پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی غنڈہ گردی

چند روز قبل سندھ ہائی کورٹ میں عرصے سے چلنے والا کیس کا ایسا فیصلہ آیا کہ نہ اسکول مالکان کا کچھ بگڑسکا نہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکا۔ ایسے میں عوام نئی حکومت پر نظریں جمائے بیٹھی ہے لیکن شاید یہ امید پوری نہ ہو پائے کیونکہ اس وقت غالباً تعلیم سے لیکر صحت تک ہر وزیر فی الحال گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے میں مصروف ہے

محمد طیب ہفتہ 25 اپریل 2020

private taleemi idaron ki gunda gardi
گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ ایک شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ادھر اُدھر کی باتوں کے ساتھ بات چل نکلی پرائیویٹ اسکول میں تعلیم کی تو موصوف چونکہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کے باعث اپنی بڑائی بیان کرنے میں انکا کوئی ثانی نہیں جھٹ سے پل باندھنے لگے پرائیویٹ اسکول سسٹم کی تعریف میں فخر سے بتانے لگے میاں ہم تو اتنی فیس دیتے ہیں۔
موصوف اپنے ساتھ ایک مشہور اسکول کا فیس چالان بھی لئے ہوئے تھے۔

جس میں درج کل رقم کسی پوش علاقے کے بنگلے کے کرائے جیسی محسوس ہوئی۔ آنکھوں پر یقین نہ آیا تو ساری تفصیل پڑھی جس میں کئی شعبوں کے نام درج تھے گویا پانچویں جماعت کا یہ طالبعلم اسکول نہیں بلکہ کسی ملک کو فتح کرنے جارہا ہو۔
 بستہ اورکتابوں کاپیوں سیل کر،کلاس روم میں لگے اے سی کا بل بھی بچوں سے وصول کرنا پھر سالانہ اخراجات لیب، کمپیوٹرزاسپورٹس اور دیگر شعبوں کی مو میں ہزاروں روپے ماہانہ اور سالانہ بٹورنا تعلیمی نظام کو کھوکلا کر چکا ہے۔

(جاری ہے)

غریب اپنے بچے کو نہ پرائیوٹ اسکول میں پرھانے کے قابل رہا نہ گورنمنٹ اسکول میں۔ایسے میں گلی کوچوں میں کھیلنے والے غیر معیاری اسکول مالکان کی چاندی ہوجاتی ہے جوکم فیس میں بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتے ہیں۔دوسری جانب چاہئیے تو یہ تھا کہ گورنمنٹ اسکول سسٹم اس قدر معیاری ہوتا کہ ایک عام شہری اپنے بچوں کی تعلیم کے معاملے سے تو کچھ سکون پاتا لیکن یہاں گنگا الٹی ہی بہہ رہی ہے۔

۔۔۔
اب 10 سے 15 ہزار ماہانہ کمانے والے مزدور 40 ہزار بچوں کے اسکول کی فیس میں دینے سے رہا ایسے میں معاشرے میں امیروغیریب کا فرق بڑھنا بعداز قیاس نہیں۔تبدیلی کا شور مچا تو گورنر ہاؤسز کو تعلیم کے لئے کھولنا ایک اچھا اقدام تھا لیکن شاید وہ سب شہرہ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔جبکہ پاکستان کے آئین نے تعلیم و صحت کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا ہے مگر ہم نے اس کو صرف امیر کی جھولی میں ڈال دیا۔

کوئی ہے جو اس تقسیم کو پرکرے؟ اور فیسوں کو لگام دے؟ تعلیم کو کاروبار بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرے؟ اگر معیار ی تعلیم کے لیے 30 سے 40 ہزار ماہانہ درکار ہے تو یہ رقم کتنے فیصد پاکستانی دے سکتے ہیں؟ اور کیا باقی عوام کو معیار ی تعلیم اپنے بچوں کو مہیا کرنے کا کوئی حق نہیں جبکہ پاکستان کی چالیس فیصد عوام غربت کی شرح سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

 چند روز قبل سندھ ہائی کورٹ میں عرصے سے چلنے والا کیس کا ایسا فیصلہ آیا کہ نہ اسکول مالکان کا کچھ بگڑسکا نہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکا۔ ایسے میں عوام نئی حکومت پر نظریں جمائے بیٹھی ہے لیکن شاید یہ امید پوری نہ ہو پائے کیونکہ اس وقت غالباً تعلیم سے لیکر صحت تک ہر وزیر فی الحال گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے میں مصروف ہے۔ساتھ ہی ساتھ موجودہ صورتحال جہاں انسان کو کھانے کے لالے پڑے ہیں وہیں پرائیویٹ اسکول اپنی دکانیں کھولیں پھر بیٹھے ہیں۔

یا یوں کہیں کہ ایک طرف انسان کو وباء کی نظر ہونے کا خطرہ ستائے کھڑا ہے تو دوسری طرف پرائیویٹ اسکولز اپنے پھن پھیلائے ڈسنے کے انتظار میں ہیں۔ 
ایک طرف انسان وباء کی خبریں سن سن کر خود سُن ہوا بیٹھا ہے۔ دوسری طرف پرائیویٹ اسکولز کے میسیجز اسے جھنجھوڑ کر واپس اسی دنیا میں لا کر سلامِ فیس پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جلد از جلد فیس جمع کروائیں۔ ناجانے وہ لوگ کہاں گئے جو کسی کی پرواہ کیا کرتے تھے۔ جو دوسروں کا پیٹ بھرنے کے لئے اپنا پیٹ کاٹا کرتے تھے۔ شاید اب یہ باتیں افسانوں اور کہانیوں میں ہی میسر آئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

private taleemi idaron ki gunda gardi is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 April 2020 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.