” ریاست ماں جیسی “

پیر 6 جولائی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

چلیے کچھ ہی سہی مگر پیرا نہ سالی کے دھیان نگر میں رہنے والوں کی پنشن میں حکومت وقت نے اضافہ کرکے ان کی اشک شو ئی کا کچھ تو ساماں کر دیا ہے ، کیا ان چند ہزار میں گزر اوقات ممکن ہے یہ سوال آپ پر چھوڑے دیتے ہیں ،قو می خزانے کو چونا لگانے والے ان بزرگو ں اور نچلے عہد وں پر کا م کر نے والے ملازمین کا تذکر ہ ذرا تفصیل سے کر تے ہیں ، ہر حکومت کو بزرگوں کی پنشن اور نچلے عہد وں پر فرائض سر انجام دینے والوں کی تنخواہیں آنکھو ں میں کٹکتی ہیں ، حالیہ بجٹ میں تو انصافین حکومت نے انصاف کے تقاضو ں کو پورا کر تے ہو ئے سر ے سے بو ڑھے پنشنروں اور نچلے عہدوں پر فرائض سر انجام دینے والوں کو ” چوسنی “دینے کی زحمت بھی گوارانہیں کی ، حالیہ بجٹ میں قلیل ہی سہی اضافے سے محروم ہو جا نے والے بزرگ پنشنر نے واویلا مچا یا ، جواباً کو ن سے طعنے تھے جو ان کو نہیں دئیے گئے ، اگر اسی طر ح سے بچت کا چلن عام کر نا ہے پھر حکم صادر فر ما ئیے کہ بزرگ ، معذور اور بے روز گار نو جوان دھر تی کے سینے پر بو جھ ہیں ، حیلے بہا نے کر نے کی چنداں ضرورت نہیں سیدھے سبھا ؤ انہیں گو لی ما رنے کا حکم صادر کیجیے ،نہ رہے گا بانس نہ رہے گی با نسری ، حکومت وقت سے بھی کیسے کیسے نا یاب ہیر ے جڑ ے ہیں ، کیسے کیسے ” اعلی دماغ “ وزیر اور مشیر جناب وزیر اعظم کو بچت کے نئے نئے گر بتا تے ہیں ،قر ضے کس نے لیے سابقہ حکومتوں نے بھی اور مو جودہ حکومت بھی اس خو سے پاک نہیں ، بیرونی قر ضوں کا کتنا فیصد عام آدمی پر خرچ ہوا ، ظاہر ہے جواب صفر سے بس ذرا سا آگے ہے ، بیرونی قر ضوں سے ہر دور کے حکمرانوں نے اپنا اپنا الو سیدھا کیا ، حکمرانوں کے اللو ں تللو ں سے وطن عزیز قرضوں کے جال میں جکڑ تا چلا گیا ، حکمران اور ان کے مصاحبین اور ہم نواؤں کی تجو ریاں مگر بھر تی چلی گئیں ،حضور اگر قر ضوں کی ادائیگی کی فکر دامن گیر ہے، جنہو ں نے اس بہتی گنگا میں آشنا ن کیا ان کی گر دنیں نا پیں ان کے پیٹوں سے مال مفت کی وصولی کا عمل تیز کر یں ، صدر ، وزیر اعظم ، وزیروں مشیروں ، ایم این اے ایم پی اے اور ناز نین افسر شاہی کے اخراجات کو کٹ لگا ئیں ، صدر سے لے کر ایم پی اے تک اگر یہ محبان وطن پانچ سال بغیر تنخواہ اور مراعات کے ملک و قوم کی خدمت کر لیں ان کی “ مالیات “ پر رتی برابر اثر نہیں پڑ ے گا مگر اس اقدام سے ملک و قوم کا بہت سا بھلا ہو جا ئے گا ، یہ کیا کہ قر ضوں کے نام پر عیاشی آپ کے ہم عصر حکمران قبیلے نے کی اور دامن نچوڑنے چلے ہیں عام آدمی کی ، در اصل حکومت وقت کی یہی وہ پالیسی ہے جو ” بچت “ کے نام پر عوام کے لیے وبال بنی ہو ئی ہے ، ریاست تو ماں کی طرح ہو تی ہے جس کا دل ہر بچے کے لیے یکساں دھڑکتا ہے ، بلکہ اولاد میں کسی بھی وجہ سے جو بچہ زندگی کے دو ڑ میں ” پیچھے “ رہ جا ئے ما ں اس کے سر پر سایہ بن جا یا کر تی ہے ، عین ریاست اور عوام کا تعلق بھی ما ں اور اولاد والا ہے ، فلاحی ریاست ما ل دار طبقے سے محصولات کی صورت میں رقم وصول کرتی ہے اور اس رقم کو پسے ہو ئے طبقات پر خرچ کر تی ہے ،فلاحی ریاست کا ہر قدم اپنے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر نے کی جانب اٹھتا ہے ، وطن عزیز میں مگر کر ے امیر بھر ے غریب کا اندھا قانون رائج ہے ، صدر ، وزیر اعظم ، وزراء ، مشیران اکرام ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو لاکھو ں میں تنخواہیں قومی خزانے سے دی جاتی ہیں ، وطن عزیز کے اس ” غریب ترین طبقے “ پر مراعات کی نواشات الگ سے ہیں ، بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو تی بلکہ ان ” مہر بانوں “ کے قریب رہنے والے صد ر ، وزیر اعظم ، قومی و صوبائی اسمبلیوں ، وزارت خزانہ اور وزارت قانون جیسے محکموں کے ملا زمین پر قومی خزانہ الگ سے لٹا یا جا تا ہے ، بے روز گار نوجوانوں ، نچلے عہد وں پر فرائض سر انجام دینے والے ملازمین ، بو ڑھے پنشنر اور نجی اداروں میں اپنی جوانیوں کو “ دھوا ں“ بنا نے والوں کے لیے حکومت وقت کے پاس مگر ” چند فیصد “ پنشن اور تنخواہ بڑھا نے کے لیے رقم نہیں ، کچھ ایسا ہی در د ناک قصہ نجی اداروں ، کارخانوں ، فیکٹریوں ، کمپنیوں اور صنعتی اداروں کا ہے ، نجی اداروں کے ” سیٹھ “ انہی ملازمین کی محنت شاقہ کے بل پر ارب پتی بلکہ کھر ب پتی بن چکے مگر نجی اداوں کے ملا زمین کو نہ تو ملا زمت کا تحفظ حاصل ہے نہ ان کی تنخواہیں ” محنتانے “ کے برابر ہیں ، سچ پو چھیے تو چند ایک اداروں کو چھوڑ کر نجی سطح پر ” خرکار “ نظام کا عملاً راج ہے ، سابقہ اور مو جودہ حکومت اگر جامع طرز کی قانون سازی اس بابت کر تی شاید بہت سے محنت کشوں کا بھلا ہو جاتا مگر حکومت وقت بچت کے بہانے سفید پو شوں کو اب ” ستر پو شی “ سے بھی محروم کر نے کے درپے ہے ، کیا عجب زمانہ آگیا کہ ماں اپنی اولاد کو نو چنے کے لیے پر تولے بیٹھی ہے ،جناب خان ہمیشہ سے مغرب کی طر زہا ئے حکومت کی مثالیں دیتے رہے ہیں ، مغرب کی حکومتیں تو بچے کے پیدا ئش سے اس کی کفالت اپنے ذمہ لے لیتی ہیں ، وہی بچہ جب بڑا ہو کر بے روز گار ہو تا ہے اسے بے روز گاری الا ؤنس دیا کر تی ہیں اور بڑھا پے میں اسے در در کی ٹھو کریں کھا نے سے بچا نے کے لیے بڑھا پا الا ؤنس دیا کرتی ہیں ، المیہ ملا حظہ کیجیے کہ جناب خان کی حکومت میں مو جود اعلی دماغ بے روز گاروں ، نچلے عہد وں پر کام کر نے والے ملا زمین اور بزرگ پنشنر کی سانسیں بند کر نے کے درپے ہیں، خدارا بے روز گاروں کی بد عا اور قلیل پنشن لینے والے بزرگوں کی آہ سے بچیں ، عرش پر ان کی شنوائی ہو گئی پھر آپ کدھر جا ئیں گے ، سو چ لیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :