پاک امریکہ تعلقات اور فوجی اڈے

منگل 15 جون 2021

Abdul Wali Khan

عبدالولی خان

پاکستان امریکہ تعلقات مختلف ایشوز کی وجہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں.خواہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہوں یا افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار ہو. تاہم جوبائیڈن انتظامیہ  کی طرف سے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے کوئی باضابطہ پالیسی سامنے نہیں آئی لیکن دوسری طرف امریکہ کی موجودہ انتظامیہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہتی نظر آ رہی ہے۔


پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ امریکہ پاکستان اور انڈیا کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھیں اور پاک چائنہ تعلقات میں مداخلت نہ کریں.سرکاری سطح پر یہ بات بتائی جا رہی ہے پاکستان عالمی سیاست سے عالمی تجارت کی جانب جا رہا ہے لیکن پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد تاریخی اعتبار سے سیاسی رہی ہے۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بنیاد آج بھی سیاسی  ہے لیکن امریکہ کو اب بھی افغانستان میں پاکستان کا تعاون درکار ہے۔


ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے مابین سرکاری اور بیک ڈور رابطے تیز کیے گئے ہیں۔بعض حلقے  اسے افغان امن عمل میں بہترین کردار ادا کرنے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔تو کسی کے نزدیک امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان میں فوجی اڈے بنانے کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان امریکہ کو زمینی اور فضائی رسائی دے گا امریکی وزیر دفاع برائے انڈو ڈیوڈ ہیلوے نے سینیٹ کی  آرمڈ سروسز  کمیٹی کو بتایا کہ افغانستان کے لیے پاکستان امریکہ کی ہر طرح سے تعاون اور مدد جاری رکھے گا۔

تاہم پاکستانی حکام اس دعوے کو مسترد کرتے نظر آرہے ہیں پاکستان کے صدر عارف علوی نے حال میں ایک انٹرویو میں کسی بھی طرح کے فوجی اڈے دینے سے انکار کیا۔ میڈیا پر بحث کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سختی سے تردید کر دی کہ ہم امریکہ کو اڈے دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے  لائیڈ آسٹن اور پاکستانی آرمی چیف کی بات چیت کو مفید قرار دیا ہے۔

امریکی حکام اس ضمن میں جینوا میں امریکی قومی سلامتی کے  مشیر جیک  اور پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کی اس ملاقات کو مفید قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اگر تشدد میں اضافہ ہوا تو امریکہ مداخلت کرے گا۔ایسے میں بیسز کی موجودگی ضروری ہے۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ امریکہ تاجکستان میں بھی بیسز بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

پ تاہم پاکستان صرف ایک آپشن نہیں لیکن ختم طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون 70 برس پر محیط ہے۔اس دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ پاکستان نے سرد جنگ کے زمانے میں 1960 میں پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کا فضائی اڈہ مبینہ طور پر امریکہ کو استعمال کے لئے دیا تھا۔نائن الیون کے بعد پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تعاون کےلئے مختلف بیسز امریکی فوج کے زیر استعمال رہے۔

جس میں بلوچستان میں قائم شمسی بیس ائیر بیس سب سے زیادہ استعمال ہوتا رہا۔ اس بیس سے افغانستان میں مختلف حملوں کےلئے  امریکی جنگی طیارے اڑان بھرتے رہیں۔ اس کے علاوہ جیکب آباد کا شہباز ائیربیس بھی امریکی فوجی کے  استعمال میں تھا۔بعض اطلاعات کے مطابق راولپنڈی کے چکلالہ ائیربیس پر بھی پاک فوج کی انتظامی امور کے حوالے سے امریکی حکام کے ساتھ تعاون جاری رہا۔

سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد امریکہ سے شمسی ایئربیس خالی کرایا گیا تھا۔پاک فوج کی جانب سے اس وقت جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ آپ کسی بھی ایئربیس پر امریکہ کی کوئی موجودگی نہیں ہے۔
خیال رہے کہ 26 نومبر 2011 کو پاک افغان سرحد کے قریب صالح کے مقام پر پاکستانی اور نیٹو افواج کے درمیان  مبینہ جھڑپ میں پاکستانی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

پاکستانی فوج نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکا اور نیٹو افواج نے پاکستانی سرحد چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 28 پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کیا گیانتھا۔پاکستان نے احتجاج نیٹوسپلائی بھی کئی ماہ تک معطل کر دی تھی۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئر (ر) سید نذیر نے کہا کہ شمسی ائیر بیس ، جیکب آباد کا شہباز ائیربیس اور بلوچستان میں ایک ائیربیس  امریکہ کے زیر استعمال رہی۔

ان کے بقول امریکہ کو اسپیشل  ایئرکوریڈور بھی دیا گیاتھا۔جہاں سے ہماری اپنی فضائیہ کی پروازیں بھی آپریٹ نہیں ہو سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد نان  ایکٹرز اور افغانستان میں موجود طالبان پاکستان میں گھس سکتے ہیں۔جس سے پاکستان کو سیکورٹی  خطرات لاحق ہے۔ ایسے میں پاکستان کو سیکیورٹی کے لیے امریکہ کی مدد درکار ہو گی۔

سید ندیم کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے لیے مشکل صورت حال ہے کیونکہ پاکستان کو دہشت گردوں کے خطرات سے بھی ڈرایا جارہا ہے۔ جب کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پروگرام میں بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
خیال رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے امریکہ تحفظات کا اظہار کر رہا ہے تاہم امریکہ کو فوجی اڈے  دینا پاکستان کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہیں ۔موجودہ مغربی حالات اور خطے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب یہ فیصلہ پاکستان کے لیے مشکل ہوگا۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کس طریقے سے اپنی خارجہ پالیسی کو استعمال کر کے امریکہ کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ناراض نہیں کر سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :