
پاکستان میں قانون کی حکمرانی سوالیہ نشان؟
”ضرورت“ اور ”سہولت“ کی خاطر الیکشن بل میں ترامیم ریاست کا انتظام وانصرام چلانے والے حاکم وقت کو آئین اور قانون کی ہر ممکن پاسداری کرنا ہوگی
جمعہ 20 اکتوبر 2017

خاندان یا کنبہ چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے اور خاندان کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو گھر کے انتظامی امور سنبھالتا ہے، وہ گھر کو چلانے کے لئے چند اصول وضوابط وضع کرتا ہے، گھر کے تمام افراد اس کے صادر کئے گئے احکامات کو بجالانے کے پابند ہوتے ہیں اور روگردانی کرنے والے کو سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں لیکن اگر گھر کا سربراہ خود اصولوں سے ہٹ کر کوئی کام کرے یا یوں کہہ لیں کہ گھر والوں پر تو اصول وضوابط کی پیروی لازم ہو مگر سربراہ کو کھلی چھوٹ ہو تو یہ یقینا ناانصافی ہوگی، ا ب اوپر دی گئی مثال میں اگر کچھ ردوبدل کرلیا جائے جیسے خاندان کی بجائے ریاست ، اصول وضوابط کی بجائے آئین یا قانون اور سربراہ کی بجائے حاکم وقت کے الفاظ شامل کردیں تو گفتگو کا رخ اس جانب ہوجائے گا کہ ریاست کا نتظام وانصرام چلانے والا حاکم وقت اگر خود ہی آئین اور قانون کی پاسداری نہ کرے یو وہ قانون میں اپنی ”ضرورت“ اور”سہولت“ کے پیش نظر ردوبدل یا ترمیم کرلے مگر ریاست کے دیگر افراد کو ایسی سہولت سے محروم رکھے تو کیا یہ درست ہوگا؟۔
(جاری ہے)
دیکھا جائے تو آج بھی ہم تاریخ کے ایک اہم دورا ہے پرکھڑے ہیں، ہم ایک طرف تو جدید دنیا کے خواب دیکھ رہے ہیں، ترقی اور آزادی کی نئی راہیں کھوجنے پہ مصر ہیں جب کہ دوسری طرف ہمارے پرانے جاگیر دارانہ اور استحصالی نظام آج بھی بدترین عوامی جبر کے مظاہر ہیں ایسے میں ہماری ڈولتی حکومتیں اقتدار کے خواہشمند سیاست دان آئے دن کی ہنگامہ آرائی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرنے کے لئے کافی ہے، ہمارے ہاں ہر صبح کا آغاز ایک نئے سیاسی دھچکے کے ساتھ ہوتا ہے، پہلے تو پانامہ کہانی چلی جس میں عدلیہ نے تاریخ ساز فیصلہ دیا، ان الزامات کی زد میں دنیا کے اور بہت سارے سیاستدان وحکمران اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہوئے۔ پاکستان کے سوا اکثر ممالک میں ان الزامات کی زد میں آنے والے افراد نے اپنی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی اختیار کی اور اپنے آپ کو قانون کے مطابق الزامات کا سامنا کرنے کیلئے پیش کیا، اپنے اپنے عہدوں سے سبکدوشی شاید قانون کی روسے نا بھی بنتی ہو مگر اخلاقی طور پر ایسا لازمی تھا ،تو جہاں اخلاقیات زندہ تھیں انہوں نے ایسا کیا لیکن ہمارے ہاں جہاں اخلاقیات تو کیا قانون ہی نہیں ہے وہاں حکومتی مشینری استعمال کی گئی اور اپنے عہدے اور مال ودولت کے بل بوتے پر شاید لوگوں کو خریدنے کی کوشش بھی کی گئی مگر آفرین ہے ہمارے جوڈیشنل کمیشن پر جس نے اپنے عہدے سے انصاف کیا اور اپنا فرض بخوبی نبھایا۔ جس کے نتیجے میں وزیراعظم کی سبکدوشی ہوئی اور ساتھ ہی وہ اپنی پارٹی رکنیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے، یہ بات بھلا وہ کیسے گوارا کرتے چنانچہ سب مل کر سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنی ”ضرورت“ اور سہولت“ کی خاطر الیکشن بل میں ہی ترمیم کر ڈالی ،یہاں تک کہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترمیم کے وقت ”ختم نبوت“ سے متعلق حلف نامے کے الفاظ میں بھی ردوبدل کر ڈالا ۔ اتنے اہم ، حساس اور جذباتی عقیدے جس کا تعلق ہمارے ایمان سے ہے، کو تبدیل کرنا تو دور اسکے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے اور موجودہ حکومت نے یہ کام باآسانی کردیا اور بعد ازاں اس کو تحریری غلطی قرار دے دیا۔ایک جمہوری معاشرے میں قانون سے سے اوپر ہوتا ہے اور حکمران ہوں یا عوام سب کے سب قانون کے ماتحت ہوتے ہیں اور قانونی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ قوانین معاشرے کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لئے بنائے جاتے ہیں نہ کہ کسی انفرادی شخص یا جماعت کی ذاتی سہولت کے لئے ، لیکن حالیہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سامنے آنے کے بعد یوں لگنے لگا ہے جیسے قانون نہیں بلکہ حاکم وقت بالادست ہو، ایک مسلمان حکمران کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قانون کو داؤ پر لگا دے۔ ایک اچھا حکمران وہی ہوتا ہے جو باضمیر ہوتا ہے اور قانون اور انصاف کا علم تھام کر چلتا ہے۔
جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو
ڈٹ جاؤ تم حسین کے انکار کی طرح
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
pakstan me Qanoon Ki Hukmrani Swaliya Nisshan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.