
مذاکرات ہی مسائل کا حل
منگل 1 جون 2021

عبدالولی خان
حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ اعلان کہ ہم افغانستان سے انخلاء کے آخری مراحل میں داخل ہو رہے ہیں یقینا افغان عوام کے لیے خوش آئند ہے۔ مختلف حلقے اس پر اپنی آراء رکھتے ہیں کسی کے نزدیک یہ امریکی فوج کی شکست ہے تو کوئی اسے امریکہ کی بدلتی خارجہ پالیسی قرار دے رہا ہے ۔
یہ اعلان ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ 19 سال تک طالبان کے خلاف لڑنے کے بعد امریکہ مذاکرات ، جنگ بندی اور اب بالآخر انخلا کی طرف جا رہا ہے ۔ فروری 2019 میں شروع ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں 29 فروری 2020 کو دونوں فریقین کے مابین امن معاہدے پر دستخط ہوئے ۔ اس جنگ میں جہاں امریکہ کو لاکھوں ڑالر اور جدید ہتھیار پھونکے پڑے وہی ہزاروں افغان قتل جبکہ لاکھوں بےگھر ہونے پر مجبور ہوئے ۔
لیکن جو بائیڈن کے اعلان کے بعد یہ مسئلہ ختم نہیں کیونکہ آب اس کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا مرحلہ باقی ہے ۔ طالبان اور افغان حکومت کے مابین تنازعہ 22 سال سے چلتا آرہا ہے۔جو کہ اسامہ بن لادن کے ایشو پر سامنے آیا تھا۔امریکہ اور طالبان کے تعلقات اس سے قبل بہترین تھے۔ اسامہ بن لادن نے مجاہدین کے دور میں افغانستان کو القاعدہ کا ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔اسے افغان شہریت اس دور کے صدر برہان الدین ربانی نے دی تھی ۔کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے انہیں اپنا مہمان بنا لیا امریکہ نے اسے انتہائی مطلوب قرار دے کر حوالگی کا مطالبہ کیا ۔ اسامہ بن لادن کی حوالگی پر طالبان کی جانب سے انکار کے بعد سلامتی کونسل نے طالبان حکومت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں ۔
9 ستمبر کو القاعدہ نے طالبان کے سب سے بڑے حریف احمد شاہ مسعود کو قتل کیا اور 2 روز کے بعد نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی عمارت سے جہاز ٹکرائے جن میں 3 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے۔ امریکہ نے نائن الیون11/9 کی خوفناک کارروائی کے بعد سلامتی کونسل سے منظوری لے کر 7 اکتوبر کو اپنے اتحادیوں کی مدد سے طالبان حکومت کے خلاف کارروائی شروع کی جس کے چند روز بعد ہی طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا اس کے بعد حامد کرزئی افغانستان کے نئے صدر بنے، آئین بنا ،اور پارلیمنٹ وجود میں آیا۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے عراق میں جنگ چھیڑ دی جبکہ اسی دوران طالبان پھر سے اپنے پیر جمانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ امریکہ نے پھر طاقت کا استعمال کرکے طالبان کے خاتمے کی کوشش شروع کر دی جو بے سود رہی۔۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت بھی جارحانہ اندازاپنانا چاہتی تھی تاہم بعد میں اس کی پالیسی تبدیل ہوئی اور زلمی خلیل زاد کو نمائندہ برائے افغان امور منتحب کیا درمیان میں کئی بار اتار چڑھاؤ سامنے آئے۔ایک موقعہ پر سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باقائدہ طور پر مذاکرات منسوخی کا اعلان کیا۔یہ وہ۔وقت۔تھا جب افغان طالبان اور امریکہ حکومت باقاعدہ طور پر مذاکرات پر دستخط کرنے جا رہے تھے۔ تاہم زلمے خلیل زاد اور پاکستان حکومت نے ہمت نہیں ہاری اور باوجود اس کے اپنے کردار کو جاری رکھا۔ ایک بار پھر مذاکرات کی بحالی پر امریکی حکومت بھی پاکستان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی ساتھ ہی میں پوری دنیا نے بھی پاکستان کے افغانستان میں امن کے حوالے سے کردار کو سراہا ۔ یقینا ان مذاکرات میں کامیابی کا سہرا پاکستان کو جاتا ہے۔
اس جنگ میں طرفین کا بے شمار جانی و مالی نقصان ہوا لیکن آخر میں دونوں فریقین کو مذاکرات پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔جو کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ اس خطے کےلئے بھی امن کی نوید ہے۔موجودہ حکومت اور طالبان پر لازم ہے کہ وہ سود مند مذاکرات کے ذریعے افغان عوام کو مسائل کے انبار سے نجات دلائے ۔
یہ اعلان ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ 19 سال تک طالبان کے خلاف لڑنے کے بعد امریکہ مذاکرات ، جنگ بندی اور اب بالآخر انخلا کی طرف جا رہا ہے ۔ فروری 2019 میں شروع ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں 29 فروری 2020 کو دونوں فریقین کے مابین امن معاہدے پر دستخط ہوئے ۔ اس جنگ میں جہاں امریکہ کو لاکھوں ڑالر اور جدید ہتھیار پھونکے پڑے وہی ہزاروں افغان قتل جبکہ لاکھوں بےگھر ہونے پر مجبور ہوئے ۔
(جاری ہے)
امریکی انخلاء کے بعد افغانستان ہی نہیں بلکہ اس سے جڑے ممالک بھی پرامن حالات سے مستفید ہونگے۔
بالخصوص پاکستان کونکہ افغانستان میں امن سے پاکستان کو مغربی سرحد پر موجود چیلنجز سے چھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے ۔لیکن جو بائیڈن کے اعلان کے بعد یہ مسئلہ ختم نہیں کیونکہ آب اس کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا مرحلہ باقی ہے ۔ طالبان اور افغان حکومت کے مابین تنازعہ 22 سال سے چلتا آرہا ہے۔جو کہ اسامہ بن لادن کے ایشو پر سامنے آیا تھا۔امریکہ اور طالبان کے تعلقات اس سے قبل بہترین تھے۔ اسامہ بن لادن نے مجاہدین کے دور میں افغانستان کو القاعدہ کا ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔اسے افغان شہریت اس دور کے صدر برہان الدین ربانی نے دی تھی ۔کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے انہیں اپنا مہمان بنا لیا امریکہ نے اسے انتہائی مطلوب قرار دے کر حوالگی کا مطالبہ کیا ۔ اسامہ بن لادن کی حوالگی پر طالبان کی جانب سے انکار کے بعد سلامتی کونسل نے طالبان حکومت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں ۔
9 ستمبر کو القاعدہ نے طالبان کے سب سے بڑے حریف احمد شاہ مسعود کو قتل کیا اور 2 روز کے بعد نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی عمارت سے جہاز ٹکرائے جن میں 3 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے۔ امریکہ نے نائن الیون11/9 کی خوفناک کارروائی کے بعد سلامتی کونسل سے منظوری لے کر 7 اکتوبر کو اپنے اتحادیوں کی مدد سے طالبان حکومت کے خلاف کارروائی شروع کی جس کے چند روز بعد ہی طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا اس کے بعد حامد کرزئی افغانستان کے نئے صدر بنے، آئین بنا ،اور پارلیمنٹ وجود میں آیا۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے عراق میں جنگ چھیڑ دی جبکہ اسی دوران طالبان پھر سے اپنے پیر جمانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ امریکہ نے پھر طاقت کا استعمال کرکے طالبان کے خاتمے کی کوشش شروع کر دی جو بے سود رہی۔۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت بھی جارحانہ اندازاپنانا چاہتی تھی تاہم بعد میں اس کی پالیسی تبدیل ہوئی اور زلمی خلیل زاد کو نمائندہ برائے افغان امور منتحب کیا درمیان میں کئی بار اتار چڑھاؤ سامنے آئے۔ایک موقعہ پر سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باقائدہ طور پر مذاکرات منسوخی کا اعلان کیا۔یہ وہ۔وقت۔تھا جب افغان طالبان اور امریکہ حکومت باقاعدہ طور پر مذاکرات پر دستخط کرنے جا رہے تھے۔ تاہم زلمے خلیل زاد اور پاکستان حکومت نے ہمت نہیں ہاری اور باوجود اس کے اپنے کردار کو جاری رکھا۔ ایک بار پھر مذاکرات کی بحالی پر امریکی حکومت بھی پاکستان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی ساتھ ہی میں پوری دنیا نے بھی پاکستان کے افغانستان میں امن کے حوالے سے کردار کو سراہا ۔ یقینا ان مذاکرات میں کامیابی کا سہرا پاکستان کو جاتا ہے۔
اس جنگ میں طرفین کا بے شمار جانی و مالی نقصان ہوا لیکن آخر میں دونوں فریقین کو مذاکرات پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔جو کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ اس خطے کےلئے بھی امن کی نوید ہے۔موجودہ حکومت اور طالبان پر لازم ہے کہ وہ سود مند مذاکرات کے ذریعے افغان عوام کو مسائل کے انبار سے نجات دلائے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.