ناقابل یقین تسخیر اردوان کا عثمانی تھپڑ!

اقتصادی لحاظ سے ترکی 111ویں نمبر پر تھا اردوان نے اسے اٹھا کر 16ویں نمبر پر پہنچا دیا۔ اردوان اگر ڈکٹیٹرہوتے تو بغاوت کی رات قوم ان سے نجات پانے کیلئے بوٹوں کو سلامی پیش کر رہی ہوتی ۔اردوان کی جیت پر شاہ سلیمان سمیت پوری دنیا کے رہنماؤں نے مبارک باد دی۔

منگل 10 جولائی 2018

na qabil yaqeen taskheer erdogan ka usmani thapar
محمد قاسم حمدان
24 جون کو جیسے جیسے شام بھیگ رہی تھی پوری دنیا کے لوگوں کی دھڑکنیں خلاف ِمعمول بحر مرمرہ کی اٹھکیلیاں کرتی لہروں کی طرح تیز ہو رہی تھیں۔ اس تاریخ ساز انتخاب کے ذریعے ترک قوم نے نہ صرف ترکی کی تاریخ الٹ دی بلکہ معر کہ صلیب و ہلال کے نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ انتخاب سے ایک روز قبل صدر اردوان نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کل ہم اپنے حریفوں کوعثمانی تھپڑ لگائیں گے۔

طیب اردوان کی کامیابی پر پوری مسلم دنیا میں خوشی کا سماں ہے جبکہ یورپ میں سوگ و مردنی کا عالم ہے۔ ان کی جیت پر سعودی عرب کے شاہ سلمان سمیت پوری دنیا کے رہنماؤں نے مبارک باد دی ہے۔ پاکستان سے وزارت عظمیٰ کے امید وارمیاں شہباز شریف نے ٹوئیٹر پر ترکی زبان میں ٹویٹ کر کے مبارک کا پیغام دیا۔

(جاری ہے)

موجودہ انتخاب اس لئے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز رہا کہ اس کے بعد ترکی میں امریکی طرز پر صدارتی نظام کا نفاذ ہو گا ، ترکی کا نیا آئین ان انتخابات کے بعد نافذ ہونے جارہا ہے۔


اردوان کو قصر صدارت میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے اپوزیشن نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ عالمی تجزیہ کاروں، چینلز پر رائے دینے والے ارسطوؤں کے دعوؤں کی تان اس بات پرٹوٹتی کہ اردوان کو پہلی دفعہ بہت سخت مقابلے کا سامنا ہوا بھی یہ راگ الاپ رہے تھے کہ اردوان کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا ، ان کے سلطان بننے کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔

تمام تر سرویز میں یہ دکھایا گیا کہ وہ47%سے زیادہ ووٹ نہیں لے پائیں گے۔ اگر سرویز درست ہو جاتے تو جولائی میں پہلی دو اپوزیشنیں حاصل کرنے والوں کے درمیان پھر میدان سجنا تھا اور اپوزیشن کو دوسرے مرحلے میں اپنی کامیابی کا کامل یقین تھا۔ اردوان کے مقابل اتحاد ملت میں چھ جماعتیں شامل تھیں لیکن ہر جماعت اپنا صدارتی امیدوارا لگ سے لائی تھی۔

ان میں سے کمالسٹ نظریات کی حامل ریپبلکن پیپلز پارٹی کے امیدوار ش محرم انجے کومظبوط تصور کیا جا رہا تھا۔محرم انجے نے مذہبی حلقوں کا ووٹ لینے کے لئے پارٹی کی پالیسی سے ہٹ کر عمران خان کی طرح اپنے نظریات 180 درجے کی قلا با زی کھائی اور مذہبی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے ، تمام فرقوں کے درمیان تفریق نہ کرنے ، ہیڈ اسکارف کے معاملے کو پھر نہ اٹھانے اور امام و خطیب سکولوں کو بند نہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے مذہبی حلقوں سے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

محرم انجے نے بھی ”کعبہ کس منہ سے جاوٴ گے غالب“ کے مصداق ساری زندگی مسجد کا منہ تک نہیں دیکھا لیکن انہیں پوسٹرز ، بینرز ، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نماز پڑھتے ہوئے دکھایا گیا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی والدہ اور بہن کو ہیڈ اسکارف پہنے ہوئے جلسوں اور ریلیوں میں سٹیج پر لا کر مذہبی حلقوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی حالانکہ یہ وہ جماعت ہے جس نے یورپ کو خوش کرنے کے لئے ہیڈ اسکارف کی ہمیشہ مخالفت کی اور نجم الدین اربکان کے دور میں پارلیمان کی خاتون رکن کو اس لئے پارلیمان میں داخل ہونے سے روک دیا تھا کہ خاتون نے اسکارف پہن رکھا تھا۔

صدر اردوان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے سکول و کالج اور دفاتر میں اسکارف کی پابندی کا خاتمہ کیا بلکہ اسکارف اوڑھنے والی ڈاکٹر عائشین جا گرن کو ترکی کی تاریخ میں پہلی بار وزیر بنایا۔ معترضین نے ہمیشہ یہ بودا پروپیگنڈا کیا کہ طیب اردوان کے صدر بننے سے ترکی میں جمہوریت کمزور ہو جائے گی کیونکہ بہت زیادہ اختیارات حاصل ہونے سے وہ آمر مطلق اور ڈکٹیٹر کا روپ دھار لیں گے۔

اردوان اگر ڈکٹیٹر ہوتے تو بغاوت کی رات ترک قوم ان سے نجات پانے کے لیے بوٹوں کو سلامیاں دے رہی ہوتی جیسے ماضی میں ہوتا رہا اور جیسے پاکستان کی تاریخ میں کئی بار سیاہ باب رقم ہوئے۔ ہم نے آمروں کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور ان سے جان چھڑانے کے لئے کچھ اذ ا نیں دیں۔ اردوان اگر ڈکٹیٹر ہوتے تو ان کی ایک ہی پکار پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر خلائی مخلوق کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر قربانیاں پیش نہ کرتے۔


وہ گھروں سے دیوانہ وار نکل کر اپنے محبوب قائد کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے تھے یہ مٹی وفا داروں کی مٹی ہے غداروں کی نہیں۔ قوم کی طرف سے ایسی جان نثاری اور محبت اسی وقت ملتی ہے جب لیڈر بھی اپنی قوم کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرے۔ جہاں قوم کے جوانوں کا پسینہ گرتا ہے وہاں لیڈر اپنا خون پیش کرتا ہے۔ شومئی قسمت سے پاکستان میں اس کے برعکس معاملہ ہے۔

اردوان کی ان گنت خدمات اور ان کی جرات و شجاعت نے انہیں ترک قوم ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کا ہیرو اور مسیحا بنادیا ہے۔ شام کے مسئلے پر ان کا کردار بہت واضح ہے، انہوں نے 40 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو اپنا مہما ن بنایا بلکہ کئی لاکھ کو ترکی کی شہریت بھی دی۔ فلسطین کا معاملہ ہو یا بر ما کی مظلوم اقلیت کا انہوں نے اخوت ومودت کے تمام تقاضوں کو خوب نبھایا ، اسی طرح آسڑیا نے جب ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوف زدہ ہو کر مساجد پر پابندی لگائی تو اردوان نے اسے صلیب و ہلال کے مابین جنگ قرار دے کر باز رہنے کی تاکید کی۔

اردوان نے عفرین میں کردوں کی شورش کو کچل کر در حقیقت امریکہ کی ترکی کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش کو ناکام بنایا ، عفرین کی سے ترکی میں خودکش حملوں کا خونی باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
 اردوان کی فتح ان کے ویژن2023ء کی جیت ہے جب معاہد ہ اور ان کی تمام زنجیریں ٹوٹ گریں گی اور ترکی ترقی کی نئی بلندیوں کو چھونے کا بلا شبہ اردوان کی ہی کامیابی ان کی 24 سالہ خدمت اور تر کی کوعظیم تر بنانے کی جد و جہد کا تسلسل ہے۔

24سال پہلے جب وہ استنبول کے میئر بنے تو استنبول ہر قسم کے جرائم کی آماجگاہ اور گندگی کاڈھیر تھا۔ جیسے کراچی کا آج ہمارے خودغرض ،لالچی اور نا اہل حکمرانوں نے حال کر رکھا ہے۔ اردوان نے چند ہی سالوں میں استنبول کو جرائم اور کرپشن کی دلدل سے نکالا۔ جس شہر میں لوگ آنے سے ڈرتے تھے، وہاں سالانہ تین کروڑ کی تعداد میں سیاح آنے لگے صرف سیاحت سے حاصل ہونیوالی سالانہ آمدن 20 ارب ڈالر ہے۔

جب ترکی کے لوگوں نے طیب کی خدمات کو دیکھا تو انہوں نے طیب اردوان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ ترکی کے وزیراعظم اور صدر منتخب ہو گئے۔
طیب اردوان ترکی کو جد ید فلاحی اور اسلامی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔ طیب اردوان نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کا23.5 ارب ڈالر کا ملکی قرضہ زیرو کیا اور ورلڈ بینک کو پانچ ارب ڈالر قرضہ دیا۔

تعلیمی نظام میں اصلاحات کیں۔ جن اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد 65 ہزارتھی ، وہ 8 لاکھ تک پہنچ گئی ، یو نیورسٹیوں کی تعداد 98 سے بڑھا کر 190کردی۔ ساری قوم کیلئے گرین کارڈ کا اجراء کیا جس کے تحت کسی بھی ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں ہمہ وقت مفت علاج کی سہولت دی گئی۔ 12 برس میں ہوائی اڈوں کی تعداد 26 سے 50کردی۔ 2002ء سے 2011ء کے درمیان ترکی میں 13500 کلومیٹر طویل سڑکیں بنیں جبکہ2009ء میں ترکی میں تیز رفتار ریل گاڑیاں چلنے لگیں اور 1076 کلو میٹر لمبی نئی ریلوے لائن بچھائی گئی ۔

تعلیمی بجٹ 7.5 ارب لیراسے بڑھا کر 34 ارب لیرا ہوگیا۔
ترکی کو آلودگی سے پاک، جرائم سے پاک، مافیا سے پاک اور رواں دواں ٹر یفک والا ملک بنانا اردوان کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے پانی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کی اور بلوں میں بھی نمایاں کمی کیا۔ ترکش ائیر لائن یورپ کی بہترین اور دنیا کی ساتویں بڑی ائیر لائین بن گئی۔ اقتصادی لحاظ سے ترکی 111 نمبر پر موجود تھا اسے 16 ویں نمبر پر پہنچادیا۔

تر کی پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20 ممالک کے گروپ 20-Gمیں شامل ہوا2013ء میں ترکی کی سالا نہ قومی پیداوار 1100 ارب ڈالر تک جاپہنچی تھی۔ پہلے ایک عام ترکش کی سالانہ آمدن 3500 ڈالرتھی اب وہ آمدن بڑھ کر 11 ہزار ڈالر تک بن گئی ہے۔
ترکی میں اقتصادی خوش حالی کے نتیجے میں لوگوں کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ ترکی کا بجٹ خسارہ جو بڑھ کر 47 ارب تک پہنچ گیا تھا، اس کو ختم کردیا۔

اس وقت یورپ میں فروخت ہونے والے الیکٹرانک سامان میں سے ہر تیسرا سامان ترکی کا تیار کردہ ہوتا ہے۔2023ء وہ سال ہے جس کے بارے میں طیب اردوان نے اعلان کیا کہ ترکی اس سال دنیا کی سب سے پہلی اقتصادی، سیاسی اوردفاعی قوت بن جائے گا۔ اردوان نے جب 2002ء میں اقتدار سنبھالا تھا تو ترکی اپنی دفاعی صنعت کی ضرورت کا میں فیصد خود تیار کرتا تھا لیکن اب یہ شرح 65فیصد تک جا پہنچی ہے۔ یہ وہ کارنامے ہیں جن سے کسی آمریت کی نہیں بلکہ اخلاص اور محب وطن ہونے کی خوشبو آتی ہے۔ انہی خدمات نے اردوان کو ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

na qabil yaqeen taskheer erdogan ka usmani thapar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 July 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.