ٹیڑھے چہرے

ہماری صفائی اپنی ذات سے شروع ہو کر اپنی ہی ذات پر ختم ہو جا تی ہے ۔اس کے آگے ہم نہیں سوچتے کوئی پکوڑے کھا کر اخبار نالی میں پھینکتاہے ،کوئی جوس پی کر خالی پیکٹ نالی میں پھینکتا ہے ،کوئی ٹماتروں کی صفائی کرکے گندے ٹماٹر اس میں پھینکتا ہے،کوئی اپنے دکان کی فرنٹ کی ساری گندگی ساتھ والی نالی میں پھینکتا ہے

Hamid Tabani حامد تابانی جمعہ 22 مارچ 2019

tedhe chehre
تنقید کرنا اچھی بات ہے جب تنقید اصلاح کے لیے ہو۔ یعنی تنقید برائے تعمیر ہو لیکن جب تنقید برائے تخریب ہو تو پھر یہ تنقید ایک گالی بن جا تی ہے۔بہت سے لوگ کسی بات کی نشاندہی کرکے لو گوں کی تو جہ حاصل کر نے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اس کے آگے پیچھے نہیں دیکھتے کہ واقعی ایسا ہے یا صرف اپنے اندازے اور قیاس کے تیر چھوڑے ہیں۔سوشل میڈیا کے استعمال نے ایک طرف تو مسائل کی نشاندہی میں مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن دوسری طرف بہت ہی معزز افراد اور ادارں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے اور کم لوگوں شایدکو اس بات کا اندازہ ہو۔

 ہمارے ملک میں جب کسی کی شامت آتی ہے تو اکثر معاشرے کے پسے ہوئے غریب اور محروم لو گوں کی آتی ہے ،اور یہ لوگ ہر طرف اور ہر لحاظ سے اس کی زد میں آتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایک چھوٹی سی خبر اور تصویر کے ذریعے ہم یہ دکھا نے کی کوشش تو کر سکتے ہیں کہ فلاں ادارہ یا افراد اپنی ڈیوٹی سے انصاف نہیں کر رہے ہیں لیکن اس کے پیچھے جو عوامل ہیں کہ کام کیوں نہیں کر رہے اسے نظر انداز کرتے ہیں۔

تصویر کا ایک رخ دکھا کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ہم فرائض کی بات تو کر سکتے ہیں لیکن حقوق کی لمبی چھوڑی فہرست ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے اور جب حقوق کی سیپارے کھولتے ہیں تو فرائض کا سبق بھول جاتے ہیں۔
 صفائی کے بارے ہم جب بھی بات کر تے ہیں تو ذمہ دار عموماََ حکومت ،TMA اور ان کے بے چارے اہلکاروں کو ٹہراتے ہیں اور جب افسر صاحباں ”رسم ڈیوٹی“کو نبھانے کی خاطرکچھ ایکشن لیتے ہیں تو سارا نزلہ ان بے چاروں ،کمزور اور غریب اہلکاروں پر کراتے ہیں۔

اگر دیکھا جا ئے تو اصل عظیم لو گ تو یہ ہیں۔یہ بہت ہی کمزور ،محروم اور مجبور طبقہ ہے۔ان کے وسائل کم اور مسائل زیا دہ ہو تے ہیں اور بونس کے طور لو گوں کے طعنے ،طنزاور بالا حکام کی جھڑکیاں اور ڈانٹ ۔معمولی سی اجرت پر ایک بڑا کام سر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔چلو کچھ تو کرتے ہیں ۔اب وہ زمانہ تو نہیں رہاکہ خلیفہ اور ایک عام مزدور کی اجرت ایک جیسی ہواور اگر خلیفہ کا گزارہ نہیں ہوتا تو وہ مزدور کی یومیہ بڑھائے گا ۔

کیا معمولی سی اجرت پر گندگی کو ٹھکانے لگانے کا ٹھیکہ ان لو گو ں نے تو نہیں لیا ہے ۔ہمارے بھی کچھ فرائض ہیں ،فرائض ادا ہوتے ہی حقوق خود بخود ادا ہوں گے۔لیکن یہاں توشعور ناپید ہے اورعقل بصارت سے محروم ہے ۔
 میں اکثر ان لو گوں کو نالیوں کی صفائی کرنے ،سڑکوں پر جھاڑو پھیرتے اور کو ڑے دانوں سے کو ڑا کرکٹ اکٹھا کر تے ہو ئے دیکھتا ہوں ۔

گندے جوتوں اور کپڑوں میں ملبوس پو پھوٹتے ہی کا م پر لگ جا تے ہیں، گر د اور دھول آکسیجن کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔دن تو چھوڑئیے رات کے وقت میں نے ان کو کام کر تے دیکھا ہے ۔ان کو دیکھتے ہی میں سوچنے لگا کہ تحصیل کبل کو سوئی گیس پہنچا نے کا منصوبے کا افتتاح 2007 سے لے کر 2016 تک متعدد بار ہو چکا ہے ۔الیکشن جنرل ہو،ضمنی ہو یا پھر بلدیاتی ہر بار اس ناکام اور ادھورے منصوبے کو کیش کیا جا تا ہے اور کیش کیاجائے گالیکن گیس نہیں آئی اور نہ کو ئی امید ہے۔

پائپوں کو بچھانے کے لیے کھدائی اور بھرائی کا کام تو ٹھیکدار حضرات کا ہے یہ لوگ اپنا کام ادھورا کیوں چھوڑتے ہیں اس کی بھرائی صحیح کیوں نہیں کرا تی۔اور ان کا ادھورا کام TMA کے ورکروں کو کرنا پڑتا ہے۔(اب بھی TMAکے آفس کے سامنے سڑک کے ساتھ ایک گھڑا گذشتہ ایک ماہ سے موجود ہے جس سے سکول آنے جانے والوں بچوں اور بچیوں کو کا فی دقت کا سامنا ہے اور حکام چین کی بنسری بجا رہے ہیں)
 ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ گندے نا لیوں سے مختلف چیزیں نکالتے ہیں جو پا نی کھڑا ہو نے کا با عث بنتا ہے ۔

اس میں اخبار کے اوراق ،جوس کے پیکٹ ،سڑی ہوئی سبزیاں اور پھل،گھاس پوس اور دوسری چیزیں شامل ہوتی ہیں ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ چیزیں کہا ں سے آتے ہیں ،کون یہ پھینکتے ہیں اور یہ کیوں کرتے ہیں۔یہ ”ٹیڑے چہرے “کون ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ یہ ٹیڑے چہرے ہم ہیں ،میں ہوں، آپ ہیں۔ہم یہ غیر مہذب کام کر تے ہیں، اپنے ہی وسائل بر باد کر رہے ہیں اور بھر صفائی کی ابتر صورتحال کا رونا روتے ہیں۔

 الفاظ کے الٹ پھیر،روایتی ہتھکنڈے،لفظوں کی جادوگری اور ہفتہ صفائی منانے کی قطعاََ ضرورت نہیں اصل کام تربیت دینے کا ہے شعور اجاگر کرنے کا ہے ۔صفائی کے لیے میٹنگ پلس Eating،روایتی دام ِفریب اورہا تھ میں جھا ڑوں پکڑ کر چند ”فوٹوسیشن “اور پھر پورا سال ”اللہ اللہ خیر سلا۔
 ہماری صفائی اپنی ذات سے شروع ہو کر اپنی ہی ذات پر ختم ہو جا تی ہے ۔

اس کے آگے ہم نہیں سوچتے کوئی پکوڑے کھا کر اخبار نالی میں پھینکتاہے ،کوئی جوس پی کر خالی پیکٹ نالی میں پھینکتا ہے ،کوئی ٹماتروں کی صفائی کرکے گندے ٹماٹر اس میں پھینکتا ہے،کوئی اپنے دکان کی فرنٹ کی ساری گندگی ساتھ والی نالی میں پھینکتا ہے۔یہاں پر تعلیم اور گنوار کا معاملہ نہیں ۔تعلیم ہے ، ریت و روایات ہیں اور سب سے بڑھ کرایک سچا اورپاکیزہ مذہب موجودہے لیکن تہذیب نہیں ،تربیت نہیں اور سب سے بڑھ کر ”احساس ذمہ داری“ نہیں۔اور یہ بہت کم لو گوں کو نصیب ہو تی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

tedhe chehre is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 March 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.