پاک افغان نئی قربتوں کے خلاف بھارتی لابی پھر متحرک!

اشرف غنی کے ممکنہ دورہٴ پاکستان پر بھارت میں سوگ کا سماں افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی تمام کوششوں کوامریکہ اور بھارت نے پورا نہیں ہونے دیا

بدھ 18 اکتوبر 2017

Pak Afghan naii Qurbatoo k khilaf Bharti Labi phir Mutharik
محمد رضوان خان:
پاک افغان تعلقات کئی ماہ کی سرد مہری کے بعد پھر بحال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جن کا مثبت اثر پاکستان اور افغانستان کے پاکستان دوست حلقوں میں بھی محسوس کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان کے اندر اور نئی دہلی میں ہندوستان نواز لابی پر سوگ کی کیفیت طاری ہے، یہ لابی اب ا س بات کی کوشش میں مصروف ہے کہ کس طرح اس بڑھتی قربت کو روکا جائے ، یہ قربت اس وقت سامنے آئی جب حال ہی میں پاکستانی فوج کہ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقاتیں کیں جبکہ انہوں نے اشرف غنی سے ون آن ون ملاقات بھی کی ، اس ملاقات کے دو روز بعد افغان حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ اشرف غنی جلد ہی پاکستان کا دورہ کریں گے۔

(جاری ہے)

افغان حکومت کی طرف سے اشرف غنی مخالف لابی نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ پاکستان کے اوپر اس وقت امریکہ سمیت دنیا بھر کا دباؤ تھا اس لئے پاکستان کی عسکری سیاسی قیادت نے افغانستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے ، جنرل باجوہ ایک نئے ویژن کے ساتھ افغانستان گئے تھے اس لئے ان کی بات کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے غیر جانبدرانہ حلقے، جنرل باجوہ کے اس دورے کی نہ صرف تعریف کررہے ہیں بلکہ انہوں نے افغانستان میں جس انداز سے پاکستان کی طرف سے التوا میں پڑے امور کو نمٹانے کی ضمانت دی ہے اس کو بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔

افغان حکومت کھلے عام یہ بات کر رہی ہے کہ پاکستان کو اگر ان کی ضرورت ہے تو اس سمت میں پیش رفت اسی وقت ممکن ہوگی جب پاکستان ماضی میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرے گا، ان وعدوں کی تفصیل تو سامنے نہیں آئی لیکن ماضی میں پاکستان نے جو وعدے کئے تھے ان میں سب سے ا ہم وعدہ یہی تھا کہ پاکستان نے کہا تھا کہ وہ کوشش کرے گا کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کو دوبدو مذاکرات کیلئے بٹھائے گا۔

پاکستان کی ان کوششوں کو بھارت اورامریکہ نے پورا نہیں ہونے دیا امریکہ نے ڈرون حملہ کرکے ملا منصور کو مروایا تھا تو اس سے پہلے بھارتی لابی نے عین اس وقت جب افغان حکومت اور طالبان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار تھے تو ملا عمر جن کا انتقال 2 برس پہلے ہوچکا تھا کے مرنے کی خبرلیک کردی گئی اس خبرکو لیک کرنے کا مقصد کچھ اور نہیں بلکہ مذاکرات کو روکنا تھا جس میں افغانستان کے امن کے دشمن کا میاب ہوگئے تھے۔

دوسری طرف پاکستان کی حدود میں جس طرح ملا عمر مجاہد کے جانشین ملا اختر منصور کو ڈرون میں مارا گیا اس میں تو کسی بحث کی اس لئے ضرورت نہیں کہ یہ ڈرون حملے پاکستان میں کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ ہی کررہا ہے، اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے افغانستان کے امن کے بارے میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بھارت اور امریکہ دونوں اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ وہاں امن ہو۔

افغانستان میں امن ہوتو پھر وہاں امریکہ کی موجودگی کا جواز بنتا ہے اور نہ ہی تعمیر نو کے پردے میں افغانستان بھارت کو اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ پاک افغان سرحد پر ڈیرے ڈالے سردست تو افغانستان بھی یہ دیکھ رہ ہے کہ بھارت پاک افغان سرحد پر بیٹھ کر جو بھی کررہا ہے اس سے اس لئے صرف نظر برتا جاتا ہے کہ افغان بھی چاہتے ہیں کہ بیرونی دنیا سے امداد آتی رہے، دوسری طرف امریکہ اور بھارت کیلئے پرامن افغانستان نہیں بلکہ ایک ایسا افغانستان درکار ہے جہاں غیر یقینی اس درجے کی ہو کہ وہ دھڑلے سے افغانستان میں براجمان رہیں اور ساتھ ہی ان کاکام بھی چلتا رہے، اب تو افغان حلقے بھی کم از کم امریکہ کے بارے میں یہ بات کھلے عام کہنے لگے ہیں امریکہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن قائم ہو، یہ بات صرف افغانستان کے عوام کے لبوں پر ہی نہیں بلکہ ان دنوں سابق افغان صدر حامد کرزئی جس انداز سے امریکہ کو اس کی نئی افغان پالیسی پر رگیدرہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور اس کا ذکر آگے چل کر تفصیل سے کیا جائے گا۔

افغانستان کے تمام مقتدر طبقوں میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ بھارت کو افغانیوں سے زیادہ افغانستان میں اس بات کی دلچسپی ہے کہ وہ کس کس طریقے سے پاکستان کو تنگ کر رہا ہے ، یوں افغانستان کی اس بے یقینی کی وجہ سے ہی ہندوستانی پاکستان کی مغربی سمت میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ پاکستان نے اس بات کا شکوہ افغان قیادت سے بھی کیا ہے جبکہ وطن واپسی پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کے دورے سے متعلق عسکری قیادت کو باقاعدہ برف بھی کیا جس کیلئے ساتھ گھنٹے پر محیط سپیشل کو ر کمانڈرز کا نفرنس بھی ہوئی ، اس اہم کانفرنس میں جنرل باجوہ نے جہاں اپنے دورہٴ افغانستان کی تفصیل دی تو ساتھ ہی پوری عسکر ی قیادت کی طرف سے دنیا بھر پر یہ واضح کردیا گیا کہ پاکستان کو افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار ناقابل قبول نہیں، اس دورے کے دوران جنرل باجوہ نے افغان حکام کو یقین دھانی کرائی کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے صدر اشرف غنی سے کہا تھا کہ پاکستان او ر افغانستان دوست ممالک ہیں اور دونوں کو پائیدار امن واستحکام کیلئے مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ طویل مدتی امن سے متعلق مشترکہ خطرات کے خلاف تعاون، انسداد دہشت گردی اور غیر ریاستی عناصر کے حوالے سے انٹیلی جنس شیئرنگ ، تجارت اور عوامی روابط سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اہم بات یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ مفادات کے حصول کیلئے تربیت اور استعداد کا ر بڑھانے کیلئے پاکستان کی جانب سے مکمل تعاون کی پیشکش کی۔ یاد رہے کہ افغان فوج کی پیشہ ورانہ تربیت بھارتی فوج نے کی تھی یہ فوج اس قدر” قابل“ ہے کہ تخت کابل کی حکمرانی دارلحکومت سے باہر نہ نکال سکی اسی لئے جنرل باجوہ نے پیشکش کی وہ افغان فوج کی رہنمائی کیلئے تیار ہیں۔

افغانستان میں حالات یہ ہیں کہ امریکہ اور بھارت جنگ وخانہ جنگی سے تباہ حال اس ملک کو اپنے انداز سے چلانا چاہتے ہیں جس کے بارے میں ابھی بات ہوئی کہ جوں جوں وقت گزررہا ہے توں توں افغان عوام بھی جان گئے ہیں کہ امریکہ کھل کر جبکہ بھارت پس پردہ رہ کر افغانستان کی سرزمین کو صرف اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ افغان عوام ان حالات کو بھانپ گئے ہیں لیکن اس بارے میں کھل کر جو آواز سامنے آئی ہے وہ آواز افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی کہ میں یہی چاہتا ہوں کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں دوبھائیوں کی طرح مل بیٹھیں اور پاکستان سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اب اس سارے معاملے کو سمجھے اورا فغانستان کے ساتھ دوستی اور تعاون بڑھائے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ کے حالیہ دورہ افغانستان پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید تو ہے کہ یہ دورہ قیاامن کے لئے اہم اور مثبت ثابت ہوگا اور وہ سے اسی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ حامد کرزئی نے مزید کہا کہ ہم ایسا نہیں کہہ رہے کہ ایران، روس اور چین نے افغانستان میں میدان جنگ بنایا ہوا ہے ، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کی نئی پالیسیاں اور روش کی وجہ سے خطے کے ممالک اب شک میں مبتلا ہیں کہ امریکہ کیا کررہا ہے افغانستان میں حالات دن بدن کیوں خراب ہوتے جارہے ہیں، ہم پاکستان کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان ہمارا بھائی ہے اور لازم ہے کہ ہمارے مضبوط رابطے اور رشتے رہیں۔

حامد کرزئی نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے اندر جن حملوں کی بات کی گئی ہے وہ ان حملوں کے حامی نہیں ان کا کہنا تھا کہ نہیں ہم نے کبھی نہیں کہا کہ پاکستان کے خلاف ملٹری ایکشن ہونا چاہیے وہ ہم نہیں چاہتے، ہم پاکستان کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں لیکن پاکستان کو بھی افغانستان کے ساتھ ایک باعزت اور خود مختار ملک جیسا سلوک کرنا ہوگا۔

سابق صدر حامد کرزئی کی طرف سے تو اشرف غنی کے دورہ پاکستان کے بارے میں کافی حوصلہ افزا باتیں کی گئی ہیں لیکن اس وقت افغانستان کے اندر اشرف غنی کے خلاف جس جس انداز سے محاذ کھو لے گئے ہیں ان کے ذریعے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اشرف غنی کو پاکستان کے دورے سے روکا جائے۔ اشرف غنی پر اس دورے کے اعلان کے بعد سے دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ نئے مشیروں کے بہکاوے میں آکر کیا ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ یہ باتیں اور کوئی نہیں بلکہ خود ان کی کابینہ کے وزیر خزانہ عقیل شارق کررہے ہین ان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی تو پاکستان کو پہلے ہی آزما چکے ہیں پھر اب کون سی تبدیلی آئی ہے جو وہ بھاگے بھاگے پاکستان جارہے ہیں موصوف نے اس ضمن میں کوئی نام بھی نہیں لیا کہ اشرف غنی کون سے نئے مشیر سے مجبور ہوئے البتہ ان کی باتوں سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے افغانستان کے اقتدار کا یہ حلقہ چاہتا ہے کہ پاکستان سے بالکل منہ موڑ لے ان میں وہ عناصر بھی شامل ہیں جو افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے گروپ کے لوگ ہیں۔

ان حلقوں کا اولین فرض عین سمجھتے ہیں، یہ مخالفت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اشرف غنی حال ہی میں جھلا کر یہ کہہ دیا کہ ان کاکام دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ اشرف غنی کے اس بیان پر بھی امریکی سپانسرڈ افغان اتحادی حکومت میں ہلچل مچی تاہم ایسا دکھا ئی دے رہا ہے کہ اشرف غنی افغانستان میں قیام امن کیلئے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے کیونکہ اگر کو ئی بریک تھرو ہوتا ہے تو اس کا کریڈٹ اشرف غنی کے سرہی جائے گا، واضح ہوکہ یہ امن کوششیں عسا کر پاکستان کی پہل پر شروع ہورہی ہیں او ر سرحد کے آرپار افغانستان اور پاکستان کے خیرخواہ چاہ رہے ہیں کہ یہ کوشش بار آور ثابت ہوں تاکہ دونوں ملک امن سے رہ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak Afghan naii Qurbatoo k khilaf Bharti Labi phir Mutharik is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.