”عظیم لوگ“

پیر 22 جون 2020

Ahmed Khan

احمد خان

خبر ہے کہ ایک جو ڑے کے ہا ں معذور بچے کی پیدا ئش ہو ئی جو ڑے نے معذور ہو نے کی بنا پر بچے کو لینے سے انکار کر دیا اس ” خاص “ بچے کو ایک خدا ترس جو ڑے نے گود لے لیا ، ایک صاحب ہیں جن کے دو ” بچے “ خاص “ درجے سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کی پرورش اور پہنا وے میں انہو ں نے کبھی امتیا زی سلو ک ان سے نہیں بر تا ، خوش گوار حیر ت تب ہو تی ہے جب ان بچو ں کے تمام رشتہ دار بھی ان سے انتہا ئی شفقت آمیز سلو ک کر تے ہیں ، وہ صاحب نہ تو اپنے ان ” خاص “ بچو ں کی وجہ سے کسی احساس کمتری کا شکار ہیں نہ ہی اپنے ان بچو ں کو کسی سے ملا تے ہو ئے شرم محسوس کر تے ہیں ، ہمارے ایک اور بے تکلف دوست ہیں ، ہر وقت ہنستے مسکراتے بلکہ کھلکھلاتے رہتے ہیں فکر کو دامن گیر نہیں ہونے دیتے اور مال کے حوالے سے رب کریم نے انہیں خوب نواز رکھا ہے ، ان کی اولاد نہیں ہے ، انہو ں نے اولاد کی کمی دور کر نے کے لیے ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین بچے گو د لیے ہیں ، ان میں سے دو بچے بھلا کو ن سے ہیں ، وہ بچے جنہیں معاشرہ ” ولدیت “ دینے سے انکاری ہو تا ہے ، انہو ں نے ان بچوں کو نہ صرف اپنی ولدیت دی بلکہ ان بچو ں کو اعلی درس گا ہو ں میں تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کر رہے ہیں ، مو صوف ہا تھ کے انتہا ئی کھلے واقع ہو ئے ہیں ، جب بھی عر ض کیا کہ ذرا ہا تھ ہولا رکھیں ، جو اباً کہتے ہیں کہ ان بچو ں کے صدقے رب کریم اتنا دے رہا ہے جس کی میری اوقات نہیں ، گزشتہ دنوں ملا قات ہو ئی ، کاروبار کے بارے میں پو چھا ، بولے اس وبا نے کروڑ پتی گردانے جا نے والوں کو پر یشان کر رکھا ہے مگر مجھے ان بچو ں کے صدقے اس دور ابتلا میں بھی رب کریم نے رزق میں فراوانی عطا کر رکھی ہے ، دراصل یہی ہمارے معاشرے کے عظیم لوگ ہیں یہی ہمارے معاشرے کا توقیر ہیں، ان عظیم لوگوں کے ساتھ مگر ہمارا معاشر ہ کر کیا رہا ہے ،ذرا وہ بھی سنیے کچھ عرصہ پہلے ان محلے میں جانے کا اتفاق ہوا ، سو چا ان سے بھی سلام دعا ہو جا ئے ، گھر کے دروازے پر دستک دی ، مو صوف کے بھا ئی نکلے اور بولے کہ وہ تو اب فلا ں محلے میں رہتے ہیں ، کچھ دن بعد ملا قات ہو ئی حیر ت سے پو چھا کہ اچھا بھلا اپنا گھر ہو تے ہو ئے کر ایے کے گھر وں میں رہنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ، بولے ، جب بچے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو اہل محلہ بچو ں کو کہتے ہیں کہ یہ تو آپ کے امی ابو نہیں ، ساتھ بہت کچھ اور بھی بتلا یا ، کس کس سے لڑوں کس کس کو سمجھا ؤ ں ، بس اب ہر سال کرایے کا مکان تبدیل کر تا ہوں تاکہ بچو ں کے ذہن پر برا اثر نہ پڑ ے ، سب قصہ سن کر افسو س ہو ا، آخر ہمارا معاشرہ دوسروں کے ٹو میں رہنے کی عادت سے باز کیو ں نہیں آتا ، اگر ہم کسی کی زندگی میں شیرینی گھو لنے کی توفیق سے محروم ہیں پھر کم از کم دوسروں کی زندگیوں میں زہر گولنے سے تو باز رہیں ، اسی سے ملتے جلتے ایک اور سما جی مسئلے نے ہزا روں گھر وں کا سکو ں تہ و بالا کر رکھا ہے ، بہت سے بے اولاد جو ڑے ہیں ان میں بہت سے ایسے جو ڑے ہیں جنہو ں نے اولاد نہ ہو نے کو اللہ تبارک وتعالی کی رضا سمجھا اور ہنستے مسکراتے زندگی گزار رہے ہیں مگر ایسے بے اولاد جو ڑو ں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے اولاد نہ ہو نے کو دل کا روگ بنا رکھا ہے، عزیز و اقارب ان کی اس کمی کوبا توں باتوں میں مزید بڑ ھا وا دیتے ہیں ، بہت سے بے اولاد جو ڑے اس وجہ سے ہلکان ہو رہے ہو تے ہیں کہ ان کے مر نے کے بعد ان کی ڈھیر ساری مال و دولت ” غیروں “کو مل جا ئے گی بعض کہتے ہیں کہ کو ئی وارث ہو تا تو کم از کم جنا زے کو کندھا تو دیتا ، جہاں تک مال و دولت کی بات ہے ، اس بارے میں ایک اصول اپنا لیجیے ، اپنا مال زندگی میں جتنا ہو سکے اللہ تبارک وتعالی کی راہ میں خرچ کیجیے دوسرا اپنی ذات پر جتنا ہو سکے خر چ کیجیے ، آپ کے کوچ کر جا نے کے بعد آپ کی دولت آپ کے اپنوں کو ملے چا ہے غیروں کو ملے ، آپ کے کسی کام کی نہیں ، دولت وہی آپ کی کا م ہے جو آپ نے اللہ تبارک وتعالی کے حب میں خرچ کی اور جو اپنی ذات پر خرچ کی ، جہاں تک بات ہے جنا زے کو کندھا دینے کی ،خلق خدا کی راہ میں کا نٹے بچھا نے کی جگہ پھو ل بچھا نے کی عادت اپنا ئیے ، دوسروں کے ساتھ معاملات مثالی رکھیے ، دیکھ لیجیے غیر نہ صرف آپ کے جنازے کو کندھا دیں گے بلکہ آپ کے پیچھے بلک بلک کر روئیں گے بھی اور آپ کے درجات کی بلندی کے لیے اللہ تبارک وتعالی کے حضور دعا گو بھی رہیں گے ، بس اتنا کیجیے کہ خلق خدا کے حوالے سے اپنے آپ کو ” عظیم لوگوں “ کی فہر ست میں شامل کر لیجیے، کل کی مثال آپ کے سامنے ہے طارق عز یز کی تو کو ئی اولاد نہ تھی پھر کیو ں وطن عزیز کے سارے بیٹے بیٹیاں طارق عزیز کے غم میں نڈھا ل ہیں ، طارق عزیز کو کفن بھی نصیب ہو ا ، قبر بھی نصیب ہو ئی اللہ تبارک وتعالی نے جنا زے کو کندھا دینے والے بھی پیدا کیے ، گزار ش بس اتنی سی ہے کہ بڑی بڑی خو شیوں کے آس میں گھر کے دروازے پر چھوٹی چھوٹی خوشیاں دستک دے رہی ہیں ان کے لیے اپنے گھر کے دروازے وا کیجیے یہی چھوٹی چھو ٹی خوشیاں تو زند گی کا حسن ہے اور آپ اس حسن سے منہ مو ڑے بیٹھے ہیں ، اللہ تبارک وتعالی کی رضا میں خوش رہنا سیکھیں ، آپ کی بہت سی الجھنیں بہت سی پر یشانیاں خود بخود ختم ہو جا ئیں گی ، اور ہا ں اگر آپ کے ارد گرد اوپر کے سطور میں بیاں کر دہ عظیم لوگ رہتے ہیں تو ان کو سلوٹ کر نا نہ بھولیں ، انہی کے دم خم سے تو یہ دنیا حسیں ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :