پڑتی ہے اور زیادہ تر کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

جس طرح کہ عمران خان نے بھی اپنا لندن فلیٹ خریدتے وقت نیازی سروسز لمیٹڈ کے نام سے ایک آف شور کمپنی بنائی۔ آئی سی آئی جے وہ ادارہ ہے جس نے پانامہ پیپرز رپورٹ کیے اس نے بھی اپنی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا کہ آف شور کمپنی بنانے کا مطلب ضروری طور پر یہ نہیں ہوتا کہ دولت ناجائز ذرائع سے کمائی گئی ہے، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا جن اشخاص نے آف شور کمپنیاں بنائیں کیا انہوں نے دولت بھی نا جائز ذرائع سے کمائی۔

پاکستان سے تقریبا 500 افراد کا نام پانامہ پیپرز میں آیا، سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام پانامہ پیپرز میں تھا ہی نہیں، لندن کے فلیٹس کو لیکر ان کے بچو ںکا نام تھا مگر ہدف ہمیشہ کی طرح وقت کے وزیر اعظم کو ہی بنایا جانا تھا تا کہ مقبول سیاسی قیادت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے ہی ہنگاموں اور دھرنوں کے ذریعے حکومت گرانے کی سازشوں کا آغاز ہو گیا، کبھی کوئی جواز تراشا گیا کبھی کوئی، پھر پانامہ کا بہا نہ مل گیا، کرپشن کا کوئی ثبوت تو دور کی بات، سرے سے کرپشن کا کوئی الزام ہی نہیں، لندن فلیٹس کے حوالے سے شریف فیملی کا موقف بہت واضح ہے کہ فیملی کے سربراہ میاں محمد شریف، جو نواز شریف کے سیاست میں آنے سے پہلے بھی ملک کے بڑے صنعت کار تھے، کی انوسٹمنٹس کے نتیجے میں ان کے پوتے کو یہ فلیٹس جائیداد کی تقسم کو دوران ملے، میاں شریف اب اس دنیا میں نہیں مگر اس کے باوجود بھی انوسٹمنٹس کی مکمل تفصیلات اور منی ٹریل مہیا کی گئی جس کے کسی بھی نقطے کو ابھی تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا۔

کیس سپریم کورٹ میں آگیا سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی مزید تحقیقات کے لئے چھ ممبران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی جس کے سربراہ واجد ضیاء تھے۔ذرائع کے مطابق اس ٹیم نے جس مستعدی اور جلد بازی میں کام کیا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اتنے مختصر دنوں میں جے آئی ٹی بے بنیاد اور غیر متعلقہ ثبوتوں کا پلندہ اکٹھا کر سکتی۔واقفان حال اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تمام ثبوت جے آئی ٹی کو فراہم کئے گئے جن کی حقیقت سے شاید جے آئی ٹی بشمول واجد ضیاء بھی لا علم تھے اور وہ ان ثبوتوں کو لیکر بڑے بڑے دعوے کرنے لگے۔

جب جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی سپریم کورٹ نے تکنیکی وجوہات کی بناء پر نوازشریف کو نا اہل قرار دیدیا۔ نواز شریف کو اپنے بیٹے کی کمپنی سے نہ ملنے والی تنخوا کو ڈیکلیئر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا جس پر پانامہ کیس کے پٹیشنر عمران خان بھی بول پڑے کہ ’’کیس پانامہ کا تھا اور نااہل کسی اور بنیاد پر کر دیا گیا‘‘۔

کیس احتساب عدالت ریفر کر دیاگیا،جیسے جیسے احتساب عدالت میں کیس چلتا رہا ،نوازشریف مریم صفدر ،حسن ،حسین ودیگر پیش ہوتے رہے مگر دوسری طرف جے آئی ٹی کے ممبران خاص طور پر واجد ضیاء کا جو اعتماد پانامہ کیس کی تحقیقات کے وقت دیکھنے اور سننے کو ملتا تھا اب وہ بات نہ رہی۔ احتساب عدالت کے جج نے جب واجد ضیاء سے جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے سوالات کئے تو وہ ان کا موثر طریقے سے دفاع نہ کر سکے۔

احتساب عدالت میں واجد ضیاء کے بیانات تضادات کا شکار رہے ہیں اور ان کی باڈی لینگوئج بھی یہ بات بخوبی نمایاں کر تی ہے کہ’’ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ‘‘۔یہ بات تو طے ہے کہ جے آئی ٹی کی اس تحقیقاتی رپورٹ کو حر ف بہ حرف درست یا سچ ثابت کرنا جے آئی ٹی کی ذمہ داری ہے۔مگر ابھی تک جو احتساب عدالت میں ثبوت پیش کئے گئے ہیں ان میں وزن نہیں یا وہ غیر متعلقہ ہیں۔

احتساب عدالت کے جج نے بھی کئی پیشیوں پر گواہان کے تضادات مبنی بیانات پر سوالات اٹھائے ۔جوں جوں کیس آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اس بات کے امکانات ہیں کہ گواہان کی باتوں میں تضادات میں اضافہ ہوتا جائیگا۔بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں میاں نواز شریف کو پھنسانے کی چال چلی گئی ہے اور غیر مصدقہ ثبوتوں کا سہارا لیا گیا ہے جنکی قلعی اب احتساب عدالت میں کھل رہی ہے۔

اگر گواہان اسی طرح سے تضادات سے بھرپور بیان دیتے رہے تو اس بات کے قوی امکان ہیں کہ نوازشریف کے خلاف ان کیسز میں جان نہ رہے۔ایسا بھی بھی ممکن ہے کہ احتساب عدالت کے جج جے آئی ٹی کی تضادات سے بھرپور رپورٹ پر میاں نواز شریف کو ریلیف بھی دے دے مگر اس بات کے امکانات کم ہیں کیونکہ جو بے بنیاد اور غیر متعلقہ دستاویزات کو ثبوت کہہ کر جے آئی ٹی کی رپورٹ کا حصہ بنا سکتے ہیں وہ کسی بھی صورت میاں نوازشریف کو سزا دلوائے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

تو الیکشن ہوں گے یا نہیں، اس سوال کا براہ راست تعلق پچھلے پانچ سال میں ملک میں ہونے والی ترقی اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے ہے، حقائق کا غیر جانبدارانہ تجزیہ تو یہی بتاتا ہے کہ اگر پچھلے پانچ سالوں میں موجودہ حکومت کی کارکردگی بھی سابقہ حکومتوں کی طرح ہوتی تو آج سب کو یقین ہوتا کہ الیکشن یقینا وقت پر ہی ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kya aindah election waqt par hon ge is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 April 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.