ناپائیدار آشیانہ

عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والے مغربی معاشرے میں عورت آج تک آزادی حاصل نہ کر پائی یہ اسلام ہی تھا جس نے عورت کو غلامی کی زندگی سے نجات دلا کر معاشرے میں اس کاوقار قائم کیا اسے عزت و توقیر عطا کی عورت کے وجود کو اس کے خاندان اور معاشرے کے لیے رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ بنایا

بنت مہر ہفتہ 7 مارچ 2020

napaidaar aashiyana
پاکستانی معاشرے میں بہت سی برائیاں زوال پذیر ہو چکی ہوتیں لیکن ناقدین کی بے جا اور بے تکی تنقید کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں ۔پچھلے ماہ 14 فروری کے دن کا بائیکاٹ کر کر کے اسے منانے والوں کو یاد دلایا گیا اور اب عورت مارچ جس کے بارے میں بہت سے لوگ انجان تھے اور جو جانتے تھے وہ بھی تقریبا فراموش کیے بیٹھے تھے لیکن تنقید برائے تنقید پر مشتمل ایک بیٹھک نے اس کی چنگاری کو ہوا دی جو شعلہ بن کر جلتے جلتے جنگل میں آگ کی مترادف پھیلا اور جو لوگ اس کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے ''مرضی'' والے فضول نعرے کے باعث الف سے ے ساری حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں ایک فارغ ترین قوم ہونے کے ناتے ہمیں ایسے ہی کسی موضوع کی تلاش رہتی ہے جسے پا کر ہم لوگ اپنا فارغ وقت شغل و تفریح میں ضائع کر سکیں اور ایسا مواد ہاتھ لگتے ہی سوشل میڈیا سے لیکر الیکٹرونک میڈیا تک ایک طوفان برپا کر دیتے ہیں اور اب بھی ایساہی ہوا تنقید برائے تنقید ی اس فضول و بے مقصدبحث نے اس بے حیائی پر مبنی فضول مارچ کی مقبولیت میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ اس کے شرکاء میں بڑی تعدا میں اضافہ کر دیا اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ کہ تنقید برائے تنقید کے اس کھیل میں ایسا کوئی نہیں جو معاملے کو ختم کرنے کے لیے اس پر بات کررہا ہو یا اصلاح کے لیے دلائل اور حقائق پیش کر سکے؟
اسلام اور آزادی کا نعرہ لگانے والے دو مخالف گروہوں کے بات کرنے کا اندازاور الفاظ کا چناؤ بد اخلاقی کی پستیوں کو چھو رہا ہے اسلام کا نام لیکر تنقید کرتے ہوئے فحاشی اور بدکلامی کی حدیں پار کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں فحش گوئی اور بدکلامی کی کوئی گنجائش نہیں جب جہالت کسی معاشرے کا حصہ بن جاتی ہے تو اس معاشرے میں تنقید برائے تنقید کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کسی کی رائے سے اختلاف کی صورت میں اس سے بدکلامی پہ اتر آنا جہالت کی زندہ مثال ہے جس کا مظاہرہ ہماری نوجوان اکثریت کر رہی ہے کسی سے اختلاف کی صورت میں دلائل اور حقائق پر مبنی جوابات دینا ایسا طریقہ ہے جسے ہم مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں اسی لیے تو ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے کسی کی اصلاح کرنے کے لیے اس کے سامنے اس کی برائی بیان کرتے ہوئے الفاظ کے چناؤ میں اخلاقیات کو فراموش کرنا کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتا اور خاص طور پر اس وقت جب آپ اسلام کا نام لے رہے ہوں ایسا انداز اسلام کے مہذب اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔

(جاری ہے)

 دوسری طرف آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو آزادی کے صحیح مفہوم کا آج تک اندازہ تک نہیں ہو پایا اگر ان کم فہم خواتین کو آزادی کا مطلب پتہ ہوتا تو اس نام نہاد عورت مارچ میں شرکت کر کے غلامی کی بدترین مثال قائم نہیں کرتیں حقوق کے لیے نکلنے والی یہ نام نہاد خواتین آزادی اور حقوق کی بات کرتے ہوئے تاریخ پہ نظر دوڑا لیں تو ان نعروں کی گنجائش ہی باقی نہ رہے یہودیت میں عورت کو گناہ کی طرف راغب کرنے والی اور فساد کی طرف لے جانے والی مخلوق سمجھا جاتا تھا، عیسائیت میں مرد کو خدا کی شان کا مظہر اور عورت کو مرد کی شان کا مظہر سمجھا جاتا تھاقرونِ وسطیٰ میں یورپ میں جادوگرنیوں کی آڑ میں جب عورت کے خلاف مہم جوئی ہوئی توچرچ نے ہی بتایا کہ جادوگرنیاں عورتیں تھیں کیونکہ ان کے جسم میں گناہ موجود رہتا ہے اور شیطان مرد کی نسبت انھیں جلد ورغلا کر اپنا آلہء کار بناسکتا ہے سو اس آڑ میں عورت ہی سولی پر چڑھی اور زندہ جلائی گئی۔

 اسلام عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم کے خاتمے کا پیغام بن کر آیا اسلام پہلا مذہب تھا جس نے عورت کی عزت و وقار کو بحال کر کے سب سے پہلے اسے بنیادی حقوق دیے دنیا بھر میں سب سے پہلے اسلام نے عورت کے حقوق کی بات کی اس کے بعد دنیا کے دیگر مذاہب و ممالک کو بھی ہوش آ گیا اور وہ حقوق نسواں کے نعرے لگانے لگے ممتاز یورپی مصنف پروفیسر ڈی ایس مار گولیوتھ جو اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ دشمنی، بہتان تراشی، اعتراضات اور الزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، اس نے پیغمبر اسلامﷺ کی سیرت طیبہ میں جو کتاب Life of Muhammad(S.A.W.W)کے نام سے تصنیف کی اس میں من گھڑت اعتراضات کا طوفان بپا ہے لیکن ایک موقع پراس نے حقیقت کا اعتراف اس طرح کیا ہے کہ دور جاہلیت میں عرب تو ایک طرف رہے عیسائیت اور ہندومت میں بھی یہ تصور نہ کیا جا سکتا تھا کہ عورت بھی صاحب حیثیت اور صاحب جائیداد ہو سکتی ہے، یہ مذاہب عورت کو اس بات کی اجازت ہی نہ دیتے تھے کہ وہ مرد کی طرح معاشی اعتبار سے خوشحال ہوسکے۔

عورت کی حقیقی حیثیت ان مذاہب اور ثقافتوں اور معاشروں میں ایک باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم و کرم پر اپنی زندگی بسر کرتی تھی، محمدﷺ نے عورت کو آزادی عطا کی، خود مختاری دی اور اسے خود اعتمادی سے جینے کا حق دیا۔
معروف فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاؤلی با ن ”اسلام کا اثر مشرقی عورتوں کی حالت پر“ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: اسلام نے مسلمان عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا۔

انہیں ذلت کی بجائے عزت و رفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہمکنار کیا چنانچہ قرآن کا قانون وراثت و حقوق نسواں یورپ کے قانون وراثت وحقوق نسواں کے مقابلے میں بہت زیادہ مفید اور زیادہ وسیع اور فطرت نسواں سے زیادہ قریب ہے۔ای بلائیڈن کا بیان ہے: سچا اور اصل اسلام جو محمدﷺ لے کر آئے اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کیے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے۔

آئر ینا ایڈلکس رقمطراز ہے: محمدﷺ نے تین چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا، نمازو روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپﷺ کے لیے قابل احترام تھی اس معاشرے میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کر دیتے تھے محمدﷺ نے وہاں عورت کو جینے کا حق دیا۔ پروفیسر کرشناراؤ نے محسن انسانیتﷺ کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب تصنیف کی۔ اسلام اور جدید تہذیب کا مطالعہ کرنے کے بعد پروفیسر موصوف اپنی کتاب (Muhammad the prophet of islam) میں لکھتے ہیں: اسلام کی یہ جمہوری روح ہے جس نے عورت کو مردوں کی غلامی سے نجات دلائی۔

 نسوانیت پرستی کی اصطلاح فرانسیسی زبان کے لفظ Feminismسے ماخوذ ہے۔ اسے سب سے پہلے ایک یوٹوپیائی سوشلسٹ چارلس فوریئر نے استعمال کیا تھا مگر انگریزی زبان میں یہ اصطلاح 1890ء کی دہائی میں رائج ہوئی۔ عام طور پر اسی دور کو ہی نسوانیت پرستی کی ابتدا کا دور سمجھا جاتا ہے روس کے ایک سابق وزیر اعظم گوربا چوف نے اپنے پروسٹرائیکا میں بھانڈا پھوڑا کہ اصل بات یہ ہوئی کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں قتلِ عام ہوا، لاکھوں کروڑوں افراد مارے گئے۔

افرادی قوت کا خلا پیدا ہوگیا۔ فیکٹریاں بندہو گئیں دفتر خالی ہو گئے سکول ویران ہو گئے، گوربا چوف کے الفاظ ہیں کہ ہم نے اپنی افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت سے یہ کہا کہ تمہیں ہم برابر کے حقوق دیتے ہیں تم گھر سے باہر نکلو اور فیکٹری، دفتر اور سکولوں میں آؤ اور ہمارے لیے کام کرو یعنی گھر کا کام بھی کرو اور باہر کا بھی۔ ہم عورت کو ورغلا کر گھر سے باہر لائے، ہم نے یہ کام کرکے اپنی افرادی قوت کے خلا کو تو پر کر لیا مگر ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا۔

گورباچوف کہتا ہے کہ اب ہم چاہتے ہیں وہ واپس گھر چلی جائے اور اپنے گھر کا نظام سنبھالے لیکن ہمیں کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ ایک امریکی مصنفہ این جانز کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں ہر سال بارہ ہزار بیویاں شوہروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ قتل کی سزا زیادہ سے زیادہ چھ سال ہوتی ہے لیکن مسلسل ظلم و ستم سے تنگ آکر کوئی عورت مرد کو قتل کردے، تو عورت بیچاری ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال تک جیلوں میں سڑتی رہتی ہے۔

 نیشنل سنٹرٹیکس اور نیشنل مائنل ٹیکس سسٹم نے حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ میں ہر سال دس سے چوبیس سال کی عمر میں 931670 لڑکیاں شادی سے پہلے مائیں بن جاتی ہیں۔شدید ذہنی صدمات کے نتیجے میں امریکہ میں کم از کم ستر ہزار عورتیں ہر سال حرکت قلب بند ہوجانے سے یا دماغ کی رگ پھٹ جانے سے یکایک مر جاتی ہیں امریکہ میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق مادر پدر آزادامریکہ کی ہر چوتھی عورت کو اپنے شوہر یا بوائے فرینڈ سے زدو کوب ہونا پڑتا ہے اور بعض اوقات پٹائی کی شدت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بیچاری عورتیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والے مغربی معاشرے میں عورت آج تک آزادی حاصل نہ کر پائی یہ اسلام ہی تھا جس نے عورت کو غلامی کی زندگی سے نجات دلا کر معاشرے میں اس کاوقار قائم کیا اسے عزت و توقیر عطا کی عورت کے وجود کو اس کے خاندان اور معاشرے کے لیے رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ بنایا۔مسز اینی بیسنٹ (The life and the teaching) میں اسلام میں عورت کی حیثیت، مقام اور حقوق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: یاد رکھیے! اسلام کا قانون موجودہ زمانہ تک جب کہ اس کے اجزاء پر انگلینڈ میں بھی عملدرآمد شروع ہو گیا ہے سب سے زیادہ منصفانہ قانون ہے۔

اس قانون میں جہاں تک جائیداد کا تعلق ہے یا طلاق کے معاملات طے کرنا ہے یہ مغربی قوانین سے بہت سبقت لے جا چکا ہے۔ اسلامی قانون کے تحت عورتوں کے عام حقوق کو وسیع تر کر دیا گیا ہے بہ نسبت ان قوانین کے جنہیں آج ہم قانون خیال کرتے ہیں۔
 مغرب کی تہذیبی اقدار کے مثالی مرکز انگلستان میں عورتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بی بی سی کی جانب سے18 فروری 2003 کو پیٹر گلاؤڈ کی " گھریلو تشدد کا پیمانہ بے نقاب" کے زیر عنوان ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ78 فیصد مردوں اور عورتوں نے کہا کہ اگر ان کے پڑوس میں کوئی شخص اپنے پالتو کتے کو پیٹ رہا ہو گا تو وہ پولیس کو اطلاع دے کر اسے بچانے کی کوشش کریں گے جبکہ گھر کے کسی مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا دوست عورت پر تشدد کیے جانے کی صورت میں پولیس کو اطلاع دینے پر صرف53 فیصد نے آمادگی ظاہر کی۔

انگلستان کی 54 فیصد عورتیں کسی نہ کسی نوعیت کے گھریلو تشدد کے تجربے سے گزرتی ہیں ہر سال کم از کم 80 ہزار عورتیں زنا بالجبر کا نشانہ بنتی ہیں ۔مغربی تہذیب نے عورت اور مرد کے فطری دائرہ کار ،جسمانی تقاضوں ،نفسیاتی اور جذباتی مطالبات کے کھلے فرق کو نظر انداز کر کے زندگی کے ہر میدان میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے کی جو غلطی کی تھی اس غلطی نے مغرب کی عورت پر یہ حقیقت روشن کر دی ہے کہ آزادی کے نام پر یہ سودا بہت مہنگا ہے پالتو کتے کو عورت پر ترجیح دینے والے اس غلیظ نظام نے مغربی عورت میں اسلام کی مقبولیت کو بہت تیزی سے بڑھادیا ہے مغربی عورت بھی یہ حقیقت جان گئی ہے کہ اسلامی تعلیمات عورت پر بغیر کوئی معاشی ذمہ داری عائد کیے محبت و عزت اور احترام کا وہ مقام دیتی ہیں جس کا کوئی تصور بھی مغرب میں نہیں پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی عورتیں بہت تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہو رہی ہیں 4 جنوری 2011 کو برطانوی روزنامہ انڈیپینڈنٹ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پچھلے دس سال میں برطانیہ میں مسلمان ہونے والے انگریزوں کی تعداد دوگنی ہو گئی اور رپورٹ کے مطابق مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں بھاری اکثریت عورتوں کی ہے۔

برطانیہ کی طرح ہی امریکہ میں بھی قبول اسلام کے حیرت انگیز رجحان کے متعلق تین امریکی اسکالروں کی ایک مشترکہ تحقیقی تصنیف میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد ہر سال اوسطاََ بیس ہزار امریکی مسلمان ہو رہے ہیں جس میں عورتوں کا رتناسب مردوں کے مقابلے میں تقریباََ ایک نسبت چارہے مغرب کی عورتوں میں بڑھتی اسلامی تعلیمات کی مقبولیت نے مغرب کو بوکھلا کر رکھ دیا اور اس مقبولیت کو کم کرنے کے لیے مغرب نے حقوق نسواں کا نعرہ بلند کیا جس کی گہرائی میں جائے بغیر مسلمان عورتوں نے ان کی اندھی تقلید کرتے ہوئے خود کو دوبارہ غلامی کی طرف دھکیل رہی ہیں
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو ارباب نظر موت 
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہء زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

napaidaar aashiyana is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 March 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.