قومی سیاست میں نئے صوبوں کامطالبہ برحق مگر!

مقامی اختلافات کو حکمران جماعت کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش، قومی سیاست میں نئے صوبوں کا مطالبہ برحق مگر! فوجی بھائیوں کا مسلم لیگ کےخلاف جوڑ توڑ اور مداخلت کا جواز؟

جمعرات 12 اپریل 2018

qaumi siyasat mein naye sobon ka mutalba barhaq magar

فرخ سعید خواجہ

احتساب عدالت میں نواز شریف‘ مریم نواز شریف اور کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمات آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور آنے والیدنوں میں فیصلے کے حوالے سے چہ میگوئیاں شروع ہو چکی ہیں۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب صدر شہباز شریف اپنے انتخاب کے بعد پہلی مرتبہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ورکرز کنونشن میں شرکت کر کے اس صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔ ادھر الیکشن 2013ء میں اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے بعض ممبران نے مخدوم خسرو بختیار کی قیادت میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس محاذ کا چیئرمین جنوبی پنجاب کے ایک اہم بلوچ سردار میر بلخ شیر مزاری کو اور شریک چیئرمین دوسرے بڑے بلوچ سردار نصراللہ دریشک کوبنایا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات سمیع اللہ چودھری اپنی اہلیہ خاتون رکن پنجاب اسمبلی سمیرا چودھری سمیت جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا حصہ بن گئے ہیں اور انہیں ’’محاذ‘‘ کا نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ننکانہ صاحب کے رکن پنجاب اسمبلی چودھری طارق باجوہ بھی اپنی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر امور آزاد جموں و کشمیر گلگت بلتستان چودھری برجیس طاہر سے اختلافات کے باعث ناراض ہو کر پارٹی چھوڑ گئے ہیں اور آزاد حیثیت میں چودھری برجیس طاہر کے مقابلے پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ حمزہ شہباز شریف نے بھی ان کے بجائے چودھری برجیس طاہر کو اہمیت دی ہے۔ ان ہی کی طرح علی اصغر منڈا ایڈووکیٹ بھی رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین سے اپنے شدید اختلافات کے باعث مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر رانا تنویر حسین کے مقابلے میں آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ علی اصغر منڈا کو الیکشن 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا بلکہ ان کی جگہ میاں محمد سعید شرقپوری کو ٹکٹ ملا جو مسلم لیگ (ن) کے پرانے اتحادی ہیں جب ان کی جماعت جمعیت علماء پاکستان نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا تھا میاں سعید شرقپوری تب بھی مسلم لیگ (ن) کے حامی رہے تھے اور پھر 1997ء میں جب مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے ان کے چھوٹے بھائی میاں جلیل شرقپوری نے مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پرویز مشرف کا ساتھ دیا تو اس کے عوض وہ چیئرمین ضلع کونسل شیخوپورہ بنائے گئے تھے۔ تاہم میاں سعیداس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کے ثابت قدمی کے ساتھ حامی رہے۔ علی اصغر منڈا ایڈووکیٹ کو گلہ ہے کہ ان کی جگہ میاں سعید شرقپوری کو ٹکٹ دلوانے میں رانا تنویر حسین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ سو علی اصغر منڈا ایڈووکیٹ آزاد حیثیت میں میاں سعید شرقپوری کے خلاف کھڑے ہو گئے اور انہیں ہرانے کے بعد دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں آ گئے۔ دراصل علی اصغر منڈا مسلم لیگی ہیں‘ شیخوپورہ کے رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف کے ساتھ مل کر انہوں نے خاصی سیاست کی۔ پارٹی کی قیادت جس طرح ضلع شیخوپورہ کی سیاست میں رانا تنویر حسین اور علی اصغر منڈا ایڈووکیٹ‘ میاں جاوید لطیف اور عارف سندھیلہ‘ ننکانہ میں چودھری برجیس طاہر اور چودھری طارق محمود باجوہ‘ فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ خان اور چودھری شیر علی‘ ساہیوال میں ملک ندیم کامران اور سید عمران احمد شاہ کے درمیان مفاہمت نہیں کروا سکی اسی طرح پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی مقامی دھڑوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں جن کا منفی اثر مسلم لیگ (ن) کے انتخابی نتائج پر پڑ سکتا ہے۔

پنجاب کی سیاست میں حمزہ شہباز شریف کا بہت اہم کردار ہے جو بظاہر محسوس نہیں ہوتا۔ حمزہ شہباز کے بعض دست راست خود میاں حمزہ سے زیادہ دوسروں کو ناراض کرنے کا سبب بنتے رہے ہیں اور اب جبکہ الیکشن 2018ء سر پر ہیں اس طرح کی حرکات کی قیمت حمزہ شہباز کو نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کو چکانا پڑے گی۔ الیکشن 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے دیوان سید عاشق حسین بخاری کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر شکست کھانے والے رانا قاسم نون کو ضمنی الیکشن میںدیوان عاشق بخاری کے بچوں کی جگہ ٹکٹ دے کر حمزہ شہباز شریف نے جو غلط فیصلہ کیا تھا اس کا خمیازہ اب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دراصل اس وقت حمزہ صاحب کو یہ یاد نہیں رہا کہ رانا قاسم نون اس سے پہلے ق لیگ کی حکومت میں چودھری پرویز الٰہی کے وزیر کی حیثیت سے ’’شریفوں‘‘ کو کس طرح آڑے ہاتھوں لیتے رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں جانے والے ایک اور رکن قومی اسمبلی چودھری طاہر اقبال وہاڑی میں مسلم لیگ (ن) کی شیرنی بیگم تہمینہ دولتانہ کے خلاف بغاوت کر کے ان کو ناکوں چنے چبواتے رہے ہیں۔ الیکشن 2013ء میں یہ نشست بھی انہوں نے تہمینہ دولتانہ کو شکست دے کر جیتی تھی لیکن اپنی پارٹی کی مرکزی نائب صدر اور بہادر کارکن کی دلآزاری کر کے چودھری طاہر اقبال کو مسلم لیگ (ن) میں شامل کیا گیا ،سو وقت آنے پر وہ مسلم لیگ (ن) کی مخالف صفوں میں چلے گئے ہیں۔ جانے والی ایک اور اہم شخصیت مظفر گڑھ کے ممتاز سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ سید باسط سلطان بخاری کے والد سید عبداللہ بخاری معروف سیاسی شخصیت رہے ہیں۔ باسط سلطان بخاری کے چھوٹے بھائی سید ہارون سلطان بخاری پنجاب حکومت میں وزیر ہاؤسنگ ہیں۔ ان کا پارٹی چھوڑ جانا بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے۔
اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کیا ہے؟ دراصل کوئی بھی ذی شعور پاکستانی انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم اور نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ سو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے وہ افسران جو مسلم لیگ (ن) کا الیکشن 2018ء میں راستہ بند کرنا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ پی ٹی آئی کو بھی مادر پدر آزاد کئے جانے کے مخالف ہیں۔ انہوں نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان میں صوبوں کی تقسیم کے مسئلے کو استعمال کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے سمیت صحافیوں کی اکثریت اور ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتیں انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کے حق میں ہیں۔ سو مسلم لیگ (ن) کے مخالف فوجی بھائیوں نے جس طرح تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ کے ذریعے نواز شریف کے ووٹوں کو کم کرنے کی کوشش کی ہے بالکل اسی طرح جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بھی سامنے لایا گیا ہے۔جس کا مقصد یہ ہے کہ الیکشن کے بعد بھان متی کا کنبہ جوڑ کر ’’سنجرانی ٹائپ‘‘ وزیراعظم لایا جائے۔ بعض لوگ میرے فوجی بھائیوں کی اصطلاح استعمال کرنے پر چیں بچیں ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عام انتخابات میں ان کی ملکی سیاست میں بلا جواز مداخلت اس حد تک رہی ہے کہ لوگوں کو ادھر سے اُدھر دھکیل کر من پسندوں افراد کو طاقتور بنایا جاتاہے۔ مجھے 2014ء کے دھرنے کے بعد پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور ممتاز سیاستدان میاں محمود علی قصوری مرحوم کی بھتیجی اور میاں بختیار قصوری کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ شادی کارڈ پر دیئے گئے وقت کے مطابق جب میں اپنے ساتھی فوٹوگرافر گل نواز کے ہمراہ اس فارم ہاؤس پر پہنچا جہاں شادی کی تقریب رکھی گئی تھی تو وہاں میزبان میاں خورشید محمود قصوری‘ میاں بختیار محمود قصوری کے ہمراہ واحد نامور مہمان جنرل معین الدین حیدر موجود تھے۔ سلام دعا کے بعد ہم چاروں ایک میز پر بیٹھ گئے۔ دونوں میزبان تو جلد اٹھ کر چلے گئے تاہم آنے والے مہمانوں میں سے بیشتر سابق جرنیل اور بریگیڈئر ہمارے والی ٹیبل پر ہی تشریف فرما ہوتے رہے۔ اس میز پر میرے علاوہ ایک اور صحافی دوست تنویر شہزاد جبکہ واحد سیاستدان احسان وائیں ایڈووکیٹ تشریف فرما ہوئے۔ دھرنا 2014ء کے حوالے سے قومی افق میں ہی شائع شدہ ایک آرٹیکل میں دھرنے کا ماسٹر مائند میں ان پانچ فوجی جرنیلوں کو قرار دے چکا تھا جو کہ آنے والے مہینوں میں ریٹائر ہونے والے تھے۔اس کالم کے حوالے سے جنرل معین الدین حیدر نے میری چٹکی لینے کی کوشش کی اور کہا کہ اس دھرنے میں فوجیوں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ جنرل صاحب نے ایک آدھ اور ایسا جملہ کہا جس پر میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ اگر آپ لوگ سیاست میں دخل نہیں دیتے تو مجھے میز کے گرد موجودجناب جنرل طارق مجید اور جناب جنرل جنجوعہ بتائیں کہ ملٹری انٹیلی جنس کے دفتر میں عام انتخابات کے موقع پر ایسے چارٹ کیوں لگائے جاتے ہیں جن میںنشاندہی کی جاتی ہے کہ کون امیدوار جیتے گا اور کون ہارے گا ؟شرکاء محفل کو میں نے اپنے صحافی شاگرد ندیم علوی مرحوم کے ہمراہ ایم آئی پنجاب کے دفتر جانے کا واقعہ سنایا۔ اس وقت ایم آئی پنجاب کے کمانڈر بریگیڈئر سید غضنفر شاہ تھے جو کہ گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں میرے دو سال جونیئر تھے۔ شاہ صاحب واہ کینٹ کے رہائشی تھے اور گورنمنٹ کالج راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کا الیکشن 1969-70ء میں مجھے جتوانے میں واہ سے آنے والے طالب علموں نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ دونوں صاحبان نے میری بات کی تصدیق کی۔ جنرل معین الدین حیدر نے کہا کہ یہ چارٹ ہم اس لئے تیار کرتے ہیں تاکہ صورت حال سے باخبر رہیں۔ میرا مؤقف تھا کہ فوجی بھائیوں کو سیاسی امور کے بجائے عسکری امور سے واقفیت حاصل کرنے کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہئے۔ میں نے دلیل دی کہ آپ لوگوں سے زبردستی ووٹ نہیں ڈلواتے بلکہ امیدواروں کا بندوبست کرتے ہیں اور یوں اپنی پسند کی حکومت بنوا لیتے ہیں۔
اب جبکہ الیکشن 2018ء کی آمد آمد ہے۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ماضی جیسا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ادھر عدالتوں سے مسلم لیگ (ن) کے خلاف فاؤل پلے جا ری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کو سزا ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو نقصان ہو گا۔ اب مسلم لیگیوں کا امتحان ہے کہ متوقع سزا ہو جائے تو احتجاج کو ایسا رنگ نہ دیں کہ الیکشن کی منزل کھوٹی ہو جائے۔ نواز شریف کو دس بارہ دن سے زیادہ جیل میں نہیں رکھا جا سکے گا۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل میں نوازشریف کی ضمانت ہو جائے گی۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) کو ہر حالت میں الیکشن تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے جس میں عوام بالادست قوتوں کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

qaumi siyasat mein naye sobon ka mutalba barhaq magar is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 April 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.