ذمہ داری کا تعین

کیا ہم اپنے معاشرے کو احساس دلا سکتے ہیں کہ گاڑی کامیابی کی علامت اور پیدل چلنا غربت کی علامت نہیں ہے۔ تو پھر ہم اس منزل کی طرف چلنا شروع کر دیں گے جو راستہ ہمیں کامیابی کی طرف اشارہ دیتا ہو گا

Farman Dogar فرمان ڈوگر پیر 4 مارچ 2019

zima dari ka taayun
آغاز حدیث مبارکہ سے کرتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ حضور فرماتے ہیں۔"تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے اپنے ریوڑ کا اور اس ریوڑ کا وہ ذمہ دار ہے۔لوگوں کا قائد ان کا رہنما ہوتا ہیاور وہ ان کا ذمہ دار ہے۔ہر آدمی اپنے خاندان کا سرپرست ہوتا ہے اور اس کا ذمہ دار ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور بچوں کی سرپرست ہے اور غلام اپنے آقا کی پراپرٹی کا رکھوالا ہے۔

بے شک تم میں ہر ایک اپنے ریوڑ کا رکھوالا اور ذمہ دار ہے"۔
ذمہ داری کا تعین تو ہم سب کو کرنا پڑتا ہے اگرچہ ہم سب خود کو ذمہ دار کہتے ہیں اس صورت میں جب ہم کچھ حاصل کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب ہم کچھ انجانے میں غلط کر جاتے ہیں تو اس کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ذمہ داری تو یہ ہے کہ اگر ہم سے کچھ انجانے میں غلط بھی ہو جائے تو اسکو بھی قبول کیا جائے۔

(جاری ہے)

لیکن اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں انسان پر اتنا بوجھ ڈالتا ہوں جتنا وہ اٹھا سکتا ہے۔مطلب یہ ہوا کہ ہم کتنے قابل ہیں،قابلیت کا کوئی پیمانہ تو ہو گا، کوئی تو اسکا اندازہ ہو گا۔جی ہاں اس کو پرکھا جا سکتا ہے۔ میں اگر اس قابل ہوں کہ کوئی عہدہ لے سکوں، عہدہ کیا ہے، منصب کیا ہے،سیٹ کیا ہے۔اس منصب کو لینے کو تو میں تیار ہوں لیکن اس کے لیے میری قابلیت کیا ہے،میں اپنی نجی زندگی میں کام کاج کو احسن طریقے سے کر رہا ہوں،میں معاشرے میں لوگوں کے مسائل کو سمجھتا ہوں،میں اپنے رویہ سے دوسروں کو مطمئن کر سکتا ہوں، میں حالات کو کنٹرول کر سکتا ہوں، میں پڑھا لکھا ہوں، میں مضبوط ہوں کہ جلدی ٹوٹ نہ پاوٴں گا، میں تنقید برداشت کر سکوں گا، میں اپنی قابلیت کے مطابق بوجھ اٹھا سکوں گا،کیا مجھ میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے، کیا میں اچھی گفتگو اور اچھے اخلاق کا مالک ہوں۔

اللہ تعالی مجھے ذمہ داری دیگا تو اسکا بوجھ اٹھانے میں میری قابلیت کام آئے گی۔فاروق اعظم قبول اسلام سے پہلے ایک جنگجو تھے۔مگرقبول اسلام کے بعد آپ اتنے ذمہ دار ہوے کہ آپ کی زندگی اسلامی تاریخ کا وہ روشن باب ثابت ہوئی کہ جس نے ہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آپ نے حکومت کے انتظام و انصرام 'بے مثال عدل و انصاف' اعمال حکومت کی سخت نگرانی ' رعایا کے حقوق کی پاسداری 'اخلاص نیت و عمل' جہاد فی سبیل اللہ اور دعوت کے کارناموں میں ایسے کام سرانجام دیے جسکی مثال مشکل ہے۔

یہ ذمہ داریاں تھیں جو حضرت عمر فاروق نے نبھائیں تھیں۔ 
کیا ہم اپنے معاشرے کو احساس دلا سکتے ہیں کہ گاڑی کامیابی کی علامت اور پیدل چلنا غربت کی علامت نہیں ہے۔ تو پھر ہم اس منزل کی طرف چلنا شروع کر دیں گے جو راستہ ہمیں کامیابی کی طرف اشارہ دیتا ہو گا۔کہ ہمارا اللہ تعالی سے رشتہ کیا ہے۔وہ جو ہم پر بوجھ ڈال رہا ہے وہ بیگانہ سمجھ کے نہیں بلکہ اپنا سمجھ کے ذمہ دار بنا رہا ہے۔

اپنے ان بندوں کے لیے جن کو ہماری ضرورت ہے۔اور پھر ہمارا اعتماد اس ذات پر اور بھی گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ پھر ہم ہر رکاوٹ کو چیلنج سمجھیں گے۔ ہر کامیابی پر شکر ادا کریں گے۔ ہر مسئلے کا حل صبر سے تلاش کریں گے۔ ہر تشدد کے راستے کو چھوڑ کر پیار اور محبت کو فروغ دیں گے۔ اور پھر خود غرضی سے نکل کر اپنے بچوں ' گھرانے' ہمسائیوں اور معاشرے کی اصلاح کرنا چاہیں گے۔

پھر جب معاشرے کی اصلاح کی صورت میں مثبت نتا ئج اور فلاحی کامیابی حاصل ہو گی۔ تو ہم اپنے ذمہ داری کے بوجھ کو ہلکا محسوس کریں گے۔آخر میں برطانیہ کے لیڈر چرچل کی کہاوت کا حوالہ دیتا ہوں"عظمت کی قیمت ذمہ داری ہے"۔ (ونسٹن چرچل)عظیم انسان وہ ہوتے ہیں جو ذمہ دار ہوتے ہیں۔اپنی ذمہ داری کا تعین کرتے ہیں اپنے کاموں کو اچھے طریقے سے سرانجام دیتے ہیں اور پھر اپنے عظیم کارناموں سے اپنا لوہا منواتے ہیں اور ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں پھر یہ احساس چھوڑ کے جاتے ہیں کہ آپ لوگ بھی عظیم بن سکتے ہو مگر اس کے لیے پوری ایمانداری سے اپنی ذمہ داری کو نبھانا ہو گا۔
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے"

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

zima dari ka taayun is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 March 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.