
غدار عاصمہ جہانگیر
منگل 13 فروری 2018

افضل سیال
عاصمہ صرف اکیس برس کی لاء سٹوڈنٹ تھی کہ اس کے والد کو ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے جیل میں ڈال دیا انکا جرم عوام کے حقوق پر آواز بلند کرنا تھا والد کی رہائی کے لیے پاکستان کے مایہ ناز اور بڑے بڑے وکیلوں کےدروازہ پر دستک دی لیکن سب نے جنرل یحییٰ خان کے خوف سے کیس لینے سے انکار کر دیا اس کم عمر لڑکی نے تھک ہار کر عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے والدکا کیس خود لڑے گی، عدالت نے اجازت دی اور وہ لڑکی کیس جیت گئی پاکستان کی اس بہادر بیٹی نے نہ صر ف اپنے والد کو رہا کرایا بلکہ ڈکٹیٹر شپ کو عدالت سے غیر قانونی قرار دلوا کر پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا۔
(جاری ہے)
1983ء ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور میں تیرہ برس کی صفیہ بی بی سے زیادتی ہوئی اور وہ حاملہ ہوگئی،صفیہ بی بی کو عدالت نے نافذ آئین کی مطابق بچی کو جیل بھیج کر اس پر جرمانہ عائد کر دیا کیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونےوالی زیادتی کے چار مرد گواہ نہیں پیش کرسکی تھی اور ملزمان نے ثابت کر دیا تھا کہ صفیہ بی بی نے اپنی رضامندی سے یہ گناہ کیا عاصمہ جہانگیر نے یہ کیس لڑا اور جیتا بعدازاں اس قانون پر بھی نظر ثانی کرنی پڑی ۔۔۔ ضیا کا دور پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور ظلم کا دور تھا اس وقت ڈکٹیٹر کے خلاف بولنا سنگین جرم تھا تمام جمہوری سیاست دان قید و بند کی اذیتیں برداشت کر رہے تھے اور لاہور کا شاہی قعلہ ٹارچر سیل تھا جب کسی لیڈر میں اتنی جرت نہیں تھی کہ وہ سڑک پر نکل کر قانون اور انسانی حقوق کی بات کرے لیکن اس بہادر ۔نے لاہور مال روڈ پر خواتین کی ایک احتجاجی ریلی نکالی جس پر پولیس نے جمہوری ہیروئن عاصمہ پر بدترین تشدد کیا جسکے نتیجے میں یہ نوجوان لڑکی اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے مال روڈ پر چادر ڈھونڈتی رہی ۔۔ یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے
1993ء میں 14برس کے سلامت مسیح کو مذہب کی توہین کے جرم میں سزائے موت ہوگئی، ایسے حساس کیس کو کون لڑتا؟ لیکن عاصمہ جہانگیر آگے آئی اور اس نے سلامت مسیح کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ عدالت کو ماننا پڑا کہ سزائے موت کا فیصلہ غلط تھا۔۔۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتی تھی؟ پاکستان کا آئین یہ کہتا تھا کہ عورت کی شادی کے لیے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو۔۔۔ سر پرستوں کی مرضی لازمی ہے اس قانون کو عاصمہ جہانگیرنے عدالت میں لڑا اور پاکستان کی عورت کو اس کا آئینی و مذہبی حق دلایا کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی شادی کرسکتی ہے۔۔۔۔
عاصمہ جہانگیر پاکستان میں جمہوریت اور قانون کی حامی جبکہ آمریت کی سب سے بڑی دشمن تھی عورتوں اور اقلیتوں کے لئے لڑنے والی اس عورت کا معیار بہت عجیب ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ٹم سبسٹن کو انٹرویو دیتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی اور طالبان کی بدترین مخالف عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ اگر طالبان کا بھی ماورائے عدالت قتل ہوا تو وہ طالبان کےحق میں آواز اٹھائے گی، کیا کوئی عورت تصور کرسکتی ہے کہ سڑک پر اس کے ملک کے محافظ اس کے کپڑے پھاڑیں اور وہ بے بسی سے اپنے تن پر چادر ڈالنے کے لیے ادھر ادھر دیکھتی پھرے۔۔۔۔
عاصمہ جہانگیر نے یہ وقت بھی دیکھا ہے۔ یہ لڑکی جب ٹین ایجر تھی تو ایوب خان اور یحییٰ خان کے خلاف لڑی، نوجوان ہوئی تو ذوالفقارعلی بھٹو کے غلط اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی، یہ ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت پسندوں کی ننھی ہیروئن کہلاتی تھی، یہ اپنی بہترین سہیلی بے نظیر بھٹو سے لڑی، اس نے نوازشریف کے اقدامات کو چیلنج کیا اور یہ پرویز مشرف کے لئے سوہان روح بن گئی، یہ عورت ماسوائے جمہوریت اور انسانیت کے کسی کی نہیں تھی۔ اس کے اپنے اصول تھے اور یہ ان کے آگے کسی کی نہیں سنتی تھی یہ پاکستان کی بہادر،نڈر خاتون تھی ۔ یہ قوم کی ایک قابل فخر ماں تھی ۔ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس کو غدار اور اسلام دشمن کہنے والے خود غدار تو ہوسکتے ہیں لیکن عاصمہ جہانگیرنہیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ صرف انسانوں کی سب سے بڑی وکیل تھی جسکا حکم قرآن میں موجود ہے ۔۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
افضل سیال کے کالمز
-
ہاں میں غدار ہوں ،
منگل 21 اگست 2018
-
آزادی
ہفتہ 18 اگست 2018
-
کپتان کی حکومت ! سکورگیم
اتوار 5 اگست 2018
-
حکومت سازی! کپتان بمقابلہ شہباز
بدھ 1 اگست 2018
-
وزیراعظم عمران خان !
پیر 16 جولائی 2018
-
گواہ رہنا
پیر 4 جون 2018
-
وزیراعظم عمران خان!
جمعہ 11 مئی 2018
-
عسکری کالم
جمعہ 4 مئی 2018
افضل سیال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.