” الٹی ہو گئیں سب تد بیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا “

جمعہ 27 مارچ 2020

Ahmed Khan

احمد خان

ایک نا دیدہ دشمن نے سارے عالم کو گو یا مٹھی میں بند کر دیا ہے ، ہزا ر جتن کے باوجود کرونا کی آفت کے سامنے پو ری دنیا بے بس اور لا چار ہے ، بڑے بڑے طر م خان گردانے جانے والے ممالک کرونا کے خوف میں مبتلا ہیں ، روس میں کیا عالم ہے ، فرانس اور بر طا نیہ کس کر ب سے گزر رہے ہیں ، اٹلی کرونا کے ہا تھوں تبا ہی کے دہا نے پر پہنچ چکا ، خود کو اقوام عالم کا ” چو ہدری “ سمجھنے والا امریکہ کی کرونا سے چیخیں نکل رہی ہیں ، دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس کی نیندیں کرونا نے حرام نہ کر رکھی ہو ں ، نفسا نفسی کا عالم ہے کہ ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہا ، وہ جو مادی تر قی کا دھو نس تر قی پذیر ممالک پر جما یا کر تے ہیں ان کے ہاتھ پا ؤں کرو نا کی وجہ سے پھو لے ہو ئے ہیں ، جب چین جیسا ملک کرو نا کی وجہ سے اذیت سے گزرا ، بر طانیہ اور امریکہ کی سانسیں کرو نا کی وجہ سے بے تر تیب ہیں ، پھر ہم کس قطار اور کس شمار میں آتے ہیں ، تمام تر مشکلات کے با وجود مگر مملکت خداداد پاکستان کرو نا کے خلاف سینہ سپر ہے ، اگر چہ کامل طور پر کرونا کی دوا دستیاب نہیں ، مگر پھر بھی ہمارے ڈاکٹر ز کر ونا کے خلاف محاذ پر لڑ رہے ہیں اور خوب لڑ رہے ہیں ، طب کے میدان میں ہم کہاں کھڑ ے ہیں ، ہما رے ہاں طبی سہولیات کا کتنا فقدان ہے ، اس سے پوری قوم آگا ہ ہے ، سب کچھ کے با وجود جذبہ ایما نی ہے کہ جس کے بل پر ہما را طبی عملہ کرونا کے خلاف اپنی قوم کو بچا نے کے لیے سر تو ڑ کو شش کر رہا ہے ، کیا ڈاکٹر اور کیا طبی عملہ سب اپنی اپنی جگہ اپنے فرائض منصبی سے کامل انصاف کر تے نظر آرہے ہیں ، جہاں تک انتظامیہ کا اس سارے قضیے میں تعلق ہے ، پو ری جاں فشانی سے انتظامیہ اپنا کر دار ادا کر تی نظر آرہی ہے ، ان ناخوش گوار ہنگامی حالات میں ڈپٹی کمشنر ، اسسٹنٹ کمشنر ، ڈی پی اوز اور پو لیس کے جوانوں کی پھر تیاں قابل دید ہیں ، کئی اضلاع کے ڈپٹی کمشنر ز ، ڈی پی اوز تو خود گلیوں اور بازاروں میں اپنے شہر یوں کی حفاظت یقینی بنا نے کے لیے گھو م پھر رہے ہیں ، کبھی ڈپٹی کمشنر ” صاحب بہادر “ ہوا کر تے تھے ، زیا دہ تر وقت اپنے دفا تر میں گزارتے ، اہم یاخاص مواقع پر ہی دفاتر سے باہر نکلنے کی زحمت کیا کر تے ، کچھ ایسا ہی چال ڈھا ل ڈی پی اوز صاحبان کی بھی ہوا کر تی تھی ، حالیہ قدرتی آفت میں مگر ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ز کی ” چابک دستی “ قابل تحسین ہے ، ہر ضلع ہر تحصیل میں ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کم از کم کرو نا کے خلاف پو ری عر ق ریزی سے عوام کی زند گیوں کو مامون بنا نے کے لیے کو شا ں ہے ، عام طور پر ہما رے ہاں زیاد ہ تر معاملات ” جگا ڑ “ کے ذریعے چلا ئے جا تے ہیں ،ادھر فائل کا پیٹ بھرا ، ادھر” ہٹو بچو “ کا غوغا بلند کیا اور بس سمجھے کام تمام ، اب کے بار مگر معاملہ کچھ اور ہے ، ہر سر کاری ادارہ اس قدرتی آفت کے خلاف تہ دل سے نبر د آزما ہے ، انتظامیہ خلوص دل سے شہر یو ں کی حفاظت کے لے کمر بستہ ہے مگر ہما رے احباب کرو نا کے قضیے کو سنجیدہ نہیں لے رہے ، کہیں کر کٹ میچ ہو رہے ہیں ، کہیں پتنگ بازی کا مشغلہ ساتویں آسمان پر ہے ، کہیں مل بیٹھنے کی محفلیں عروج پر ہیں ، معاملہ کہاں اٹکا ہے ، ساری بات شعور کی ہے جب تک پاکستان قوم میں کرونا کے بارے میں شعور پیدا نہیں ہو گا ، انتظامیہ لا کھ کو شش کر ے اس کے مثبت نتائج آنے سے رہے ، ملین ڈالر ز کا سوال یہ ہے کہ کرونا کی سنگینی کے بارے میں عوام میں کو ن شعور بیدار کر ے ، سول انتظامیہ تو اپنا فر ض خوب ادا کر رہی ہے ، پو لیس بھی پو ری طر ح قانون کی پاسداری کے لیے سر دھڑ کی با زی لگا چکی ، شعور بیدار کر نے کی ذمہ داری پھر آخر کس کی بنتی ہے ، حکومت وقت کے اعلی دماغوں کی ، عام دنوں میں اپنی سیاست چمکا نے کے لیے دن میں کئی کئی پریس کانفرس کرنے والے ہما رے سیاست داں کرو نا کے بارے میں کو ئی خاص سر گر م نظر نہیں آتے ،مکر ر عر ض ہے کہ جناب وزیر اعظم کو کرونا کی آفت میں ”کپتان “ کا کردار ادا کر نا ہو گا ، مگرتقا ریر اور ٹویٹ سے نہیں ، عملا ً جناب خان کو میدان میں آنا ہو گا ، صرف وزیر اعظم آفس تک خود کو محدود کر نے سے بات بننے والی نہیں ، جب وزیر اعظم مختلف شہر و ں کے دورے کر یں گے ، وہاں اجلاسوں کی صدارات کر یں گے ، جناب وزیر اعظم کی ٹیم ملک بھر میں چلتی پھرتی نظر آئے گی ، اس وقت عوام بھی جناب وزیر اعظم اور ان کے حکومتی رفقاء کی باتوں کو سنجیدہ طور پر نہ صرف لیں گے بلکہ حکومت وقت کے ہدا یات اور احکامات پر عمل بھی کر یں گے ، تمام تر معاملہ ڈپٹی کمشنر اور پو لیس کو سونپ دینے سے کرونا کا علاج ممکن نہیں ، انتظامیہ کے ساتھ جب ملکی قیادت میدان میں آتی ہے تب قوم بھی سنجیدہ رویوں کا مظاہرہ کیا کر تی ہے ، ایک ایسی بیماری جو لا علاج تصور کی جاتی ہے ، اس کا مقابلہ ہم نے غیر روایتی طور طریقوں سے کر نا ہے اور اس سارے معاملے میں حکومت وقت کا کردار وگفتار کلیدی اہمیت رکھتا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :