”تحسین“

ہفتہ 1 اگست 2020

Ahmed Khan

احمد خان

پنجاب کی سطح پر نوید ہے کہ گورنر اور وزیر اعلی کے دفاتر میں ” فائل “ کو زنگ لگنے نہیں دیا جا ئے گا بلکہ معین وقت میں دونوں بڑوں کے دفاتر میں ” فیصلہ کن امور “ کو نمٹا یا جا ئے گا اگر پنجاب کی حکومت اپنے اس فیصلے پر عمل در آمد کروانے میں کامران ٹھہر تی ہے اس سے سرکار ی امور کی انجام دہی میں ” سر خ فیتے “ کا کم از کم مو جودہ حکومت کے عہدمیں خاتمہ ہو جا ئے گا ، گورنر اور وزیر اعلی کے دفاتر میں ارسال کی گئیں سمریاں عرصے تک دونوں بڑوں کا انتظار کر تی ہیں مگر بادشاہ چونکہ مزاج کے اسیر اور دل کے ” فقیر “ ہو تے ہیں سو جو امور منٹوں میں سرانجام دئیے جا سکتے ہیں ان پر ” امر “ صادر کر نے میں ہفتوں بلکہ مہینوں لگ جا تے ہیں جناب شہباز شریف ” سمر ی “ پر دستخط ثبت کر نے کے حوالے سے اچھے بھلے ” کھٹور دل “ ثابت ہو ئے ہیں ، جناب شہباز شریف اگر چہ اپنے خاص افسر ان کو خوب لاڈ دیا کر تے تھے مگر دفتری امور کو دوسروں کے سر جڑ نے کے بجا ئے ایک نظر لازماً خود ملاحظہ کر تے تھے چو نکہ چھوٹے میاں صاحب طبعاً سخت گیری کی شہرت سے مالا مال تھے ، ان کے مزاج کو دیکھتے ہو ئے ان کے قربت کا دم بھر نے والے افسران بھی انہیں کسی فائل یا سمر ی پر دستخط ثبت کر نے کے حوصلے سے محروم تھے ، دوسری جانب جن بے کسوں کے معاملات جناب شہباز شریف کے میز پر پڑ ے ہو تے وہ انتظار در انتظار کی سولی پر لٹکے رہتے ، دفتری امور نمٹا نے کے حوالے سے صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ مر کز سمیت تمام صوبوں کے بڑوں کا چلن اریب قریب یہی رہا ہے بلکہ اب بھی ہے ، بڑوں کے دفاتر میں فائل یا سمری جا تی ہے مگر واپس کب آئے گی خدا جا نے یا جن بڑوں کے میز پر فائل یا سمر ی پڑ ی ہو تی ہے وہ جا نے ، اختیار کے بانکوں کی عوامی مسائل کے باب میں روا رکھی جا نے والی اس ” بے رخی “ بلکہ بے رغبتی سے عوام سے لگ کھا نے والی ” فائل “ چیونٹی کی رفتار سے سفر طے کر تی ہے ، خر بوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ نہ پکڑے بھلا وہ پھر کیسے خر بو زہ ہو سکتا ہے ، جب بڑوں کے امور کی انجام دہی کا حال اتنا ماٹھا ہوگا ظاہر ہے ان کے ماتحت کام کر نے والی افسر شاہی کی فرائض کی انجام دہی کا چلن بھی کچھ اسی طر ح ہو گا ،اپنے ”بڑوں“ کی طرح افسر شاہی کے دفاتر میں بھی کچھ اسی طر ح کا ” کاہلی آمیز “ طر زعمل چل سو چل ہے ، سرکاری دفاتر میں اگرجلد کام نکلوانا ہے پھر فائل کو ” واسطے “ کے پہیے یا ” چمک “ کی خو ش بو لگا نی ضروری ہے ، تعلق خاطر کا حربہ الگ سے استعمال کر نا از حد ضرور ی ہے ، عوامی اور اجتماعی مسائل پر ٹال مٹول کی اس پا لیسی سے پو رے کا پورا نظام الٹ پلٹ ہو چکا ہے ، جو کسی واسطے اور پیسے کی طاقت سے لا چار ہو تے ہیں انہیں قدم قدم پر ” پل صراط “ کا سامنا ہو تا ہے البتہ جن کا ” واسطہ “ ہو تا ہے جن کا رسوخ کا سورج سوانیزے پر ہوتا ہے جن کے ہاتھ میں طاقت کی ” چھڑی “ ہو تی ہے ان کے جائز بلکہ ناجائز کا م بھی منٹوں میں ہو جا تے ہیں مگر بے کسوں کو اپنے جائز حق کے لیے سینکڑوں بار دفاتر کے چکر لگا نے پڑ تے ہیں اس کے باوجود انہیں ” کل “ کا کہہ کر پھر آنے کو کہا جا تا ہے مگر وہ ’ ’ کل “ کبھی نہیں آتا ، بہت سے لا چار سرکاری دفاتر کے چکر لگا لگا کر دل ہا ر کر گھر بیٹھ جا تے ہیں اور بہت سے اسی ” گول مو ل “ پالیسی کی پر یشانی کو دل پر لے کر اگلے جہاں کے مسافر بن جا تے ہیں ، دل چسپ امریہ ہے کہ مر کز اور صوبوں میں بہت سے امور پر عدالتی فیصلے سائلین نے ہاتھوں میں اٹھا رکھے ہیں مگر اہل اقتدار اور افسر شاہی کی دلیری بلکہ دیدہ دلیری ملاحظہ کیجیے، صبح شام آئین کی پاسداری اور قانون کی تا بعداری کی رٹ لگا نے والے عدالتی فیصلوں پر عمل در آمد سے بھی کھلے بندوں مکر جا تے ہیں ، بڑ وں کے دفاتر کے اس طر ز عمل کا سیدھے سبھا ؤ کیا مطلب نکلتا ہے یہ کہ جو کر نا ہے کر لو ہم اتنے طاقت ور ہیں کہ عدالت عالیہ اور عدالت عظمی کے صادر کیے گئے فیصلوں اور احکامات کی ہمیں پروا تک نہیں ، آپ کس باغ کے مولی ہیں ، جس طر ح پنجاب کے بڑوں نے دفتر ی امور میں ” سر خ فیتے “ کی رسم ختم کر نے کی نوید قوم کو سنا ئی ہے عملی طور پر اس پالیسی پر اگر حکومت پنجاب رواں ہو تی ہے یقین کیجیے کئی دہا ئیوں سے سرکار کے دفاتر میں رلنے والے سائلین کے مسائل دنوں میں حل ہو جائیں گے اور تحریک انصاف حکومت کی بھلے بھلے الگ سے ہو جا ئے گی ، دراصل سرکار کے دفاتر میں سست روی اور جاتنے بوجھتے غفلت کی پا لیسی نے ہر حکومت سے عوام کو بد ظن کر نے میں کلیدی کر دار ادا کیا ہے ، ہر سیاسی جماعت عوام کی خدمت کے دعوے کر کے اقتدار میں آتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مسائل کے باب میں ” سر خ فیتے “ کی چلن سے عوام کی نظروں میں گر جا تی ہے ، دیکھیے انصاف کی نام نامی جماعت کے بڑوں نے عوام کی دل کی آواز پر لبیک تو کہا ہے عملاً تحریک انصاف کے بڑے کیا کر تے ہیں ، دھیرج رکھیے آنے والے دنوں میں اس اہم تر معاملے کا بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جا ئے گا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :