”اراضی سنٹر کے ادارے کو عوام دوست بنائیں“

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

جا ئیداد اور جا ئیدا د سے جڑ ے معاملات کو کمپیوٹر کے حوالے کر نے پر عوام نے سکھ کا گہرا سانس لیا ، عوام کے خیال میں اب زید کی جائیداد بکر کے نام کر نے جیسی شکا یات کا خاتمہ ہو جا ئے گا ، جائیداد کی خرید و فروخت اور جا ئیداد کی منتقلی میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کا سر ے سے کاخاتمہ ہو جا ئے گا اراضی کے معامات میں جعل سازی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جا ئے گی ، کم نصیب عوام کومگر اراضی سنٹر ز پر بھی کم و پیش انہی مشکالات کا سامنا ہے پہلے ” پٹواری ازم “ کے ہاتھوں عوام الناس رسوا تھے اب اراضی سنٹر ز کے اہل کاروں کی پیدا کر دہ ’ ’ خواہ مخواہ “ طرز کی مشکلات عوام کے لیے درد سر بنے ہو ئے ہیں ، پنجاب کے اکثر اراضی سنٹرز میں لگے سالوں میں ” آپ کا کھیوٹ بلاک ہے “ کی اصطلاح نے خوب شہر ہ حاصل کیا جب کو ئی شہری اپنی جائیداد فروخت کر تا ہے اور جائیداد کی منتقلی کے لیے اراضی سنٹر ز سے رجوع کر تا ہے جواب ملتا ہے آپ کا کھیوٹ بلا ک ہے آپ کو فرد جاری نہیں کیا جاسکتا ، کھیوٹ پھر کیسے کھلتا ہے جن کا واسطہ تعلق اراضی سنٹر ز سے اس معاملے میں پڑا ہے اس کا جواب ان احباب کو بھلے طرح سے معلوم ہے ، کم و پیش ” انتقال صحت “ کی درستی کے معاملے میں بھی اراضی سنٹر ز کے بارے میں شکایات زبان زد عام ہیں ، پنجاب میں محکمہ مال کا قلم داں کر نل ( ر ) انوار خان کے پاس ہے ، بھلے انسان ہیں ، نفیس مزاج کے مالک ہیں عرصہ دراز سے سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ، سیاست داں ہیں مگر سیاست دانوں کے روایتی ” خوبو“ سے کوسوں دور ہیں ، طویل عرصہ سے سیاست میں ہو نے کے باوجود مالی بد عنوانی سے اپنے نام کو پاک رکھے ہوئے ہیں ، نر م خو ہیں مالی حوالے سے اجلے دامن وزیر کے لیے اراضی سنٹر ز کی یہ صورت حال نہ صرف تحریک انصاف بلکہ حلیم طبع وزیر کی بد نامی کا باعث بھی بن رہی ہے ، اراضی سنٹر ز کو عوام دوست ادارہ بنا نے کے لیے اگر حکومتی سطح پر چند اقدامات کیے جا ئیں اور پھر سختی سے ہر اراضی سنٹر پر ان کا نفاذ سرکار یقینی بنا ئے امید ہے اس سے عوام کی بہت سے شکا یات تکالیف اور مشکالات کا سدباب ممکن ہو سکے گا ، مو جودہ حکومت نے فر د کے حصول کے لیے فون پر ٹوکن نمبر کا طریق کار کا نفاذ کیا ہے ایک فون نمبر ہے جسے پنجاب بھر کے تمام اضلا ع کے لیے مختص کیا گیا ہے یہ طریقہ انتہا ئی مشکل اور پیچیدہ ہے فر د کے حصول کے لیے پرا نے طریقہ کار کو بحال کیا جائے یعنی ہر اراضی سنٹر پر فرد کے حصول کے لیے ٹوکن حاصل کر نے کا شفاف نظام نافذ کیا جا ئے تاکہ ہر تحصیل کے شہری باآسانی فرد حاصل کر سکیں، کھیوٹ بلا ک کے نام پر جو اہل کار شہر یوں کو مال بٹورنے کے لیے تنگ کرے اس اہل کار کے خلاف سخت قانونی کا رروائی روبہ عمل لا ئی جائے ، پنجاب بھر کے اضلاع میں رجسٹری میں حدود اربعہ لکھنے کے احکامات جاری کیے جا ئیں کئی اضلاع میں ” بوجوہ “ رجسٹری میں حدود اربعہ درج نہیں کیا جاتا ، ایک ضلع ایسا ہے جس کے کئی تحصیلوں میں رجسٹری میں حدود اربعہ درج کیا جاتاہے مگر اسی ضلع کی ایک تحصیل میں رجسٹری میں حدود اربعہ درج کر نے پر پا بندی عائد کی گئی ہے ، اراضی سنٹر ز کے دفاتر میں جد ید کیمر ے نصب کیے جا ئیں اور ان کا کنٹرول مرکزی اراضی سنٹر سے منسلک کیا جا ئے ، اراضی سنٹر اگر فروخت کنندہ یا خرید ار کے نام کے اندراج میں غلطی کر ے تو سائل کو ” در بدر “ کر نے کے بجا ئے متعلقہ اراضی سنٹر از خود نام کی درستی کرے ، فرد پر تمام تفصیلات کے ساتھ ساتھ وقت کا اندراج بھی کیا جائے ، معلوم ہو کہ فرد دن کی روشنی میں جاری کیاگیا یا ” رات کی تاریکی “ میں جاری کیا گیا ، سب سے زیادہ شکایات اراضی سنٹر ز کے ایس سی اوز کے بارے میں سامنے آتی ہیں اراضی سنٹر ز پر تعینات ایس سی او ز کے ہر چھ ماہ بعد تبادلوں کا نظام وضع کیا جا ئے اراضی سنٹر ز کے اہل کاروں کے بارے میں شکایات کے لیے باقاعدہ کو ئی سیل نہیں ، اراضی سنٹر ز کے بارے میں شکا یات کے ازالے کے لیے ایک مخصوص سیل بنا یا جا ئے اور وہ سیل شکایات سر عت سے حل کر نے کی تدبیر کرے ، اراضی سنٹر ز کے ایس سی اوز اراضی کے معاملات کے بارے میں وہ ” شد بد “ نہیں رکھتے جس طرح پٹواری اراضی سے جڑ ے تمام معاملات اور اراضی کی تقسیم کے بارے میں جانتے ہیں لہذا ہر اراضی سنٹر میں ہر ایس سی او کے ساتھ متعلقہ مو ضع کے پٹواری کو تعینات کیا جا ئے اس طرح سے جائیداد کے معاملات میں جو مسائل ہیں ان کا بروقت اور صائب حل ممکن ہو سکے گا ، امید واثق ہے کہ نیک نام وزیر مال اوپر کے سطور میں عر ض کی گئیں گزارشات پر احکامات جاری کر کے پنجاب کے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کر نے کی سعی کر یں گے اگر صوبائی وزیر مال اراضی سنٹر ز کے ادارے کو حقیقی معنوں میں عوام دوست بنا نے میں کا مران ٹھہر تے ہیں ، یقین کیجیے بے شمار لا چار شہر یوں کی دعا ئیں ان کا رہتی دنیا تک پیچھا کریں گی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :