2016 میں پانامہ پیپرز رپورٹ ہوئے، جو کہ ان لوگوں کی تفصیلات تھیں جنہوں نے آف شور کمپنیاں بنائیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے بڑے بزنس مین اور حکومتی عہدے دار ٹیکس چوری یا کرپشن کا پیسہ ملک سے باہر منتقل کرتے ہیں اور یہ ناجائز دولت آف شور کمپنیوں کے اکائونٹس میں رکھی جاتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سمندر پار رہنے والے شہریوں کو یورپ کے بہت سے ممالک میں جائز ذرائع سے کمائی گئی دولت کے ذریعے بھی جائیداد خریدتے وقت اپنی جائیداد اور ٹیکس مینجمنٹ کیلئے آف شور کمپنی بنانی پڑتی ہے اور زیادہ تر کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
جس طرح کہ عمران خان نے بھی اپنا لندن فلیٹ خریدتے وقت نیازی سروسز لمیٹڈ کے نام سے ایک آف شور کمپنی بنائی۔ آئی سی آئی جے وہ ادارہ ہے جس نے پانامہ پیپرز رپورٹ کیے اس نے بھی اپنی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا کہ آف شور کمپنی بنانے کا مطلب ضروری طور پر یہ نہیں ہوتا کہ دولت ناجائز ذرائع سے کمائی گئی ہے، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کیا جن اشخاص نے آف شور کمپنیاں بنائیں کیا انہوں نے دولت بھی نا جائز ذرائع سے کمائی۔
پاکستان سے تقریبا 500 افراد کا نام پانامہ پیپرز میں آیا، سابق وزیراعظم نوازشریف کا نام پانامہ پیپرز میں تھا ہی نہیں، لندن کے فلیٹس کو لیکر ان کے بچو ںکا نام تھا مگر ہدف ہمیشہ کی طرح وقت کے وزیر اعظم کو ہی بنایا جانا تھا تا کہ مقبول سیاسی قیادت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔موجودہ حکومت کے آنے کے بعد سے ہی ہنگاموں اور دھرنوں کے ذریعے حکومت گرانے کی سازشوں کا آغاز ہو گیا، کبھی کوئی جواز تراشا گیا کبھی کوئی، پھر پانامہ کا بہا نہ مل گیا، کرپشن کا کوئی ثبوت تو دور کی بات، سرے سے کرپشن کا کوئی الزام ہی نہیں، لندن فلیٹس کے حوالے سے شریف فیملی کا موقف بہت واضح ہے کہ فیملی کے سربراہ میاں محمد شریف، جو نواز شریف کے سیاست میں آنے سے پہلے بھی ملک کے بڑے صنعت کار تھے، کی انوسٹمنٹس کے نتیجے میں ان کے پوتے کو یہ فلیٹس جائیداد کی تقسم کو دوران ملے، میاں شریف اب اس دنیا میں نہیں مگر اس کے باوجود بھی انوسٹمنٹس کی مکمل تفصیلات اور منی ٹریل مہیا کی گئی جس کے کسی بھی نقطے کو ابھی تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا۔
کیس سپریم کورٹ میں آگیا سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی مزید تحقیقات کے لئے چھ ممبران پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی جس کے سربراہ واجد ضیاء تھے۔ذرائع کے مطابق اس ٹیم نے جس مستعدی اور جلد بازی میں کام کیا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اتنے مختصر دنوں میں جے آئی ٹی بے بنیاد اور غیر متعلقہ ثبوتوں کا پلندہ اکٹھا کر سکتی۔واقفان حال اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تمام ثبوت جے آئی ٹی کو فراہم کئے گئے جن کی حقیقت سے شاید جے آئی ٹی بشمول واجد ضیاء بھی لا علم تھے اور وہ ان ثبوتوں کو لیکر بڑے بڑے دعوے کرنے لگے۔
جب جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی سپریم کورٹ نے تکنیکی وجوہات کی بناء پر نوازشریف کو نا اہل قرار دیدیا۔ نواز شریف کو اپنے بیٹے کی کمپنی سے نہ ملنے والی تنخوا کو ڈیکلیئر نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا جس پر پانامہ کیس کے پٹیشنر عمران خان بھی بول پڑے کہ ’’کیس پانامہ کا تھا اور نااہل کسی اور بنیاد پر کر دیا گیا‘‘۔
کیس احتساب عدالت ریفر کر دیاگیا،جیسے جیسے احتساب عدالت میں کیس چلتا رہا ،نوازشریف مریم صفدر ،حسن ،حسین ودیگر پیش ہوتے رہے مگر دوسری طرف جے آئی ٹی کے ممبران خاص طور پر واجد ضیاء کا جو اعتماد پانامہ کیس کی تحقیقات کے وقت دیکھنے اور سننے کو ملتا تھا اب وہ بات نہ رہی۔ احتساب عدالت کے جج نے جب واجد ضیاء سے جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے سوالات کئے تو وہ ان کا موثر طریقے سے دفاع نہ کر سکے۔
احتساب عدالت میں واجد ضیاء کے بیانات تضادات کا شکار رہے ہیں اور ان کی باڈی لینگوئج بھی یہ بات بخوبی نمایاں کر تی ہے کہ’’ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ‘‘۔یہ بات تو طے ہے کہ جے آئی ٹی کی اس تحقیقاتی رپورٹ کو حر ف بہ حرف درست یا سچ ثابت کرنا جے آئی ٹی کی ذمہ داری ہے۔مگر ابھی تک جو احتساب عدالت میں ثبوت پیش کئے گئے ہیں ان میں وزن نہیں یا وہ غیر متعلقہ ہیں۔
احتساب عدالت کے جج نے بھی کئی پیشیوں پر گواہان کے تضادات مبنی بیانات پر سوالات اٹھائے ۔جوں جوں کیس آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اس بات کے امکانات ہیں کہ گواہان کی باتوں میں تضادات میں اضافہ ہوتا جائیگا۔بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں میاں نواز شریف کو پھنسانے کی چال چلی گئی ہے اور غیر مصدقہ ثبوتوں کا سہارا لیا گیا ہے جنکی قلعی اب احتساب عدالت میں کھل رہی ہے۔
اگر گواہان اسی طرح سے تضادات سے بھرپور بیان دیتے رہے تو اس بات کے قوی امکان ہیں کہ نوازشریف کے خلاف ان کیسز میں جان نہ رہے۔ایسا بھی بھی ممکن ہے کہ احتساب عدالت کے جج جے آئی ٹی کی تضادات سے بھرپور رپورٹ پر میاں نواز شریف کو ریلیف بھی دے دے مگر اس بات کے امکانات کم ہیں کیونکہ جو بے بنیاد اور غیر متعلقہ دستاویزات کو ثبوت کہہ کر جے آئی ٹی کی رپورٹ کا حصہ بنا سکتے ہیں وہ کسی بھی صورت میاں نوازشریف کو سزا دلوائے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔