مودی کا پاکستانی سلامتی پر ایک اور وار

متنازعہ کشن گنگا ڈیم کا افتتاح شہباز شریف کی کالا باغ ڈیم سے دست برداری‘لمحہ فکریہ

بدھ 30 مئی 2018

moodi ka Pakistani salamti par aik aur waar
سید ساجد یزدانی
مقبوضہ کشمیر بھارتی وزیر اعظم مودی نے متنازعہ کشن گنگا ڈیم کا باقاعدہ افتتاح کر دیا جس سے پاکستان میں پانی اور بجلی کے بحران میں شدت آسکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 330 میگا واٹ پن بجلی کے متنازعہ بھارتی کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے خلاف پاکستان کا اعلی سطحی وفد واشنگٹن روانہ ہو گیا ہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف کی زیر قیادت وفد عالمی بینک سے عالمی ثالثی عدالت قائم کرنے کا مطالبہ کرے گا جبکہ غیر جانبدار ماہر نمائندے کا تقرر قبول نہ کرنے بارے تحفظات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق ہفتہ کے روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے 330 میگاواٹ پن بجلی کے متنازعہ کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کیا گیا۔

(جاری ہے)

تو عین اسی وقت جوابی حکمت عملی کے طور پر پاکستان کا اعلی سطحی وفد واشنگٹن روانہ ہو گیا۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی سربراہی میں سیکرٹری پانی و بجلی ، انڈس واٹر کمشنر آف پاکستان اور دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیاء ڈاکٹر محمد فیصل پر مشتمل وفد آئندہ ایک دو روز میں عالمی بینک سے ملاقات کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ کشن گنگا ڈیم ایک متنازعہ ڈیم ہے لہذا عالمی بینک ٹریٹی کے مطابق عالمی ثالثی عدالت قائم کرے جبکہ غیر جانبدار ماہ نمائندے کے تقرر کے بارے میں پاکستان کے تحفظات سے بھی آگاہ کرے گا۔

سندھ طاس معاہدہ میں تین در یا بھارت کو دیئے جانے کے بعد منگلا اور تربیلا ڈیم تعمیر کئے گئے۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے پنجاب کے تینوں دریاؤں کے پانی سے محروم علاقے کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان میں وسیع رقبوں پر آبادکاری کی گئی۔ سندھ میں غلام محمد بیراج کی توسیع کر کے کوٹری بیراج تعمیر کیا گیا اور گدو کے مقام پر ایک نیا بیراج تعمیر کر کے جہاں سندھ کے وسیع علاقوں کو سیراب کیا گیا وہیں گدو سے پٹ فیڈر کینال نکال کر بلوچستان کے وسیع رقبہ کو بھی آباد کیا گیا۔

اسی طرح چشمہ سے رائٹ بینک کینال کے ذریعے ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے کئی علاقے سیراب کئے گئے۔ تربیلا سے بھی پہور کینال نکال کر مردان، صوابی اور رسالپور کے علاقوں کو پانی بہم پہنچایا گیا۔ تربیلا ڈیم کی تعمیر کے وقت اس میں قابل استعمال پانی جمع کرنے کی صلاحیت تقریبا95 لاکھ ایکڑ فٹ تھی۔ مارچ کے وسط میں جب سندھ میں ربیع کے لئے آخری پانی اور پھر خریف کی فصل کی بوائی کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی تھی تو تربیلا جھیل میں 30 سے 35 لاکھ ایکڑ فٹ پانی موجود ہوتا تھا چنانچہ سندھ اور بلوچستان کی ضرورت باآسانی پوری ہو جاتی تھی۔

سلٹ کی وجہ سے اب مارچ کے وسط میں تربیلا جھیل میں پانی ڈیڈ لیول پر پہنچا ہوتا ہے چنانچہ دریا کی عموی روانی جو انتہائی کم ہوتی ہے، پانی کی دستیابی ممکن ہوتی ہے۔ اس قلیل پانی سے سندھ اور بلوچستان کی ضرورت پوری نہیں ہوسکتی۔ اگر یہی حال رہا تو آئندہ آنے والے سالوں میں تربیلا جھیل میں قابل استعمال پانی کی مقدار مزید کم ہو جائے گی جس سے سندھ کی زراعت بری طرح متاثر ہوگی۔

اس کا تدارک صرف یہ ہے کہ فوری طور پر نئے ڈیم بنائے جائیں تا کہ پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈیم بنانے کے لئے موزوں ترین جگہ کون سی ہے؟ دنیا بھر کے ماہرین کالا باغ سائٹ کوڈیم بنانے کے لئے موزوں ترین جگہ قرار دیتے ہیں لیکن اس مقام کے حوالے سے پنجاب کو چھوڑ کر دیگر صوبے مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کا جواب ہمارے ماہرین کو تلاش کرنا چاہیے۔

ایک بات غور کرنے کی ہے کہ صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا معاہدہ water accord Apportionment 1991 میں طے پا گیا ہے اب اس لحاظ سے کوئی اختلاف نہیں کہ کتنا پانی ہوگا تو اس میں سے کس صوبے کا کتنا پانی دستیاب ہوگا؟ اس مقصد کے لئے ارسا اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔ اب اگر کسی صوبہ کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے حصہ میں آنے والے پانی کوکالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر استعمال میں لا سکتے ہیں تو ہمیں کالا باغ ڈیم کی رٹ چھوڑ دینی چاہیے اور اگر ان صوبوں کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر سیلابوں میں ضائع ہونے والے پانی کو قابل استعمال نہیں بنایا جا سکتا تو ہمیں چاہیے کہ اپنی غلطی سدھار لیں اور غلطی سدھارنا مومن کی نشانی ہوتا ہے۔

پانی کے مسائل پر صوبوں کے درمیان بڑی مشکل سے کوئی اتفاق رائے ہوتا ہے۔1991ء کے صوبوں کے مابین پانی کے معاہدے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ چاروں صوبوں نے جن میں سے ایک میں پیپلز پارٹی اور دوسرے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے نیشنل واٹر پالیسی پراتفاق رائے کرتے ہوئے منظور کیا ہے۔ بجٹ کا 10% حصہ آبی ذخائر کیلئے خرچ کیا جائے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر بجٹ میں کم از کم چار پانچ ارب ڈالر آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے رکھے جائیں۔

بجٹ میں وسائل کی کمی کو دیکھتے ہوئے یہ بات مشکل نظر آتی ہے کہ اتنے فنڈ مختص کئے جاسکیں۔ اس کے لئے پاکستان کے چیمبرز آف کامرس کے تعاون سے پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی وسائل پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ اس طرح محض چار پانچ سالوں میں ہم نے صرف پانی کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں، توانائی کے جن کو قابوکر سکتے ہیں بلکہ قومی معیشت کا زاویہ بھی اپنے حق میں کر سکتے ہیں۔


یہاں ایک سوال غور طلب ہے کہ دریائے سوات، دیر اور کابل اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں گرتے ہیں جو تربیلا ڈیم سے نیچے قریبا 40 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ ہری پور، اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم، ایک اور چکوال کے علاوہ کوہاٹ اور کرک کے اضلاع کا سیلابی اور بارشی پانی بھی اٹک خورد سے نیچے اور کالا باغ کے مقام سے اوپر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔

اس طرح ایک لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد رقبہ کی بارشوں سے جمع ہونے والا پانی انتہائی سیلاب کا سبب بنتا ہے۔ میرا صرف ایک سوال ہے کہ اس پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے صوبہ سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان کے ماہرین کے پاس کون سا مقام ہے یا وہ کونسا مقام تجویز کرتے ہیں؟ اگر ان کے نزدیک سیلابی پانی کو کسی اور مقام پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ان سے تعاون کریں اور اگر ان کے ماہرین کالا باغ کے مقام کو ہی سیلابی پانی کنٹرول کرنے والا واحد مقام بتائیں تو ہمیں پاکستان اور اپنے اپنے صوبہ کی ترقی اور آبی مسائل کے حل کے لئے ضد چھوڑ کر آبی وسائل کو استعال کرنے کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے۔

ام اوسطا سالانہ 70 ارب ڈالر کی معیشت کا پانی سمندر میں گرا کرضائع کررہے ہیں۔ اگر ہم اس معیشت کو قابو کر لیں تو پاکستان کے تمام آبی مسائل اور سستی توانائی کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے اور پھر صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی باقی نہ رہے گا۔ پانی کی فراہمی میں مسلسل کمی آئندہ دنوں میں ملک کو شدید بحران سے دو چار کر سکتی ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں تقریبا9.4 ملین ایکڑ فٹ کا اضافہ ہوگا۔

اگر کوئی شخص کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتا ہے تو وہ پاکستان کا دوست نہیں۔ حکومت لازمی طور پر اس سیاست زدہ مسئلہ کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے کر جائے اور اس پراتفاق رائے پیدا کرے۔ ایسے تمام ترقیاتی منصوبے جو کہ مخالفت کرنے والے صوبوں کے خدشات کو ختم کر سکتے ہیں کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کا حصہ بنا دیئے جائیں اور ان منصوبوں پر بیک وقت کام کا آغاز کیا جائے۔

20 ویں صدی میں دنیا میں46000 ڈیمز تعمیر کیے گئے۔ چین نے 22000 اور انڈیا نے429 جبکہ پاکستان نے صرف 70 ڈیمزبنائے۔ 1990ء سے 2015ء تک پانی کی فی کس فراہمی 2127 سے کم ہوکر1300 کیوبک میٹر ہوگئی ہے اورمستقبل میں یہ مزید کم ہو جائے گی۔ ورلڈ بینک کے مطابق کالاباغ ڈیم اور بھاشاڈیم بالترتیب 1995ء اور2010ء میں تعمیر ہو جانے چاہئیں تھے لیکن ہم بدقسمتی سے نہ بنا سکے اور کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنادیا۔


 تربیلا ڈیم کے بعد کوئی بڑا پانی ذخیرہ کرنے کو منصوبہ مکمل نہیں کیا گیا اس وجہ سے ہماری ملکی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 30 دن کی ضرورت سے بھی کم ہوگئی ہے جو عالمی معیارات کے مطابق کم از کم 120 دن کی ہونی چاہیے تھی۔ کالا باغ ڈیم کو 1980ء میں مارشل لاء کے دور میں متنازعہ بنا دیا گیا جبکہ اس کی فزیبلٹی رپورٹ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1975ء میں تیار کی گئی تھی۔

اگر یہ سندھ کے لئے اتنا نقصان دہ ہوتا جتنا کہ آج کل سندھی رہنماسمجھتے ہیں تو مرحوم وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو بھی اس فزیبلٹی کی منظوری نہ دیتے۔ انہوں نے ان خدشات کو مسترد کر دیا کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پشاور ویلی اورنوشہرہ میں سیلاب آجائے گا۔
شمس الملک واپڈا کے چیئر مین رہے ان کا اپنا گھر نوشہرہ میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نوشہرہ اور اردگرد کے دیگر اضلاع سے اوسط سطح سمندر سے کم بلندی پر ہے اور اس کا مجوزہ ڈیزائن 10 لاکھ کیوسک پانی کے بہاوٴ کو آسانی سے گزارسکتا ہے اس لئے یہ کہنا کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور خیبر پختونخواہ کے دیگر اضلاع کو سیلاب کا خدشہ ہے اور اس کے کچھ اضلاع میں سیم اور تھور کا مسئلہ ہوسکتا ہے حقائق کے منافی بات ہے۔

نوشہرہ اور پشاور ویلی کو سیلابی پانی سے بچاؤ کیلئے دریائے سندھ کے معاون دریاؤں پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنانے ہوں گے اور دریاؤں کے پشتے مضبوط کرنے ہونگے جو کہ اس مسئلے کا حل ہے نہ کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت سے یہ مسئلہ ہوگا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ڈیرہ اسماعیل خان کو رائٹ بنک کینال سے تقریبا 2 . 9 ملین ایکڑ فیٹ سالانہ پانی دستیاب ہوگا جس سے تقریبا 3 ملین ایکڑ بنجر اراضی سیراب ہوگی۔

ان کی تعمیر سے صوبوں میں پانی کی فراہمی کے معاہدے کے مطابق سندھ کوزیادہ پانی ملے گا اور صوبہ سندھ کا یہ اعتراض کہ دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ بہت کم ہو جائے گا اور دریائی پانی سمندر میں نہ جانے سے سمندری پانی ٹھٹھہ، بدین اور دیگر سالی اضلاع میں زرخیز زمین کو بھی بنجر کر دے گا۔ قطعا غلط فہمی پر مبنی ہے۔ کالا باغ ڈیم سے صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کو کوٹری سے نیچے سارا سال پانی ملے گا اور مناسب مقدار میں سمندر میں شامل ہونے سے دستیاب زرخیز زمین میں اضافہ ہوگا۔

دستیاب اعداد وشمار کے مطابق چشمہ اور تربیلا ڈیمز بننے کے بعد سندھ کو پانی کی فراہمی میں اضافہ ہوا تھا لہذا وفاقی حکومت ہنگامی بنیادوں پر کالا باغ ڈیم کے مسئلہ کومشترکہ مفادات کونسل میں لے جا کر اس پر اتفاق رائے پیدا کرے۔ جتنا جلد یہ مسئلہ حل ہوگا اتنا ہی مارے اور اگلی نسلوں کیلئے بہتر ہوگا۔ اب اس مسئلہ پر مزید سیاست چمکانے کیلئے وقت نہیں ہے۔

پاکستان میں سیلابوں سے اب تک آٹھ ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
ان سیلابوں سے مجموعی طور پر پاکستان کو 60 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اربوں روپے مالیت کے مویشیوں کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ یہ دعوی ممتاز سائنسدان اور سابق صوبائی وزیر آبپاشی خیبر پی کے ہمایوں سیف اللہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ ”موسمیاتی تغیر اور پانی کا بحران“ میں کیا ہے۔

کالا باغ ڈیم کوعموما پانی کی کمی بیشی پر قابو پانے اور بجلی کی پیداوار کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ آبی ماہر ہمایوں سیف اللہ نے اپنی تحقیق میں اسکی مزید کئی پہلوؤں سے افادیت بھی واضح کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے ایک کمشن نے تربیلا ڈیم پر اپنی ایک سٹڈی میں انکشاف کیا تھا کہ تربیلا ڈیم دریائے سندھ میں آنیوالے طوفان کو16 فیصد تک ریگولیٹ کرتا ہے۔

اگر دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم تعمیر کر لیں تو دریائے سندھ میں سیلاب کو ساٹھ فیصد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اگر پاکستان پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوری طور پرکالاباغ بھاشا اور دوسرے ڈیم بنانا چاہئیں۔ یقین کالا باغ ڈیم مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت سے مسائل کاحل ہے۔ آج ہمیں زیرز میں پانی کی بھی قلت کا سامنا ہے اوریہ قلت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

ایک ممتاز عالمی آبی ماہرڈیوایل فلٹرس نے اپنی کتاب ”پانی کی سیاست میں لکھا ہے کہ سپین 1950ء اور2000ء کے درمیان ہرسال20ڈیم تعمیر کئے۔ جس سے سپین میں زیر زمین پانی کی سطح دوگنی ہوگئی۔ گزشتہ روز ہی یہ پریشان کن خبر شائع ہوئی کہ سندھ میں پانی کی کمی آم کی پیداوار کیلئے تباہ کن ثابت ہورہی ہے، یہ صورتحال سندھ کی اس سیاسی اشرافیہ کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے جو کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر اپنی سیاست چمکا رہی ہے۔ کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ اتفاق رائے کا واویلا تو کیا جاتا ہے مگر اس طرح کبھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ کالا باغ ڈیم کی مزید تاخیر اربوں ڈالر سالانہ نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ ان حالات میں مشترکہ مفادات کونسل کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

moodi ka Pakistani salamti par aik aur waar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 May 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.