متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے صاحب کی شہزادی نے نہ صرف ایف ایس سی کے امتحاں میں کا مرانیوں کے جھنڈے گا ڑھے بلکہ میڈیکل کا لج میں داخلے کاٹیسٹ بھی پاس کر گئی ، شاداں و فرداں باپ اپنی بیٹی کو متعلقہ میڈ یکل کالج لے گئے ، کا لج انتظامیہ نے اڑ تالیس لاکھ فیس کا ” نسخہ “ مو صوف کے سامنے رکھا دیا ، سفید پو شی کا بھر م نبھا نے والے باپ نے کا لج انتظامیہ سے عر ض کیا بچی کا تعلیمی ریکارڈ ملا حظہ کر لیجیے ہر تعلیمی درجہ بچی کیا ذہانت ، فطانت اور کا مرانیوں سے جگمگا رہا ہے میں گھر کا واحد کفیل ہو ں اتنے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا فیس کے مد میں کچھ رعایت کر لیجیے ، کا لج انتظامیہ نے کمال بے نیازی سے کہا، ہم سے کچھ امید اس باب میں نہ رکھیے جا ئیے کسی حکومتی ادارے کے در پر دستک دیجیے اگر اڑتالیس لاکھ کا بندوبست ہو گیا پھر آجا ئیے ، جہاں جہاں اور جس جس حکومتی ” در “ سے کچھ امداد کی رتی برابر بھی امید تھی مو صوف نے ہر اس حکومتی در پر دستک دی جواب مگر وہی صفر بٹا صفر برابر صفر ، ساری رام کہانی کا نیتجہ یہ کہ جس بچی نے محنت سے اپنا مستقبل روشن کے لیے سالوں اپنا خوں جلا یا جسے کل کلا ں اس دھر تی کا ممتاز ڈاکڑ بننا تھا وہ اور اس کا ”برگد “اپنی ناکام حسرتوں پر آنسو بہا رہے ہیں ، ایک اورپڑ ھے لکھے سپوت کے درد دل میں بھی شر یک سفر ہو جا ئیے ،جوان رعنا نے نامی گرامی اعلی درس گا ہ سے انجینیرنگ کی ڈگر ی حاصل کر رکھی ہے ، والد کا سایہ کب کا سر سے اٹھ چکا یہ جوان رعنا بھی گھر کے واحد کما ؤ پوت ہیں تگڑی سفارش کے وصف سے مگر وطن عزیز کا یہ جوان محروم ہے سو گھر ہستی چلا نے کے لیے صبح سے رات تلک گھر گھر جا کرٹیو شن پڑ ھا کر وقت کو دھکا دے رہاہے، لگے دنوں سر راہ ملے ، حال چال پو چھا کہنے لگے ہمشیرہ کی شادی کی تاریخ طے ہے اور جیب میں سو ” چھید “ ہیں ، خط غربت کے اریب قریب طالب عالم کے دل کے زخم بھی عیاں کر دیتے ہیں ، سرکار کے اسکولوں میں پڑ ھا اور خوب پڑھا ، غربت کا سینہ چیر تے چیر تے ایف ایس سی کا میداں ایسا ما را کہ سب حیراں رہ گئے ، بات گھوم پھر وہی ہر اہم اعلی درس گاہ کا داخلہ ٹیسٹ پاس کیا مگر بات وہی پر آکر رکتی رہی کہ بھاری بھر کم تعلیمی اخراجات کہاں سے ادا کر یں ،لگے کئی ما ہ سے تعلیمی اخراجات پورا کر نے کے لیے ہا تھ پا ؤں مار رہے ہیں مگر نتیجہ ڈاک کے وہی تین پات ، احباب کو درمیاں میں ڈالنے کے باوجود مگر آنکھو ں میں سپنے سجا ئے وطن عزیز کے اس ” کریم “ کے لیے دس پندرہ ہزار کی ” چاکری “ دلوانے میں ناکام رہا ، کل ملنے آئے دل گر فتہ لہجے میں بولے کسی ایسے رحم دل ٹھیکدار کے ساتھ مزدوری پر لگا دیجیے جو مجھے یو نیورسٹی کے بعد مزدوری پر رکھ لے کہ اپنے تعلیمی اخراجات کا بوجھ اٹھا سکوں ، بے ساختہ کما نڈو آمر یا د آئے اور خوب یاد آئے جس کی زندگی گولی چلا نے اور گولی کھا نے کی تر بیت سے لیس تھی مگر اس دور میں اعلی تعلیم کے شعبے میں ضرورت مند نوجوانوں لڑکے لڑ کیوں کو ڈاکڑ عطا الر حمن کی سر گر دگی میں وظائف کا سلسلہ ” باد بہاری “ کی چلتا رہا ، اس قصے میں شہبازشریف کا سم گرامی بھی آتا ہے انہو ں نے بھی غریب اور نادار طلبہ و طالبات کے اخراجات کے لیے باقاعدہ ایک فنڈ مختص کیا تھا مگر جیسے ہی مشرف اور شہباز شریف کو چہ اقتدار سے رخصت ہو ئے ، نوجوانوں کا دم بھر نے والی تحریک انصاف حکومت نے ضرورت مند طلبہ و طالبات کی مالی سر پر ستی سے بھی بے وفا محبوب کی طر ح ہا تھ کھینچ لیا ، آج ذہانت اور فطانت سے لیس طلبہ و طالبات اہلیت اور قابلیت کے وصف سے آراستہ ہو نے کے باوجود اعلی تعلیم کے حصول سے محروم ہیں ، جو ریاست اتنے ذہین طلبہ وطالبات کی سر پر ستی سے ہاتھ اٹھا لے جس ریاست کی حکومت اعلی تعلیم کی اہمیت سے کامل نا بلد ہو اس ریاست میں پھر راج مزدور ہی پیدا ہو ں گے ، اس ریاست کی زمام اقتدار پھر کنند ذہنوں کے ہاتھوں میں نہ جائے پھر بھلا کس کے ہاتھ میں جا ئے ،نوجوانوں کو ماتھے کاجھو مر بنا نے کے دعوے داروذرا نو جوانوں کی ضرورتوں اور امنگوں پر دھیان کر دیجیوذرا ان کے سر وں پر بھی مالی دست شفقت رکھییو، اپنی ذہین فطین طلبہ و طالبات کی مالی دستگیری کی خو اپنا ئیے ورنہ پھر گامے ماجھے ہی اس ملک کا مقدر بنیں گے ، جماعت اول سے ثانوی درجے تک مفت تعلیم کا ڈھنڈورا حکومت پیٹ رہی ہے ، ثانوی درجے کے اخراجات اریب قریب پچانوے فیصد سفید پوش برداشت کر سکتے ہیں بے شک ثانوی درجے تک نام نہاد مفت تعلیم کی فراہمی کے نما ئشی منصوبے کو دریا برد کر دیجیے ، اصل میں ضرورت مند طلبہ و طالبات کو حکومت کی سرپر ستی اعلی تعلیم کے مدارج میں درکار ہوتی ہے مگر اس اس مو قع پر حکومت ہو نہار طلبہ کے سر سے ہا تھ اٹھا کر ان کے ساری محنت کا خون کر دیتی ہے ، خدارا نما ئشی تعلیمی منصوبوں سے دو گام آگے بڑھیے اور حقیقی معنوں میں جب طلبہ و طالبات کو حکومت وقت کی دست شفقت کی ضرورت پیش آئے اس وقت حکومت ان ذہین مگر ضرورت مند طلبہ و طالبات کی ” مالی رہنما ئی “ کر نے والے ” جگنو“ کا کر دار ادا کر ے مگر نقار خانے میں طو طی کی آواز بھلا کو ن سنتا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔