نئی شاہراہ ریشم

چین کے ساتھ ساتھ خطے کی خوشحالی باعث بنے گی۔۔۔ چین اور پاکستان کے درمیان تاریخی گزرگاہ کو شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے جس نے تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ہے۔ اسے دیکھ کر ایسالگتا ہے جیسے ایک بڑا دریا اور چھوٹی چھوٹی نہریں دنیا کو سیراب کر رہی ہیں۔

پیر 9 مئی 2016

Nayi Shahrah e Raisham
چین اور پاکستان کے درمیان تاریخی گزرگاہ کو شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے جس نے تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ہے۔ اسے دیکھ کر ایسالگتا ہے جیسے ایک بڑا دریا اور چھوٹی چھوٹی نہریں دنیا کو سیراب کر رہی ہیں۔
شاہرا ریشم کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسے (330-500)قبل مسیح کے درمیانی عرصے کے دوران تعمیر کیا گیا۔ یہ 4000 میل طویل شاہراہ ہے یہ چین، بھارت ، وسطی ایشیا، مصر، براعظم افریقہ،یونان، روم اور برطانیہ کو باہمی طور پر ملاتی ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ دنیاکو گلوبل ویلج میں تبدیل کرنیوالا پہلا ذریعہ شاہراہ ریشم ہی ہے اسے سلک روڈ بھی کہاجاتا ہے۔ 1877 میں ایک جرمن جیوگرافر نے اسے سلک روڈ کا نام دیا۔ اس روٹ سے مختلف سیاح اور تاجر سفر کیا کرتے تھے۔ اس پر سب سے زیادہ سلک کے کپڑے کی تجارت ہوتی تھی جو ایک شاندار اور معیار ی کپڑا تھا اور سنٹرل اشیاء کے تاجروں کیلئے نہایت پرکشش تھا۔

(جاری ہے)

وہ گھوڑوں ، گدھوں اور خچروں پر سلک لاد کر لاتے تھے۔
اسی شاہراہ کے ذریعے کلچر ، آرٹ ، فلسفہ اور علوم وفنون کا تبادلہ بھی ہوا۔ ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی، زبان اور تہذیب سے لوگ آشنا ہوئے۔ اسکے علاوہ اس راستے سے بیماریوں نے بھی سفر کیا اور پوری دنیا میں پھیل گئیں۔اس شاہراہ کا نام چینی ریشم کی وجہ سے شاہراہ ریشم پڑا۔ اس پر ہندوستان، صومالیہ ، روم اور یونان کے باشندے سفرکیا کرتے تھے۔

مارکو پولو بھی اس گزرگاہ سے چین پہنچا۔ اسلام کے عروج پر عربوں نے بھی اسی شاہراہ کو رونق بخشی۔
رفتہ رفتہ سمندری راستوں کے فروغ کی وجہ سے شاہراہ ریشم کی افادیت ختم ہوتی گئی۔ جب مغرب نے مشرق پر یلغار کی تو پرانے راستے بارود کے دھوئیں اور گردوغبار سے اٹ گئے۔ دنیا میں عظیم جنگیں برپا ہوئیں۔ پرانی شاہراہوں کے نام و نشان مٹنے لگے مگر آج پھر دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔


چین کی باشعور قیادت نے قدیم تاریخی رابطوں اور راستوں کو زندہ کر نے کا عہد کر رکھاہے۔ شاہراہ ریشم کی نئی ساخت اور نئی دریافت کا نظریہ اسی نئے شعور اور عصری شناخت سے جنم لیتا ہے۔ سلک روڈ اکنامک بیلٹ کے معاہدے کے تحت مغربی چین سے وسطی ایشیاء اوروہاں سے یورپ تک سڑکیں ریلوے لائنیں، ہوائی اڈے اور بندرگاہیں تعمیر ہونگے۔
دوسری طرف یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ چین کا اقتصادی راہداری کا نظریہ اصولی طور پرنہر سویز تک جا پہنچا ہے اور پاکستان سے لیکر مصر تک راستے میں پڑنے والے تمام بڑے ممالک نہ صرف اس کی تائید کر چکے ہیں بلکہ ضروری معاہدوں پر دستخط بھی کر چکے ہیں۔

چین کی نظر افغانستان اور مرکزی ایشیاء کی ریاستوں پر بھی ہے۔ اسکی حکمت عملی سے تمام ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔
پاکستان کو اس منصوبے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ شاہراہ ریشم کو ایک بار پھر دنیا پر اپنی اہمیت کی دھاک بٹھانی ہے۔ نئی شاہراہ ریشم دنیا کی ترقی میں پرانی شاہراہ ریشم سے بھی زیادہ اہم کر دار ادا کرے گی۔ایسا لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔

چینی صدر اس سلسلے میں مشرق و سطی کو اعتماد میں لے چکے ہیں وہ سعودی عرب ، مصر، ایران کے ساتھ دیرپا اور مستحکم تعلقات کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت مشرق کو عروج پر پہنچا دے۔ مشرق جو اس وقت خط غربت کا شکار ہے آنے والے دنوں میں مغرب کو مات دے جائے کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ہے۔ جغرافیائی سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض حقائق اور حکمت عملی ایسی حیران کن تبدیلیاں برپا کرتی ہیں کہ کوئی اسکاادراک نہیں کر پاتا۔

یہ تبدیلیاں قوموں کا مستقبل تبدیلی کر دیتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا مسلسل تبدیلیوں کی زد میں رہتی ہے۔ چین مشرقی وسطی کے ساتھ ساتھ روس سے بھی کئی معاہدے کر چکا ہے کیونکہ چین کو اپنی معاشی ترقی کے لیے کثیر مقدار میں ایندھن درکار ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال روس فرام کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک 2020 تک باہمی تجارت کی مالیت 1200 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔


چین اور روس کی یہ بھی تمناہے کہ دنیا پر مغربی اجارہ داری ختم ہو جائے۔ چین کے ایما پر ہی روس پاکستان کے قریب آرہا ہے۔ عسکری، معاشی اور ثقافتی سطح پر پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔ روسی یونیورسٹیاں پاکستانی طالب علموں کو سکالر شپ دے رہی ہیں۔ پاکستانی تاجر بھی روس کا رخ کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے چین اور روس کی نظر میں پاکستان کی اہمیت دوگنی ہو چکی ہے۔

ایسے میں پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ پاکستان سے غربت و جہالت ختم کر کے اسے طاقتور ملک بنائیں۔ پاکستان ناکام ملک نہیں بلکہ یورشیا کو اس سے نہایت اہم امیدیں وابستہ ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں روس، وسطی ایشیا ، ایران، سارک ممالک اور چین جیسی عظیم معاشی طاقتوں کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ شاہراہ ریشم چین پاکستان اور خطے کی ترقی وخوشخالی کا پیام لے کر آئی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nayi Shahrah e Raisham is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 May 2016 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.