ناگہانی آفت پر سیاست سے گریز کی ضرورت

عید سے ایک روز قبل احمد پور شرقیہ میں جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی اور اب تک کی خبروں کے مطابق کوئی ایک سو ساٹھ کے قریب بچے، بوڑھے، جوان، خواتین و مرد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور جو افراد زیرعلاج ہیں ان میں اکثریت کی حالت قابل تشویش ہے۔ سانحہ احمد پور شرقیہ نے پوری قوم کو سوگ کی تصویر بنا دیا۔

ہفتہ 1 جولائی 2017

Naghani Afat Per Siasat Se Gurez Karne Ki Zarorat
احمد کمال نظامی:
عید سے ایک روز قبل احمد پور شرقیہ میں جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی اور اب تک کی خبروں کے مطابق کوئی ایک سو ساٹھ کے قریب بچے، بوڑھے، جوان، خواتین و مرد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور جو افراد زیرعلاج ہیں ان میں اکثریت کی حالت قابل تشویش ہے۔ سانحہ احمد پور شرقیہ نے پوری قوم کو سوگ کی تصویر بنا دیا۔فیصل آباد میں عید کے تمام اجتماعات میں علماء نے آئل ٹینکر کے اس ہولناک سانحہ اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے نتیجہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لئے خصوصی دعائیں کرائیں اور عوام نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

گویا فیصل آباد کے عوام نے غمزدہ دلوں کے ساتھ نہایت سادگی سے عید منائی۔ اپنی دعاوٴں میں اللہ تعالیٰ کے حضور استدعا کی وہ ہمارے ملک کو آفات سے محفوظ رکھے۔

(جاری ہے)

امن و سکون اور استحکام عطا فرمائے۔ فیصل آباد میں بعض مقامات پر نماز عید کے بعد سانحہ احمد پور شرقیہ میں جاں بحق ہونے والوں کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ زندگی میں حادثات رونما ہوتے ہیں یہ زندگی کا ایک جزو ہے اور حادثات کے بغیر زندگی اپنا سفر پورا نہیں کرتی۔

پنجاب حکومت اور خصوصی طور پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اس حادثہ کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے اور انہوں نے ذاتی طور پر امدادی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے دوبارہ دورہ بھی کیا اور ہرممکن طریقہ سے امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ کسی بھی نوعیت کے حادثہ کو سیاسی رنگ میں پیش کرنا اور اس سے سیاسی مفادات اٹھانا یہ بھی المیہ ہے لہٰذا بعض جیساکہ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی جائے حادثہ کا دورہ کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا رونا رویا ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کی لاشیں سستی ہیں۔

اس سے سیاست کی بو آتی ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی ناگہانی آفت آن پڑے کسی بھی حادثہ پر کسی ذی ہوش کو سیاست کرنا اور سکورنگ کرنا زیب نہیں دیتا۔ فیصل آباد کے عوام نے ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور نے اس بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ایسے غمزدہ ماحول میں ہمارے سیاست دانوں کو سیاست سے پرہیز ہی کرنی چاہیے پھر اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ ایسے حادثات تو قبل ازیں بھی رونما ہوتے رہے ہیں لیکن یہ حادثہ یوں المناک سانحہ کا درجہ اختیار کر چکا ہے کہ عید سے ایک روز قبل رونما ہوا۔

پاکستان کی تاریخ ایسی کوئی عید نہیں آئی جس نے پوری قوم کو خون کے آنسو رلا دیا ہو۔ آئل ٹینکر کے الٹنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن احمد پور شرقیہ کا سانحہ اس قدر خوفناک اور المناک ہے کہ ایک چنگاری بھڑکی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ زندگی میسر نہ رہی۔ متاثرہ خاندانوں کے گھروں کی داستانیں دلوں کو پگھلا رہی ہیں۔ کسی کا جوان بیٹا جن کے عید کے نئے کپڑے تیار پڑے تھے کفن اوڑھے بے حس و حرکت لیٹا ہے۔

کسی کی بچی کی من پسند رنگوں کی چوڑیاں کرچیاں بن کر ممتا کے سینے میں خنجر بن کراتر گئی ہیں۔ آہ و بکا ماتم زاری بین آنسو دکھ بھرے الفاظ کم پڑگئے ہیں۔ اس سانحہ کا المناک پہلو یہ ہے کہ جب آئل ٹینکر کے سلپ ہو جانے کی وجہ سے تیل سڑک پر بہنے لگا اور لوگ بڑی تعداد میں پٹرول جمع کرنے کے لئے وہاں پہنچ گئے۔ موٹروے پولیس کا کہنا ہے کہ منع کرنے کے باوجود لوگ باز نہ آئے۔

اس حادثہ کا یہ پہلو انتہائی توجہ طلب ہے کہ اس کا سبب خود عوام کی بے احتیاطی بنی اور بہتے ہوئے پٹرول کو جمع کرنے میں لوگوں نے جس غیر ذمہ داری کامظاہرہ کیا اس پر ہم افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ اس سانحہ پر وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اپنا دورہ مختصر کر کے فوری وطن واپس آئے اور سیدھے انہوں نے جائے سانحہ کا وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کے ہمراہ دورہ کیا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی تمام مصروفیات معطل کرتے ہوئے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے سانحہ احمد پور شرقیہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لئے امداد کا اعلان کرنے کے علاوہ عوام کو سادگی کے ساتھ عید منانے کی اپیل کی ہے جس کا بلا شبہ ہر پاکستانی کو ادراک ہونا چاہیئے۔
وزیر اعظم نوازشریف کے اہل خانہ میں سے اب ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔

جائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہون نے جے آئی ٹی پر الزام عائد کیا کہ اسے سوالات اور فائلیں باہر سے آ رہی ہیں ۔ کیپٹن (ر) صفدر نے سوالیہ انداز میں یہ بھی کہا کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور ان کے زیر کفالت افراد اور کمپنیوں کی ملکیت بارے تو تحقیقات ہو رہی ہیں آصف علی زرداری، محترمہ بے نظیر بھٹو کا نام لئے بغیر کہا کہ سرے محل کی کوئی بات نہیں کرتا اور نہ ہی کارگل کے مجرم کو کوئی پوچھتا ہے۔

اب جبکہ جے آئی ٹی کا سفر بھی ختم ہونے والا ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ اس نے 10جولائی کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کرنی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سابق وزیر داخلہ رحمان ملک بھی بطور گواہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے اپنی رپورٹ پیش کر چکے ہیں حالانکہ پانامہ کیس میں رحمان ملک کاکوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی جے آئی ٹی نے رحمن ملک کو طلب کیا تھا۔

جیساکہ بعض حلقے اس تاثر کا اظہار کر رہے ہیں اور برملا کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی کو ایک سلطانی گواہ کی تلاش ہے۔ سلطانی گواہ قانوناً وہی ہو سکتا ہے جو شریک جرم رہا ہو جبکہ رحمان ملک کی بھرپور کوشش ہے کہ جے آئی ٹی اسے سلطانی گواہ کا اعزاز بخش دے۔ اس میں رحمان ملک کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ رہی بات جے آئی ٹی کے تماشا اور مذاق ہونے کی تو میاں محمد نوازشریف کی اس رائے میں یوں وزن نظر آتا ہے کہ جے آئی ٹی نے ایک بار پھر میاں محمد نوازشریف کے دونوں صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نواز کے ساتھ مریم نواز کو بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے نوٹس جاری کر دیئے ہیں جبکہ میاں محمد نوازشریف کے کزن طارق شفیع بھی دوبارہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو رہے ہیں جن سے قبل ازیں تیرہ گھنٹوں تک تفتیش کی گئی ہے اور حیران کن بات ہے کہ جے آئی ٹی پر حیران کن الزامات سامنے آ رہے ہیں۔

جو جے آئی ٹی کو اور اس کی تمام کارروائی کو مشکوک بنا رہے ہیں۔جہاں تک تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور شیخ رشید احمد کا تعلق ہے انہیں بھی چاہیے کہ وہ جے آئی ٹی اور عدالت عظمیٰ پر اگر مکمل اعتماد رکھتے ہیں توانہیں اپنے تحریک انصاف کے کارکنوں کو سڑکوں پر آنے کی کال دینے جیسے بیانات نہیں دینے چاہئیں۔ ایسا کرنا جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے والی بات ہے اور یوں لگتا ہے کہ اگر جے آئی ٹی کا فیصلہ حکومت کے خلاف آیا تو تب بھی حکومت اور اس کی ہمنوا جماعتیں اور اگر حق میں آیا تو تحریک انصاف اس فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گی اور یہی وجہ ہے کہ مبصرین اور سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں ملک کا سیاسی درجہ حرارت ابرآلود ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Naghani Afat Per Siasat Se Gurez Karne Ki Zarorat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.