مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری

اُتر پردیش میں ہندو فرقہ پرتست تنظیمیں بے لگام. مسلم ثقافت پر حملہ‘ تاج محل کو بھی غیر ملکی قرار دیدیا

پیر 24 جولائی 2017

Musalmanon Ko Harasan Karnay Ka Silsila Jari
رابعہ عظمت:
اُتر پردیش میں فرقہ پرست وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے برسر اقتدار آتے ہی رام مندر کے لئے مذموم سرگرمیوں میں تیز ی آگئی ہے اور دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی بابری مسجد تنازعہ کو بات چیت سے حل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا جبکہ وزیر اعلیٰ کا دورہ ایودھیا اور رام مندر کی تعمیر کا جائزہ لینا بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا رام مندر کی تعمیر کی راہ میں موجود قانونی رکاوٹوں کو دورکرنے کی سنگھ پریوار نے خفیہ تیاریاں کر رکھی ہیں۔کیا یہی اس کا منصوبہ ہے کہ مندر بنادیا جائے اور اپنے ایک پرانے وعدے کی تکمیل کے ساتھ 2019ء کے عام انتخابات میں ووٹروں کے درمیان میں جایا جائے۔

(جاری ہے)

ویشوا ہندو پریشد کے فرقہ پرست لیڈر پروین توگڑیا نے کہا ہے کہ مودی سرکار پارلیمنٹ سے قانون منظور کرکے رام مندر بنوائے۔

تو گڑیا کے مطابق یوگی آدتیہ ناتھ،رام مندر کی تعمیر کا سپنا پورا کریں گے۔بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی کی اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اتر پردیش میں بڑھتی ہوئی ہندو فرقہ پرستی کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقے وار انسی میں مسلمان شخص کی داڑھی نوچ ڈالی۔اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آوریوگی کی فرقہ پرست تنظیم ہندو یودا واہنی کے کارکن تھے۔

چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں کہ یوگی کے حکومت سنبھالتے ہی ہندو تو واویوں کے حوصلے کس قدر بلند ہو چکے ہیں۔ میرٹھ میں ایسے پوسٹر لگائے گئے ہیں جن میں لکھا گیا ہے کہ ”اتر پردیش میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کہنا ہے۔“ یہ اعلان بھی منظر عام پر آیا تھا کہ مطلقہ مسلم عورتیں اگر اسلام ترک کرکے ہندو بن جائیں تو واہنی کے کارکن ان سے شادی کرنے اور انہیں انصاف دلانے کیلئے تیارہیں۔

ہندو یووا واہنی ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تنظیم ہے۔یوگی خود بھی مغربی یوپی میں لو جہادکو بڑا مسئلہ بنا چکا ہے۔اس وقت پورے صوربے میں ہندو واہنی کا اثر تیزی سے ڈھلتا جا رہا ہے۔ہندو تو اگئور کشک کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جا ری ہے۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ نے آتے ہی قصایوں اور عوامی مقامات پر بیٹھے ہوئے فارغ افراد کے خلاف بھی کاروائی کا حکم دے دیا ہے۔

ناقدین نے انتہا پسند ہندو مذہبی رہنما کے اس اقدام کو مسلم اقلیت کو نشانہ بنانے کی مہم قرار دیا ہے۔متنازعہ یوگی آدتیہ ناتھ نے انتہا پسند ہندوؤں کے مطالبے پر متعدد اقدامات سمیت گوشت کی دکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شروع کیا ہے جنہیں پولیس غیر قانونی قرار دے رہی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے پولیس کو ”اینٹی رومیو اسکواڈ“بنانے کا حکم دیا تاکہ عوامی مقامات مثلا سکولوں ،کالجوں کے پاس فارغ گھومنے والے افراد کر گرفتار کیا جاسکے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد عورتوں کی حفاظت ہے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں بی جے پی کے سیاست دان ایسے پولیس اسکواڈ بنانے کے مطالبات کرتے رہے ہیں تاکہ ہندو لڑکیوں اور مسلمان لڑکوں کے درمیان بین المذہبی رشتہ قائم ہونے سے روکا جاسکے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مودی بی جے پی کی زیادہ دلچسپی انتہا پسند ہندو ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ہے نہ کہ غربت کے خاتمے اور تعمیرو ترقی کے اپنے وعدے پورے کرنے ہیں۔

اتر پردیش بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے جہاں کی آبادی 20 کروڑ سے بھی زیادہ ہے مگر ہندوستان کی غریب ترین ریاست بھی یہی ہے،جہاں پچھلے سال فی کس سالانہ آمدنی محض 740 ڈالر تھی۔ نئی دہلی کے آبزروریسرچ فاؤنڈیشن میں سینئر محقق ستیش مہرا کہتے ہیں کہ یہ تشویش ناک بات ہے بھارت کی سیکولر شناخت پر سوالیہ ٹھپہ لگ گیا ہے۔بلا شبہ یوگی کو وزیراعلیٰ بنانے کا مقصد ہی ہندو تورا کے ایجنڈے کو فروغ دینا ہے۔

ستیش مہرا کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ 2019ء میں اگلے الیکشن تک ان کے پاس معیشت اور تعمیر و ترقی کے شعبے میں دکھانے کو کچھ خاص نہیں ہوگا اور اس معاملے میں وہ خالی ہاتھ ہوں گے۔ریاستی حکام نے کہا ہے کہ پولیس نے دہلی کے مشرقی علاقے میں ایک مذبح اور درجن بھر گوشت کی دکانیں بھی بند کرادی ہیں۔

انتہا پسند ہندو کارکن اکثر قصابوں پر غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور ان پر گائے کا گوشت بیچنے کا شک ظاہر کرتے ہیں۔ بھارت میں اتر پردیش سمیت متعدد ریاستوں میں گائے کا گوشت بیچنا جرم ہے۔انتہا پسند ہندوؤں نے بھارت میں گئورکشا نغمے بنائے ہیں جن میں بعض پر مسلمان مویشی تاجران کو قتل کروانے کے الزامات بھی ہیں۔اتر پردیش پولیس کے مطابق گزشتہ دنوں گوشت کی دکانوں پر دھاوا بول دیا گیا۔

ایک دکان کے مالک نے صحافیوں کو بتایا کہ”میرے خاندان کا دارو مدار اس دکان پر تھا۔اب میں اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا۔“ پچھلے ماہ بی جے پی کے ملکی نائب کنوینئر سنیل بھارا لانے ایسے جھتوں کا جواز تراشتے ہوئے کیا تھا کہ ان کے ذریعے ہندو لڑکیوں اور مسلمان لڑکوں کے درمیان تعلقات قائم ہونے سے روکا جاسکے گا۔وزیر اعلیٰ بننے سے قبل آدتیہ ناتھ نے اس معاملے کو Love j,had کانام دیا تھا۔

دوسری جانب فرقہ پرست وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے تاج محل کو بھی ثقافت کا قصہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے تین سال پورے ہونے پر منعقدہ اجلاس میں آدتیہ ناتھ کا کہنا تھا کہ جب دوسرے ملکوں کے وزرائے اعظم یا صدور بھارت آتے تھے تو انہیں تاج محل کی مورتی پیش کی جاتی تھی۔اسی طرح جب بھارت کے وزیراعظم دوسرے ملک جاتے ہیں تو انہیں بھی تاج محل کا نمونہ تحفے میں ملتا تھا۔

لیکن اب وقت بدل گیا ہے ۔اب کسی بھی ملک کے سربراہ بھارت آتے ہیں تو انھیں بھگوان گپتا اور رامائن پیش کی جاتی ہیں۔ہندو مورخین کے مطابق ہندوؤں کی مذہبی کتابیں آریوں کی وین میں ہزاروں سال قبل ہندوستان واردہوئے تھے اور اصل باشندوں کو غلام بنا لیا گیا تھا۔اسی طرح مغل حکمران بھی باہر سے آئے تھے۔ پٹنہ یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ڈیزی نارائن کے مطابق ”قرون وسطی اور سابق جدید دور یعنی 1206ء سے لے کر 1760ء تک کے عرصہ کے کچھ لوگ بھارتی کو اسلامی دور سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک خاص قسم کی سیاسی سوچ رکھنے والے لوگ اس عرصہ میں بنے تاج محل کو ہندوستانی ثقافت کا حصہ نہیں مانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت چونکا دینے والی ہے،جبکہ پوری دنیا میں تاج محل کو ہندوستانی ثقافت ورثہ کے طور شہرت ملی ہوئی ہے۔“ نارائن نے مزید کہا کہ کچھ لوگ ہندوستانی تاریخ کی نئی تشریح کرنا چاہتے ہیں اور حقائق کے ساتھ کھلوار کررہے ہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ اتر پردیش میں آگرہ میں موجود اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تاج محل ہندوستان کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اسے ہر سال 80 لاکھ افراد دیکھنے آتے ہیں ۔

یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے جبکہ وزیر اعظم کی مہم ”کلین انڈیا مشن“ کے 10 مقامات میں ایک تاج محل بھی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر یوگی تاج محل کو پسند نہیں کرتے تو اس سے ہونے والے کروڑوں روپے کی آمدنی کو سرکاری فنڈز میں جمع کرنے سے انکار کیوں نہیں کردیتے۔وہ وزیراعظم سے بھی کہیں کہ وہ لال قلعہ کی فصیل کی بجائے اکثر دمام کے مندر سے خطاب کرے۔

یوگی کی بھگوا سرکاری کے حالیہ حکم نامے کے تحت تعلیم کا بھگوا کرن کی بھی تیاری کی جاچکی ہیں۔ریاستی حکومت ایک ایسی کتاب کے اشاعت کی تیاری کر رہی ہے جس میں بی جے پی ،جن سنگھ اور آر ایس ایس کے لیڈروں کی زندگی،خدمات کا تعارف درج ہوگا اور اس کتاب کے پندرہ لاکھ نسخے تقسیم کئے جائیں گے۔ریاست میں آر ایس ایس کا منظور کردہ نصاب پڑھایا جائے گا۔

حکومت نئے فیصلے کے تحت ہندو فرقہ پرست لیڈر پنڈت دین دھیال آپا دھائے ،شیاما پرساد مکھرجی،گوالکرکی زندگیوں پر بچوں میں پندرہ لاکھ کتابیں اور سمپوزیم کروائے جائیں گے اور اب حکومتی اقدامات کے تحت مہارانا پرتاب کو نصاب تعلیم میں شالم کیا جارہا ہے اورہلدی گھاٹی کی لڑائی کے حوالے سے ایکب اب بھی نصاب میں شامل کیا جائے گا۔تاریخ شاہد ہے کہ ہلدی گھاٹی کے مقام پر مہاراجا پرتاب نے مغل بادشاہ اکبر کے ہاتھوں شکست کھائی تھی۔

مگر سنگھی تاریخ دان مہاراجا کوفاتح قرار دیتے ہیں۔ یوپی تعلیمی بورڈ نے یوگا“ کو بھی تعلیمی نصاب میں شامل کرلیا ہے۔یوگا نویں سے بارھویں جماعت تک پڑھایا اور سکھایا جائے گا۔ اتر پردیش کے یوگی آتیہ ناتھ حکومت کی ہدایت پر آئندہ سال سے اترپردیش ثانوی تعلیم کونسل کی کتابوں کی جگہ این سی آر ٹی کی کتابیں لے لیں گی۔یوپی ثانوی تعلیمی بورڈ کے ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ نائب وزیراعلیٰ کی طرف سے ہمیں پیغام موصول ہوا تھا۔

دراصل یوپی وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کی طاقت کا اصل منبع مشرقی اتر پردیش کے شہر گور کھپور میں واقع ایک مندر ہے جہاں کے عوام اس پجاری کے بے حد احترام دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں جب بطور وزیراعلیٰ ان کے نام کے اعلان کے بعد ایک عقیدت مند نے احتراماََ گرد اکٹھا کی جہاں آدتیہ ناتھ چلا کرتے تھے۔اسی طرح کی عقیدت مندی رکھنے والے نوجوانوں نے ایک طاقتور گروپ کی شکل اختیار کرلی ہے جس سے سیکولر بھارت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔

بی جے پی کے قومی ترجمان کے مطابق ”اترپردیش میں پارٹی کی کامیابی نہ صرف آدتیہ ناتھ کی مرہون منت ہے بلکہ ان کی حامی ملیشیا کا بھی اہم کردار ہے۔“آدتیہ ناتھ نے اتر پردیش کے ریاستی انتخابات کے دوران بی جے پی کی نمائندگی کی اور مودی کو 2019ء کے عام انتخابات میں دوبار منتخب ہونے کیلئے درکار طاقت کو مجتمع کرنے میں ان کی مدد کی۔ بہر کیف یوپی میں مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنادی گئی ہیں۔

ان پر عرصہ تنگ کیا جارہا ہے کبھی گائے تحفظ ،اور کبھی لوجہاد کے بہانے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔یووا واہنی سمیت ہندو فرقہ پرست تنظیموں کا اصل مقصد مسلمانوں کو ہراساں کرنا اور انہیں پسماندگی میں دھکیلنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اتر پردیش کے شہروں کی دیواروں پر نعرے لکھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر اتر پردیش میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہنا ہوگا۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Musalmanon Ko Harasan Karnay Ka Silsila Jari is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.