” ہمیں اپنی سمجھ آتی نہیں خود ، ہمیں خاک سمجھائے گا کوئی “

منگل 31 مارچ 2020

Ahmed Khan

احمد خان

بڑے بھائیوں جیسے پرخلوص اور متین مزاج دوست نے کورونا سے بچاو کے بارے میں تین ویڈیوز ارسال کیں ، ساتھ ہی پوچھ بیٹھے ، کس کی مانیں کس کی نہ مانیں ، تینوں ویڈیوز میں عوامی طبقے سے تعلق خاطر رکھنے والے اپنے اپنے طور پر کورونا کے خلاف مورچہ بند ہونے کے نسخے بتا ررہے تھے، دلچسپ امر مگر یہ ہے کہ تینوں عوامی نسخے ایک دوسرے کو رد کر رہے تھے، ایک صاحب عوام کو تلقین کر رہے تھے کہ کورونا نام کی وبا محض اغیار کی سازش ہے در حقیقت اس نام کی کوئی بلا نہیں سو کسی احتیاط کی ضرورت نہیں ، ایک ویڈیو پیغام میں ایک خاتون خانہ کورونا سے بچاو کے ایسے ایسے الم غلم ٹوٹکے بتا رہی تھیں کہ معاملہ دل کو روؤں کہ جگر کو پیٹوں میں ، بات یہاں پر ہی ختم ہوتی پھر بھی ست خیراں ، سماجی رابطوں کے ذریعوں پر ہر دوسرا شحص کورونا کا ماہر بنا بیٹھا ہے کچھ دیر کے لیے سماجی رابطوں کے کسی ذریعے سے جڑ جائیے پانچ منٹ بعد کورونا سے بچاو کے ایک سو ایک نسخے آپ کو ازبر ہوچکے ہوں گے جہاں تک برقی ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے برقی ذرائع ابلاغ پر تو ایک ریس سی لگی ہے گویاکورونا پر کچھ نیوز چینلز ایسے رواں تبصرہ کررہے ہیں کہ کرکٹ کے معروف مبصر قبلہ حسن جلیل اور قبلہ چشتی مجاہد ان کے رواں تبصرے سن کر شرما جائیں ، ان احباب کے تبصرے سن کر یوں لگتا ہے جیسے کورونا ان کو مانند ہاتھی نظر آتا ہے، اب کورونا فلاں جگہ پہنچا ، اب کورونا فلاں سے چمٹ گیا ، اب کورونا فلاں کے قریب تر ہے ،اب فلاں سے کورونا گلے مل رہا ہے ، اب کورونا فلاں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے، قصہ مختصر نیوز چینلز کو دیکھ کر ناظر کو کامل یقین ہوجا تا ہے کہ کورونا سے ساری دنیا بچ جائے گی مگر میں بچنے والا نہیں ، مہذب اقوا م کے طور طریقے کیا ہیں ، مشکل کی گھڑی میں عوام تمام سماجی اختلافات بھل بھلا کر مشکل سے نکلنے کے لیے یکجا ہو جایا کرتی ہیں، ہمارے ہاں مگر مکتب کا دستور نرالا ہے ،جب کبھی ہم پر کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو ہمارے ہاں جتنی منہ اتنی باتیں کا فارمولا ہر سو چل سو چل ہوجا تا ہے، خدارا کچھ تو سنجیدہ پن کا مظاہرہ کیجیے ،کچھ تو عقل سلیم سے کام لیجیے مشکل کی گھڑی میں تو ڈرانے اور نمبر بنانے سے گریز پا رہیے، مشکل کی اس گھڑی میں ہونا کیا چاہیے تھا ،سب سے پہلے تو ہماری راج دلاری حکومت کا فرض عین تھا کہ کورونا کے خلاف عوام میں صائب طریقے سے شعور اجاگر کرتی ، صحت عامہ سے جڑے ”صاحبان “کے ذریعے کورونا بچاؤکی ملک گیر مہم برپا کرتی مگر اس معاملے میں ہماری پیاری حکومت بر وقت کچھ بھی کر گزرنے سے قاصر رہی، چلیں حکومت وقت کا فرض تو قصہ پارینہ ہوا، اس کے بعد مگر قومی ذرائع ابلاغ کا فرض تھا کہ قوم کو کورونا کی آفت اور ” نزاکت “ سے آگاہ کرتی ،اخبارات اور رسائل کورونا پر خصوصی اشاعت کا اہتمام کرتے، ٹی وی چینلز ” دھیمے “ طور طریقوں سے احتیاطی تدابیر کی تلقین کرتے،عوام کی بات کرتے ہیں، تعلیم اور شعور کے زیور سے آراستہ و پیراستہ طبقہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنا فریضہ سر انجام دیتا مگر اس قوم کی کم نصیبی ملاحظہ کیجیے ، حکومت وقت ” اگر مگر “ کے سانچے میں ایسی پھنسی کہ ہنوز اس سے نکلنے میں کامران نہ ہوسکی، ذرائع ابلاغ ” نمبر گیم “ کے چکر میں زید کی ٹوپی بکر کے سر پر رکھ رہے ہیں، تعلیم سے آراستہ طبقے کو اپنی جانیں عزیز تر ہیں، سو عوامی سطح پر ایک ہڑ بونگ کی سی صورت حال برپا ہے، عام آدمی اس آفت میں کدھر جائے، کیا کرے کیا نہ کرے ،کس کی مانیں کس کی نہ مانیں ، کس سے رہنمائی لیں، اپنی جان بچاؤکے لیے کیا کریں کیا نہ کریں ،سیدھی راہ دکھانے والا کوئی نہیں ، ہر دوسرا شخص کورونا کے بارے میں اپنے نظریات کا پرچار کر رہا ہے،ہر دوسرا شخص داکٹر بن کر اپنا نسخہ بیچ رہا ہے، قومی سطح پر ” ماہرین “ کی بہتات سے نقصان کیا ہورہا ہے ، کسی کو کچھ سوجھائی نہیں دے رہا کوئی کوروناکو افواہ سمجھ کر ہر احتیاط سے لا پرواہ گھوم رہا ہے، کوئی کورونا سے بچنے کے لیے گھر میں دبکا بیٹھا ہے، بہت سے کمزور دل شہری کورونا کے خوف سے باقاعدہ نفسیاتی مریض بن چکے، ملین ڈلر ز کا سوال یہ ہے ، کیا مشکل کی گھڑی ہم ایک مہذب قو م نہیں بن سکتے، کیا مشکل کی گھڑی میں ہم آپس کے اختلافات بھلا نہیں سکتے ، مہذب اقوام کا وطیرہ کیا ہے، مشکل کی گھڑی میں مہذب اقوام ایک ہو جایا کرتی ہیں اور اپنے سر آئی بلا سے جان چھڑانے کے لیے ہر وہ تدبیراختیار کرتی ہیں جس سے ان کی جان کو امان حاصل ہو ہمارے ہاں مگر ہمیشہ سے ایک انار سو بیمار کا معاملہ چل وسو چل ہے وجہ دراصل یہی ہے کہ ہم اپنے منفی رویوں کی وجہ سے چھوٹی سی مشکل کو بھی اپنے لیے پہاڑ بنا لیتے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :