سرد موسم میں سیاسی حرارت پیدا کرنے کی کوشش

کراچی کے سیاسی حلقوں میں دسمبر کو سیاسی قوت کے مظاہروں کا مہینہ قرار دیا جا رہا ہے جس کے باعث سرد موسم میں درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔

جمعرات 14 دسمبر 2017

Sard Mausam Main Siyasi Hararat Paida Karnay Ki Koshish
شہزاد چغتائی:
کراچی کے سیاسی حلقوں میں دسمبر کو سیاسی قوت کے مظاہروں کا مہینہ قرار دیا جا رہا ہے جس کے باعث سرد موسم میں درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ ایم کیو ایم نے حیدر آباد میں جلسہ عام کیاپاک سرزمین پارٹی پہلے ہی جلسوں کے انعقاد کا اعلان کر چکی ہے جبکہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ کسی جماعت سے پیچھے نہیں ہے ہزارہ اور کوئٹہ میں کامیاب یلغار کے بعد سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے سندھ میں جلسوں کے شیڈول کی منظوری دیدی ہے۔

اس دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سب سے زیادہ جلسے کر رہے ہیں یہ جلسے ہولو گرام ٹیکنالوجی کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بانی وائس چیئرمین کا جلسہ عام 16 دسمبر کو اورنگی ٹاؤن میں ہو گا۔ ہفتے کے روز کراچی میں ایم کیو ایم لندن بھی میدان میں آ گئی جس کے بعد صورتحال کشیدہ ہو گئی۔

(جاری ہے)

9 دسمبر کو ایم کیو ایم نے یوم شہداء منانے کا اعلان کیا تھا لیکن 100 کے لگ بھگ خواتین کو یادگار شہداء نہیں جانے دیا گیا۔

ایم کیو ایم لندن کی خواتین اور کارکنان کی جانب سے یادگار شہداء جانے کی کوشش پر مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اور پولیس نے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے لاٹھی چارج شروع کر دیا اس دوران 4 خواتین سمیت 12 افراد کو حراست میں لے لیا گیا جس کے بعد خواتین نے یادگار شہداء کے قریب دریاں بچھا کر قرآن خوانی شروع کر دی اور بانی ایم کیو ایم کے حق اور ”زندہ ہے مہاجر زندہ ہے“ کے نعرے لگائے۔

ایم کیو ایم لندن کی جانب سے ہفتہ کو یوم شہداء منانے کا اعلان کیا گیا تھا‘ کارکنان اور حامیوں کو یادگار شہداء جا کر فاتحہ خوانی کرنے اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم لندن کے اس اعلان کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے یادگار شہداء جانے والے راستوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا تھا۔ اس دوران اطراف کی گلیوں میں سے موجود افراد بھی آئے اور ان کے ساتھ شامل ہو کر یادگار شہداء جانے لگے جس پر پولیس نے انہیں جانے سے روک دیا اور پولیس کی جانب سے مظاہرین کو بارہا پیچھے جانے کا کہا گیا تاہم شرکاء بضد تھے کہ انہیں یادگار شہداء جانا ہے اور وہاں جا کر فاتحہ خوانی کرنی ہے لیکن پولیس نے انہیں جانے کی اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے پولیس اور ایم کیو ایم لندن کے کارکنان سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اور پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج شروع کر دیا جس سے وہاں پر بھگدڑ مچ گئی۔

اس دوران پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 4 خواتین سمیت 7 افراد کو وہاں سے حراست میں لے لیا۔ مذکورہ واقعہ کے بعد لیاقت علی خان چوک کے اطراف اور اِردگرد کی شاہراہوں پر شرکاء ریلی کی صورت میں وہاں آنے لگے تاہم ان راستوں پر پولیس اور رینجرز کی نفری تعینات رہی جس نے کارکنوں کو آگے جانے نہیں دیا۔ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے یوم شہداء کے اعلان کے بعد انتظامیہ ایک روز پہلے حرکت میں آ گئی تھی عزیز آباد جانے والے راستے صبح سے ہی سیل کر دئیے گئے تھے اور نائن زیرو پر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی۔

دوسری جانب حیدر آباد کے جلسہ عام میں فاروق ستار دو قدم اور آگے بڑھ گئے اور انہوں نے کہاکہ اس مرتبہ وزیراعلیٰ اور آئندہ وزیراعظم ہمارا ہو گا۔ فاروق ستار نے ایک بار پھر دہائی دی کہ ان کو کھلے دل کے ساتھ قبول کیا جائے۔ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی میں مصروف دن گزارا لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ چودھری صاحب کس مشن پر آئے تھے ۔

اہم بات یہ ہے کہ افتخار محمد چودھری نے پیپلز پارٹی مخالف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی مخالف سیاستدان اکٹھا ہو رہے ہیں۔ ایک جانب یہ افواہیں اڑ رہی ہیں کہ ملک میں حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس بن رہا ہے اور پیپلز پارٹی کا این آر او ہو گیا دوسری جانب عمران خان‘ شیخ رشید‘ پیر پگارو پیپلز پارٹی کو چیلنج کر رہے ہیں۔

پیر پگارو اور غنویٰ بھٹو سے ملاقات کے دوران افتخار محمد چودھری کو کوئی گرین سگنل نہیں مل سکا تاہم موجودہ صورتحال پر چودھری صاحب نے اپنا موقف پیش کر دیا۔ اس موقع پر اپوزیشن کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات منظر عام پر آئے۔ افتخار محمد چودھری نے عمران خان ،طاہر القادری اور آصف علی زرداری کے اشتراک کو مسترد کر دیا۔ کنگری ہاؤس میں ملاقات کے بعد پیر پگارو نے آف دی ریکارڈ گفتگو میں افتخار محمد چودھری کو سیاست میں طفل مکتب قرار دیا اور کہاکہ ان کو سیاست سیکھنا چاہئے۔

پیر پگارو کے اس رویے سے انداز ہوتا ہے کہ افتخار محمد چودھری اور پیر پگارو کے درمیان بات نہیں بنی۔ پیر پگارو اور افتخار محمد چودھری کہہ چکے ہیں کہ گرینڈ الائنس دور کی بات ہے لیکن پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور طاہر القادری کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں، پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ سے بھی رابطے ہیں وہ حکومت سے پینگیں بھی بڑھا رہی ہے اس لحاظ سے سیاسی صورتحال بہت پیچیدہ ہو گئی ہے۔

ان دنوں سیاسی منافقت بلندیوں کو چھو رہی ہے پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کیلئے مری جا رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی وعدے وعید کر رہی ہے۔ اس وقت سارا کھیل 20 مارچ سے پہلے انتخابات کا ہے جس کیلئے بہت زور لگایا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کا نام سننے کیلئے تیار نہیں لیکن مشترکہ مفادات جانی دشمنوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا رہے ہیں۔

قبل از انتخابات کا فائدہ صرف پیپلز پارٹی کو اور سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہو گا۔ 20 مارچ کو سینیٹ کے انتخابات ہو گئے تو پیپلز پارٹی سینیٹ میں تیسرے چوتھے نمبر کی پارٹی بن جائے گی۔ سیاسی حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے حکومت گرانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ اتحاد بنائے جا رہے ہیں لیکن بن نہیں پا رہے۔ کراچی میں حکومت مخالف سیاستدانوں نے اعتراف کیا ہے کہ گرینڈ الائنس نہیں بن رہا۔

محمد نوازشریف خاموش بیٹھے ہیں‘ کسی کے پاس نہیں جا رہے لیکن لوہے کے چنے ثابت ہو رہے ہیں۔سابق صدر آصف علی زرداری سمیت سیاستدانوں کی ماڈل ٹاؤن آمد درحقیقت مذہبی طاقت اور نئی صف بندی کا مظاہرہ تھا۔ اب اسلام آباد سے لے کر لاہور اور فیصل آباد تک مذہبی شخصیات حکومت کو للکار رہی ہیں۔ حکومت گری تو اس کا کریڈٹ سیاستدانوں کو نہیں،علماء کرام کو جائے گا۔

عمران خان منہ تکتے رہ جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کی یہی کوشش تھی کہ حکومت کو گرانے کا کریڈٹ عمران خان نہ حاصل کر لیں۔ اب عمران خان کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ان دنوں وہ لائنیں پڑھ رہے ہیں۔ ایک جانب طاہر القادری اور آصف علی زرداری کی ملاقات کے بعد سیاسی محاذ آرائی بڑھ گئی اور تناؤ میں اضافہ ہو گیا ہے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بیک ڈور رابطے بھی جاری ہیں اور دونوں جماعتوں کے مذاکرات کو کامیاب بھی قرار دیا گیا۔

اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی مخالف سیاسی جماعتوں کا تن تنہا مقابلہ کر رہی ہے اور اس بات سے خوفزدہ نہیں۔ اس وقت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی توپوں کا رخ مسلم لیگ (ن) کی جانب ہے لیکن وہ میدان خالی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اب کراچی میں بھی اپنی اہمیت کا احساس دلانا شروع کر دیا ہے۔ ایک جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنماء تسلسل کے ساتھ اب کراچی پر یلغار کر رہے ہیں۔ گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کے بعد وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیراعظم کے مشیر امیر مقام ایک ہی دن کراچی پہنچے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے ناراض رہنماؤں کو منانے کیلئے رابطے کئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sard Mausam Main Siyasi Hararat Paida Karnay Ki Koshish is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 December 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.