اولڈ ایج ہوم

کہا جاتا ہے کہ وہ گھر گھر نہیں ہوتا جہاں بچّے اوربُزرگ نہ ہوں۔ زندگی انہی کے دم سے روشن ہوا کرتی ہے۔ پھر یہ کیسے مُمکن ہے کہ کوئی خود اپنے ہی ہاتھوں اس روشن چراغ کو بُجھادے۔۔۔۔؟

ہفتہ 4 جنوری 2020

old age home
تحریر: ملیحہ سایانی

"اولڈ ایج ہوم" معاشرہ کا وہ ناسور ہے جسے میں اور آپ ہم سب چاہ کر بھی ختم نہیں کرسکتے یا شاید ختم کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اولڈ ایج ہوم کا تصور ویسے تو مغربی مُمالک میں پیدا ہوا مگر دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی روایت بنتا چلا گیا یعنی اس کا دائرہ مغرب سے زیادہ مشرق میں وسیع ہوتا چلا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ وہ گھر گھر نہیں ہوتا جہاں بچّے اوربُزرگ نہ ہوں۔ زندگی انہی کے دم سے روشن ہوا کرتی ہے۔ پھر یہ کیسے مُمکن ہے کہ کوئی خود اپنے ہی ہاتھوں اس روشن چراغ کو بُجھادے۔۔۔۔؟؟؟ تلخ حقیقت ہے مگر ہے تو سچ ہی جسے ہم سب جانتے بُوجھتے نظر انداز کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ والدین یا بُزرگوں کو اولڈ ایج ہوم بھیجنے کے سو طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی دلیلیں بھی بڑی ڈھیٹائی سے پیش کی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس پر ستم ظرفی اور بے حسّی اتنی کہ اُنہیں وہاں خود چھوڑ کر جانے والے پلٹ کر خیر خیریت پوُچھنے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ صد افسوس ایساکرنے والے شاید فطرت کے اس قانون کو یکسرفراموش کردیتے ہیں کہ یہ "دنیا مکافاتِ عمل" ہے۔جیسا کرینگے عنقریب ویسا ہی پاینگے۔
 آج والدین کواولڈ ایج ہوم بھیجنے پر مجبُور ہونے والے کل خودلاچارگی اور بے بّسی کا نشانہ بنیں گے۔

کوئی کیسے اتنابے رحم، بے حِّس بن جاتا ہے کہ اپنے عزیز اپنے پیاروں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟؟؟ کیا واقعی طا قت اور دولت کا نشہ خونی رشتوں کا خون کردیتاہے۔۔۔؟؟؟انسان کا بھی کوئی جواب نہیں۔ جب خود کمزور اورشیرخوار بچّہ ہوتا ہے تو ماں باب اس کو پال پوس کر اس کی تربیت کر کے اسے معاشرہ کا ایک قابل شخص بناتے ہیں مگر پھر اسی قابل شخص کو ان کا وجود اپنی راہ کانٹامحسوس ہونے لگتا ہے۔

یک دم ان کی موجودگی چھُبنے لگتی ہے۔ تھک ہار کر اسے اولڈ ایج ہوم ان کے لیے بھلالگنے لگتا ہے۔ نادان یہ نہیں جانتا کہ انسان کو سکون صرف اس کے اپنے گھر میں اپنوں کے درمیان ان کیساتھ رہ کر ملا کرتا ہے۔ زندگی گُزارنے کے لیے جواعتماد اور تحفُّظ درکار ہوتا ہے وہ اہنی چھت اپنے گھرکے علاوہ کسی اولڈ ایج ہوم میں مل ہی نہیں سکتا۔
بُوڑھاپے میں والدین کو سنبھالنا، ان کی دل وجان سے خدمت کرنا، ان کی دل آزاری سے بچنا اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ دینا بے شک ایک صبر آزماں کام ہے بلخصوص آج کی بے ہنگم اور افراتفری والی زندگی میں جہاں عدم برداشت معاشرہ کی رِوش بن چُکی ہے۔

مگر یقین مانیے کوئی بھی چیز نا مُمکن نہیں خود "نامُمکن" میں بھی "مُمکن" پوشیدہ ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ غلط کو غلط مان کر صحیح راہ چُنی جائے اورطے کرلیا جائے کہ والدین یا بُزرگ "سر کے تاج" ہوتے ہیں اُنہیں کسی صورت اولڈ ایج ہوم کی ڈھول نہ بنّنے دیاجائے۔ اس عزم کے ساتھ نہ صرف کئی اُجڑے ہوئے گھروں کو دوبارہ آباد کیا جا سکتا ہے بلکہ اولڈ ایج ہوم میں مُقیم لاکھوں افراد میں اُمید کی کرن بھی روشن کی جا سکتی ہے۔"اپنے حصے کی شمع تو ہر ایک کو روشن کرنی چاہیے کیا خبر اس سے تاریک رات روشن صُبح میں تبدیل ہوجائے۔"

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

old age home is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 January 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.