شہر قائد میں گندگی کے ڈھیر ، ناقص سیوریج نظام!

سمندر میں روزانہ 6 سو ملین گیلن آلودہ پانی شامل ٹریٹمنٹ پلانٹس عرصہ دراز سے بند، لیاری کے 20 کارخانوں کا زہریلا پانی عوام کیلئے وبال جان بن گیا

منگل 3 اکتوبر 2017

Shahr Qaid me gandgi k Dhair naqas Siverge Nazaam
سالک مجید:
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں بھی نمایاں ہوگیا ہے جو سمندر کو آلودہ کررہے ہیں اور آبی حیات کے لئے نقصان دہ صورتحال پیدا کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو سمندر کی دولت سے مالا مال کررکھا ہے۔ ہمارے ملک میں سندھ اور بلوچستان کے صوبے سمندر کے ساتھ واقع ہیں اور طویل خوبصورت ساحلی علاقے ہیں جن کی خوبصورتی مثالی ہے لیکن ہم اپنے سمندر اور سمندری حیات کی قدر نہیں کررہے اور اس ذمہ داری کا مظاہرہ تو بالکل بھی نہیں کررہے جس کی ضرورت ہے۔

دنیا کے مختلف ملکوں میں سمندر کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اس کی خوبصورتی اور صفائی کا خیال بھی رکھا جاتا ہے پاکستان کے پڑوس افغانستان سمیت دنیا میں متعدد ایسے ممالک بھی ہیں جن کے پاس سمندر نہیں ہے۔

(جاری ہے)

کئی ملک لینڈ لاک ہیں یعنی ان کے چاروں طرف زمین ہے پہاڑ ہے اور وہاں کے لوگ سمندر کے لئے ترستے ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو ان خوش نصیب ملکوں میں شامل رکھا ہے جہاں ایک طرف سمندر ہے ایک طرف دنیا کے بلند ترین پہاڑ ہیں یہاں صحرائے تھر بھی ہے اور لہلہاتی سرسبز فصلیں بھی ہیں۔

ہرطرح کے علاقے ہیں اور چاروں موسم بھی ہیں دریاؤں سے پانی اور مٹی لانے والے دریا بھی ہیں نہریں بھی ہیں ندیاں بھی ہیں جھلیں بھی ہیں لیکن یہ سب مقامات اور جگہیں تقاضا کرتی ہیں کہ ان کی صفائی کا بھی خیال رکھا جائے اور وہاں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر نہ لگائے جائیں جبکہ پانی کو صاف رکھنے کا اہتمام کیا جائے اسے آلودگی سے بچایا جائے ، اس وقت بدقسمتی سے صورت حال یہ ہے کہ سمندر میں ہرروز 600 ملین گیلن آلودہ پانی شامل ہوتا ہے اور پاکستان میں متعلقہ ادارے اور احکام غفلت کی نیند سورہے ہیں ، کوئی بھی حکومت اور متعلقہ ادارے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے پوری نہیں کررہے ہیں۔

تینوں ٹریٹمنٹ پلانٹس ایک عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ زہریلے کیمیکل سمندری حیات کے ذریعے ہمارے جسم میں بھی داخل ہورہا ہے ، کراچی میں 12 ہزار ٹن سالڈ ویسٹ میں صرف 40 فیصد کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ ماحولیات کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے م۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں صورتحال زیادہ سنگین ہے کراچی کے علاقے لیاری کے 20 کارخانے زہریلا پانی سمندر میں پھینک رہے ہیں کراچی شہر کے صنعتی علاقوں سے زہریلا اورکمیکل ملا پانی لے جانے والی لیاری اور ملیر ندی دونوں ہی گندا پانی سمندر میں شامل کرنے کی موجب ہے اورکراچی کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے اسی طرح کا زہریلا اور خطرناک فضلہ اور پانی خارج کرتی ہیں جو بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے صورتحال کا جائزہ لینے والا عدالتی واٹر کمیشن بھی سندھ بھر سے حاصل کئے گئے پانی کے نمونوں کے مضر صحت قرار دے چکا ہے اور یہ رپورٹ سامنے آچکی ہے کہ سندھ بھرکے شہری گند اور فضلہ ملا پانی پینے پر مجبور ہیں جبکہ دریا اور سمندر میں جانے والا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے دریا اور سمندر میں ڈالا جا رہا ہے ۔

سندھ کی بڑی جھیلوں کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں خصوصاََ منچھر جھیل کی صورتحال کافی تشویشناک ہے ، گزشتہ دنوں بلدیہ شرقی کونسل کے اجلاس میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کو گندگی کا ذمہ دار قراردے دیا گیا اراکین کونسل نے صفائی کی ابتر صورتحال میں کوئی بہتری نہ آئی تو اراکین کونسل ایم ڈی آفس کے باہر احتجاج کریں گے۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

اپنے دفاع میں ایم ڈی کراچی واٹر ایند سیوریج بورڈ سید ہاشم رضا زیدی کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ کا عملہ دن رات محنت کرتا ہے اپنے حصے کاکام بڑی محنت سے کیا جارہا ہے لیکن شہریوں اور دیگر اداروں کو بھی عملے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ سیوریج کے مسائل سے کسی کو انکار نہیں ہے جتنا بڑا شہر ہے اس کے چیلنج اور مشکلات بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔ مین ہولز کی مرمت کا کام جلد از جلد مکمل کرنے کے لئے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جارہا ہے۔

بارشوں کے دوران دھنس جانے والی سیوریج لائنوں کی تبدیلی اور ٹوٹے ہولز کی کی مرمت کاکام بھی جلد مکمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عالمی بنک نے پورے کراچی میں سیوریج کا نظام تبدیل کرنے اور ازسرنو گٹر لائنیں ڈالنے کی پیشکش کردی ہے عالمی بینک نے تجویز دی ہے کہ پورے کراچی کا سیوریج نظام اکھاڑنے اور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے واٹر بورڈ ے ذرائع کا کہنا ہے کہ 70 فیصد سیوریج سسٹم تباہ ہوچکا ہے اور بڑی تعداد میں سیوریج لائنیں بہہ رہی ہیں جن کو تبدیل کرنے کیلئے اربوں روپے کی ضرورت ہے واٹر بورڈ کے پاس فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق ناظم مصطفی کمال کے دور میں کراچی میں سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کراچی پیکج کے تحت 13 ارب روپے کے فنڈز فراہم کئے گئے تھے یہ رقم واٹر بورڈ کے ذریعے خرچ کی گئی تھی جبکہ واٹر بور ڈ کے اپنے افسران اور سابقہ ملازمین مانتے ہیں کہ واٹر بورڈ میں تمام فنڈز کا استعمال صحیح طریقے سے نہیں ہو پاتا۔ یہاں بہت کرپشن ہوتی ہے اور فنڈز خوردبرد کرلئے جاتے ہیں ۔

پائپ لائنوں کے رساؤ اور ٹریٹمنٹ پلانٹس کی دیکھ بھال مرمت کے نام پر اربوں روپے بھی خورد برد کئے گئے۔ اس حوالے سے نیب کیسز بن سکتے ہیں اور واٹر بورڈ کی کالی بھیڑوں کو پکڑا جانا چاہیے۔ تمام ٹریٹمنٹ پلانٹس ناکارہ پڑے ہیں اور 30 فیصد پائپ لائنیں رس رہی ہیں اور تو اور خود میئر کراچی وسیم اختر چیخ اٹھے ہیں اورانہوں نے بھی شکایت کی ہے کہ پورے شہر کو گندا پانی سپلائی کیا جارہا ہے اگر واٹر بورڈ نے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی شروع نہ کی تو واٹر بورڈ کے دفتر پر احتجاج کریں گے۔

میئر کراچی کی شکایت ہے کہ مختلف حیلوں بہانوں سے فنڈز روکے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق کے ڈی اے کو کے ایم سی سے الگ کرنا ایک غلط فیصلہ ہے جبکہ ایم سی کے چار سینئر افسران کو حکومت سندھ نے معطل کررکھا ہے اور ایس ایل جی اے 2013ء پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ۔ ہمارے حقوق غصب کئے جارہے ہیں بحریہ ٹاؤن کے اشتراک سے شہر سے جگہ جگہ کیچڑاٹھانے کا پلان بنایا ہے پوری کوشش ہے کہ کراچی کو صاف ستھرا شہر بنایا جائے ۔ ایک طرف کراچی میں صفائی ستھرائی ، سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور پانی کی فراہمی اور نکاسی آب پر سیاست ہورہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Shahr Qaid me gandgi k Dhair naqas Siverge Nazaam is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 October 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.