عمومی طور پر گریڈ 17اور اس سے اوپر کے انتظامی عہدوں پر براجمان سرکار کے تنخواہ داروں کو ذہین فطین لا ئق فائق مخلوق گردانا جاتا ہے ، کہااور سمجھا جاتا ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ذہین ” پوت “ اپنی ذہانت فطانت اور پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب کے کلیہ پر عمل کر کے سرکار کے اعلی اور کلیدی عہدوں پر فائز ہو جاتی ہے ، قوم کے ان سپوتوں پر سرکار بھی خوب برستی ہے ، گریڈ 17اور اس سے اوپر کے افسران پر سرکار کی نوازشات اتنی کہ کسی قطار شمار میں نہیں آتے لاکھو ں کی تنخواہ الگ دیگر مراعات الگ ، گھر سے باہر قدم رکھتے ہی سرکار گو یا ان افسران کی ” باندی “ کا کردار ادا کر تی ہے ، قوم کے اس لا ئق فائق قبیلے کی خوش بختی ملا حظہ کیجیے کہ خلق خدا کی خدمت کی بھاری بھر کم مراعات انہیں ملتی ہیں آسائش و عشرت سے بھر پور زندگی گزارنے والے یہ افسران اگر صد ق دل، خوف خدا ور انسانیت کا درد محسوس کر کے اپنے فرائض منصبی ادا کریں ، عوام کی اکثریت کی دلوں سے نکلی دعائیں ان کے لیے دنیا اور آخرت کا تو شہ بن سکتی ہیں ، افسر شاہی قبیلہ مگر پر کشش مراعات کے باوجود ہوس کے سمندر میں غو طہ زن نظر آتا ہے ، کسی کو اختیار کا نشہ عوام کی خدمت سے روکتا ہے ، کسی کو اپنا کروفر عزیز تر ہے ، کسی کو اپنے عہد ے کا گھمنڈ کچھ کر نے نہیں دیتا ، کسی کو پیسے کی ہوس نے اپنی قید میں جکڑ رکھا ہے ، افسر شاہی کے تحکمانہ رویے ، عوام سے افسر شاہی کی بے زاری ، عوام کے معاملات میں افسر شاہی کی آخری حدوں کو چھوتی ہو ئی عدم دلچسپی نے عام آدمی کے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے ، افسر شاہی میں ” سر خ فیتے “ کی روش عام ہو نے کے بعد عملاًسرکار کے ہر شعبے میں ” کاہلی “ کا راج ہے ، سر عت سے سرکاری امور کی انجام دہی گویا کسی حد تک خواب بن چکی ، روز مرہ کے سرکاری امور کی ” چلت “ کی رفتار چیونٹی کے رفتار سے اریب قریب ملتی جلتی ہے ، سرکار کے کسی محکمے کے ” منفی رویے “ سے بے زار سائل اگر کسی ” مختیار کل “ افسر کے در پر دستک دیتا ہے اس کے ساتھ بھی مختیار کل گردانے جا نے والے افسر کا بر تاؤ کسی حد تک ” ٹال مٹول “ والا ہو اکر تا ہے ، ہو نا کیا چا ہیے اگر کو ئی سائل کسی محکمہ کے سربراہ کے پاس کو ئی شکا یت لے کر جا ئے ، ہو نا تو یہ چاہیے کہ متعلقہ افسر اسی وقت مجاز افسر کو فون کھڑ کا ئے نہ صرف یہ کہ معاملے کی سختی سے باز پرس کر ے بلکہ معاملے کو جائز سے ” نا جائز “ کے قلب میں ڈالنے والے کمان دار اور اہل کاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کر ے ہو تا مگر کیا ہے، سائل کو بڑی سر د مہری سے ٹال دیا جاتا ہے ، سرکار کے انتظامی اکا ئیوں میں اسسٹنٹ کمشنر ز اور ڈپٹی کمشنر ز کا کردار سب سے کلیدی ہوا کر تا ہے جس ضلع کو بھلے مانس اور رب کریم کا خوف رکھنے والا ڈپٹی کمشنر نصیب ہو جا ئے اس ضلع کے باسیوں کے باگ جاگ جاتے ہیں عین اسی طر ح کا معاملہ اسسٹنٹ کمشنر کا بھی ہے جس تحصیل کا اسسٹنٹ کمشنر مخلوق خدا کا درد اپنے دل میں رکھتا ہو ، مشاہدہ کر لیجیے اس تحصیل کے سارے ” ٹیڑ ے “ ناک کی سیدھ میں ہو جا یا کر تے ہیں ، ضلعی اور تحصیل سطح پر نیک نام ” افسر اعلی “ کی آمد کے بعد دوسرے محکموں کے سربراہان بھی خدمت خلق کو اوڑھنا بچھو نا بنا لیتے ہیں ، عوامی خدمت کے جذبے سے لیس ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی موجودگی میں کسی محکمہ کے سر براہ کی جرات تک نہیں ہوتی کہ وہ خدمت خلق کے باب میں ذرا سی کو تا ئی کرے ، کل کلا ں تک حکومتیں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے عہدوں کی اہمیت کو محسوس کر تے ہو ئے ان عہدوں پر نیک نام نیک دل نر م مزاج اور خلق خدا کے وصف سے لیس افسران کا تقرر کیا کر تی تھیں ، دراصل ڈپٹی کمشنر اسسٹنٹ کمشنر ضلعی اور تحصیل سطح پر محکموں کے سربراہان کسی بھی حکومت کا غازہ ہوا کر تے ہیں ، یہی افسران کسی بھی حکومت کی نیک نامی یا بد نامی میں کلیدی کر دار ادا کر تے ہیں اسی خاص نکتے کو مد نظر رکھ کر ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر اسی طرح ضلع اور تحصیل سطح پر دوسرے محکموں کے سربر اہان کا تقرر کا وطیرہ حکومتی سطح پر اپنا یا جاتا تھا ، برا ہو مگر سفارش چاپلو سی سیاسی وابستگی اور پیسے کے ریل پیل کا کہ ان ” خرافات“ نے انسانی اوصاف پر فی زمانہ فوقیت حاصل کر لی ہے ، سرکار کے کلیدی عہدوں پر سفارش اور سیاسی پشت پنا ہی نے ” قوم کا مکھن “ گر دانے جا نے والے افسر قبیلے کو عوام کی خدمت کی جگہ سیاسی خدمت کی جانب مائل کر دیا ہے ، اہلیت قابلیت کو رزق خاک بنا لینے کے بعد سے عوام کے مسائل ختم ہو نے کے بجا ئے تیزی سے بڑھ رہے ہیں ، اوپر سے یونین کو نسل سطح تک انتظامی ڈھانچہ مو جود ہو نے کے باوجود عوام الناس کے مسائل مگر ہنوز توجہ طلبہ بلکہ حل طلب ہیں ، قوم کا مکھن تصور کی جانے والی مخلوق خدمت خلق ایک طرف کر کے ” انجانی راہوں “ کی مسافر بن چکی ہے ، جن کا تقرر عوام کے لیے آسانیاں پیدا کر نے کے لیے کیا گیا وہی عوام کے درد سے لا تعلق ٹھہر ے پھر کیسے عوام کے مسائل حل ہو ں گے اگر وقت ملے تو سوچ لیجیے گا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔