رمضان بچت بازار اور شکایتوں کے انبار!

پھلوں کے بائیکاٹ کی ہفتہ وار مھم․․․ حکومت گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کاروائی سے گریزاں کیوں؟

جمعہ 16 جون 2017

Ramzan Bachat Bazaar Aur Shikayaton K Ambaar
راؤ محمد شاہد اقبال:
صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے لیکن پھل پر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ اگر ایام بھی ماہِ رمضان کے ہوں تو یہ بات کچھ اور بھی ناممکن سی نظر آتی ہے کہ افطار کے وقت پاکستانیوں کے دستر خوان پر سب کچھ ہو مگر پھل نہ ہوں،بظاہر انتہائی مشکل یا نا ممکن نظر آنے والا یہ کام بھی عوام الناس اس ماہِ رمضان میں بڑی جانقشانی اور آسانی سے کررہے ہیں۔

اس جذبے کی وجہ رمضان کی ابتداء میں ہی سماجی رابطے کی ویب سائیٹ کے ذریعے سے شروع ہونے والی پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم ہے،جس میں عوام کی اکثریت نے یہ طے کی کہ وہ پورے ماہِ رمضان جمعہ ہفتہ اور اتوار پھلوں کی خریداری کا بائیکاٹ کریں گے بظاہر ایک چھوٹی سے پوسٹ سے شروع ہونے والی اس مہم نے دیکھتے ہی دیکھتے پرنٹ میڈیا     اور الیکٹرانک میڈیا کی بھی بھرپور توجہ اپنی طرف سمیٹ لی۔

(جاری ہے)

پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ایسی مہم یا تحریک جو نہ تو کسی سیاسی یاسماجی جماعت کی طرف سے اور نہ ہی کسی این جیاو یا فلاحی ادارے کی جانب سے شروع کی گئی مگر پھر بھی اس مہم نے قلیل مدت میں بھرپور کامیابی اور انتہائی حیران کن نتائج حاصل کرلئے۔پھلوں کے بائیکاٹ کی ہفتہ وار مہم نے گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی عقل کافی حد تک ٹھکانے لگادی۔

رمضان المبارک میں ہفتہ وار پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم نے اندرون سندھ بھی اپنا اثر خوب جمایا۔حیدر آباد،سانگھڑ،نواب شاہ ،میرپور خاص،تھرپار کر،لاڑکانہ اور خیر پور سمیت سندھ کے تقریباََ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اس مہم کو عوام کی بھرپور حمایت اور توجہ حاصل رہی۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں پھلوں کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ کرنے والے دکانداروں اور منافع خوروں کا مکمل بائیکاٹ کر کے عوام نے معاشرے میں یکجہتی کی نئی مثال قائم کردی ،اب تک رمضان المبارک میں ہر ہفتے تین روزہ بائیکاٹ میں لاکھوں شہریوں نے مہذب انداز سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا،بازاروں اور گلی محلوں میں دکانوں اور ٹھیلوں پر پھل فروش خریداروں کا انتظار کرتے رہ گئے،لیکن خریداروں نے روزہ اور وہ بھی سندھ کی سخت گرمی میں جہاں اکثر شہروں میں درجہ حرارت 52 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور روزہ کو اپنی جسمانی توانائی بحال کرنے کے لئے پھلوں یا ان کے رس کی طبی نقطہ نگاہ سے بھی سخت ضرورت ہوتی ہے اس سب ضروریات،خطرات،اور اندیشوں کے باوجود سندھ کے شہریوں نے اس ماہِ رمضان میں حقیقی صبر کی اعلیٰ مثال قائم کی اور بائیکاٹ کے تمام دنوں میں پھلوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ پرعزم شہریوں نے آئندہ آنے والے دنوں میں بھی اپنی جدوجہد اس طرح جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

مہنگے داموں فروخت کرنے والے پھل فروش جو آغاز رمضان میں پھلوں کی قیمت ایک روپے کمی بھی کرنے پر تیار نہ تھے۔اب پچاس فیصد تک کم قیمت پر پھل فروخت کرنے کے لئے تیار ہیں۔سندھ کے تقریباََ تمام شہروں میں پھلوں کی فروخت میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔سندھ کے مختلف مرکزی بازاروں میں درجہ اول کیلا جو 150 روپے درجن تک فروخت کیا جارہا تھا اب 80 سے 100 روپے میں فروخت ہو رہا ہے،آڑو جو220 سے 240 روپے کلو قیمت پر فروخت ہورہا تھا۔

اُس کی قیمت اب130 سے 150 روپے کلو کی سطح پر آگئی ہے۔آم کی قیمت میں بھی 30 سے 40 روپے کلوتک کمی آچکی ہے۔100 روپے کلو بکنے والا آم 60 روپے تک میں باآسانی ہے۔پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم شاندار عوامی پذیرائی دیکھ کر سندھ حکومت نے بھی اس عوامی مہم کی حمایت کا اعلان کردیا،سندھ حکومت نے پھلوں کے بائیکاٹ کے دنوں میں جتنی بھی سرکاری تقریبات خصوصاََ افطار پارٹیاں کا انعقاد کیا ان سب میں پھلوں کو دسترخوان کی زینت بنانے سے احتراز کیا گیا جس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے عوام کو یہ باور کرایا جاسکے کہ وہ اس مہم میں عوام کے شانہ بہ شانہ ہیں،مگر سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر سول سوسائٹی کی طرف سے سندھ حکومت کی اس نام نہاد حمایت کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے کہ عوام کا مئوقف ہے انہیں سندھ حکومت کی حمایت کی قطعاََ ضرورت نہیں اگر سندھ حکومت کو اتنا ہی عوام کی تکلیف کا احساس ہے تو اسے ناجائز منافع خوروں کے خلاف بھرپور کاروائی کرنی چاہیے اور کچھ ایسے انتظامی اقدامات کرنے چاہیے جس سے عوام کو ماہِ رمضان المبارک میں کچھ ریلیف مل سکے،اس ماہ رمضان المبارک میں اندرون سندھ کے عوام تو اس بات کی آس لگائے بیٹھے تھے کہ شاید اس بار پنجاب حکومت کی طرز پر سندھ حکومت کی طرف سے بھی رمضان بچت بازار لگائیں جائیں گے مگر صرف سکھر ،حیدرآباد اور نواب شاہ کے علاہ کسی بھی شہر میں رمضان بچت بازار کا انعقاد نہیں کیا گیا۔

سکھر،حیدر آباد اور نواب شاہ میں بھی جو رمضان بازار لگائے گئے وہ انتہائی ناقص انتظامات کے حامل تھے۔
نواب شاہ میں جو رمضان بچت بازار لگایا گیا اس کا حال یہ تھا کہ اس بازار میں صرف آٹھ سے دس اسٹال موجود تھے جب پر اشیاء کا معیار انتہائی درمیانہ درجہ کا تھا حیرت کی بات تو یہ تھی اس بازار میں لوؤڈاسپیکر پر یہ با ر بار اعلان کیا جارہا تھا کہ جو اس رمضان بچت بازار سے خریداری کریں گا اسے عمرہ کے ٹکٹ کی قرعہ اندازی میں شامل کیا جائے گا،انعامات کے یہ ترغیبی اعلانات بھی لوگوں کو اس بازار میں خریداری پر راغب نہیں کرپارہے تھے۔

رمضان بچت بازار میں آئے شہری اشیاء کی قیمت فروخت اور معیار کے حوالے سے انتہائی غیر مطمئن نظر آئے شہریوں کا کہنا تھا کہ رمضان بازار میں دکاندار درجہ اول،درجہ دوئم کے پھل مکس کرکے فروخت کررہے ہیں جبکہ بعض دکاندار تو چیزوں کی قیمت بھی اپنی مرضی سے لگا رہے ہیں۔شہریوں کا کہنا تھا کہ بازار کے منتظمین اعلانات کر رہے ہیں کہ رمضان بچت بازار میں ا شیاء سستی مل رہی ہیں لیکن مارکیٹ اور رمضان بازارکی قیمت میں کوئی واضح فرق نہیں اگر کسی چیز کی قیمت کم ہے تو اس کا معیار وہ نہیں کہ اسے خرید کر دل مطمئن ہو سکے جبکہ رمضان بچت بازار میں صفائی کے بھی انتہائی ناقص انتظامات کئے گئے ہیں،سندھ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ صرف رمضان بازار کے بینر لگانے سے رمضان بازار قائم نہیں ہوتے بلکہ ان کی نگرانی اور انتظامات کے لئے پیشگی منصوبہ بندی بھی کرنی ہوتی ہے حالانکہ سند ھ کے ہر بجٹ میں رمضان بچت بازاروں کیلئے ٹھیک ٹھاک رقم مختص کی جاتی ہے صرف حالیہ بجٹ میں 340 کروڑ روپے رمضان اور عید پیکج کے مد میں رکھے گئے ہیں۔

مگر یہ پیسے کیسے،کب اور کہاں خرچ کئے جاتے ہیں اس کا کبھی کسی کو کچھ پتا نہیں چلتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Ramzan Bachat Bazaar Aur Shikayaton K Ambaar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 June 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.